Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

رمضان ڈائری: ملی جلی آبادی ہے، دوسروں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے

Updated: March 23, 2025, 1:14 PM IST | Mohammed Habib | Mumbai

مساجد کی رونق تو خیراس وقت نظر آہی جاتی ہے جب نماز پڑھنے جاتے ہیں، بازارکی رونق دیکھنے کیلئےمیں نے کاندیولی کے گنیش نگر علاقے کا رخ کیا۔ نا

Children can be seen playing cricket on the street. Photo: INN.
سڑک پر بچوں کو کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

رمضان المبارک ایک ایسا مہینہ ہے جس میں جوش ایک دم ہائی ہوتا ہے لیکن اس جوش میں کوئی جنون نہیں بلکہ ایک جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور یہ جذبۂ ایمانی ہے جو رمضان البارک کے آتے ہی مسلمانوں پرطاری ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں مسلمان مسجدوں میں نظر آنے لگتے ہیں۔ ۲؍عشروں تک تو یہ جوش اسی طرح ہائی رہتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ تیسرے عشرے میں یہ کم ہوجاتا ہے بلکہ تیسرے عشرے میں یہ مزید اونچائیوں پر پہنچ جاتا ہےکیوں کہ اسی عشرے میں لیلۃ القدر ہوتی ہے اور اسی عشرے میں عام طورپر اعتکاف کیا جاتا ہے۔ جہاں کچھ لوگ اعتکاف میں بیٹھ کرمسجدوں کی رونق میں اضافے کا سبب بنتے ہیں توکچھ لوگ عید کی خریداری کیلئےبازروں کی بھیڑبھاڑ بڑھانے پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں رونق دونوں جگہ ہوتی ہے۔ 
مساجد کی رونق تو خیراس وقت نظر آہی جاتی ہے جب نماز پڑھنے جاتے ہیں، بازارکی رونق دیکھنے کیلئےمیں نے کاندیولی کے گنیش نگر علاقے کا رخ کیا۔ نام پر مت جائیے، کردارپر نظر رکھئے۔ کاندیولی میں واقع اس گنیش نگر میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ ایک مقامی شخص کے مطابق یہاں مسلمانوں کی آبادی ۶۰؍ فیصد کے قریب ہے لیکن اپنے پڑوسی محلے’ایکتا نگر‘ کے اسم بامسمیٰ ان دونوں علاقوں میں عوام اتحادو اتفاق کے ساتھ رہتے ہیں۔ 
رمضان کی رونقیں دیکھنے کیلئے جب گنیش نگر کے اسٹاپ پر اترا تو پیٹرول پمپ کےٹھیک سامنے قادری مسجد کی شاندار عمارت نظر آئی جسے رمضان کی مناسبت سےچھوٹے قمقموں سے سجایا گیا ہےجس میں یہ مسجد مزید دلکش نظر آرہی ہے۔ عام طورپرمسجدوں کے قریب رمضانی بازار سجا کرتے ہیں اسی امیدپر میں مسجد کی گلی میں داخل ہوا لیکن یہاں ایسے کسی بازار کے آثار تک نظر نہیں آئے۔ ہاں گلی کے کنارے ۲؍افراد کھڑے باتیں کررہے تھے۔ عظیم شاہ سے میں نے پوچھاکہ یہاں رمضان کی رونق نظر نہیں آرہی، کیا یہاں کوئی بازار وغیرہ نہیں سجتا؟کہنے لگے ہم نے اس کا ٹھیکہ مالونی والوں کو دے رکھا ہے۔ پھرسنجیدہ ہوتے ہوئے کہنے لگے دراصل یہاں ملی جلی آبادی ہے اس لئے دوسروں کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے، اگر راتوں کو بازار سجائے جائیں گے تو دیگرمذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو پریشانی محسوس ہوسکتی ہے۔ ویسے بھی مالونی زیادہ دور نہیں ہےوہاں دیر رات تک بازار کھلے رہتے ہیں اور جس کو خریداری کرنا ہوتی ہے وہاں چلا جاتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ یہاں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہوگی تو انہوں نے بتایا کہ یہاں ۶۰؍فیصد مسلمان بستے ہیں۔ مجھے ان سے بات کرتا دیکھ کر اور بھی لوگ جمع ہوگئے۔ میں نے مسجدوں کے تعلق سے پوچھاتو ان لوگوں نے۱۱؍تا ۱۲؍مسجدوں کےنام گنوادیئے جو کہ محض ایکتانگر اورگنیش نگر کے اندر ہی آباد ہیں۔ ساتھ ہی بتایا کہ ان میں قادری مسجد، رحمت مسجد اور دارالسلام مسجد زیادہ مشہور ہیں جو باہر سےبھی نظرآتی ہیں۔ 
باتوں باتوں میں امن اور بھائی چارے کی بات نکل آئی۔ وہاں موجود عبدالرحیم انصاری کہنے لگےیہاں کے امن و آمان کا اندازہ اس بات سے لگا سکتےہیں کہ ۱۹۹۲ء میں بھی یہاں سکون کا ماحول تھا۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ یہاں کی ۹۵؍فیصد آبادی کا تعلق یوپی کے ضلع گونڈہ، بستی، سدھارتھ نگر اور ان کےقریبی علاقوں سےہے۔ اتنے امن کی بات کرنے کے باوجود کہیں نہ کہیں ان کی باتوں میں آج کے حالات کے تعلق سے تشویش بھی نظر آئی۔ وہ بتانے لگے کہ پہلے تو ایک دوسرے کے تعلق سے احترام کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ دیگرلوگ ہمیں دیکھ کر محض اسی لئے ادب سے پیش آتے تھے کہ’رام کی نگری سےآئے ہو‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس کا بھی ذکر کیا کہ آج گائوں میں مسجدوں کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے پڑتے ہیں۔ 
وہاں سے آگے بڑھا تو ۹۰؍فٹ روڈ کا چوراہانظرآیا۔ یہ وہی سڑک ہے جس پر افطار کےسامان کا بازار سجتا ہے۔ اس پورے علاقے میں افطار کا سامان خریدنے کیلئے یہی ایک بازارہےجہاں پورے علاقے بلکہ دیگر علاقوں کےلوگ بھی آتے ہیں۔ اس بازار کی رونق میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ اس روڈ پر مختلف ہوٹل آباد ہیں شاید اسی وجہ سےیہاں افطار کا سامان فروخت ہوتا ہے۔ چونکہ رات کے ۱۲؍ بج چکے تھے اس لئے عصر اور مغرب کے بیچ لگنے والے ٹھیلے تو نہیں تھے چند ریسٹورنٹ کھلے ہوئے تھے۔ سلیمان عثمان سے ملتے جلتے نام کی ایک مٹھائی کی دکان تو آپ کو تقریباً ہر مسلم محلے میں مل جائے گی سو یہاں بھی ہے، وہ بھی اب بند ہورہی تھی۔ کپڑے وغیرہ کی ایک بھی دکان نہیں اس کے باوجودیہاں کافی چہل پہل نظر آئی۔ کچھ نہیں تو بچے سڑک پر کرکٹ کھیل رہےتھےاوراپنے محلے کی رونق بڑھائے ہوئے تھے۔ ایک بچےسے میں نے پوچھا کہ اس وقت کیوں کھیل رہے ہوتو کہنے لگا یہاں کوئی میدان توہےنہیں، حکومت نے ۹۰؍فٹ کا روڈ بنادیا ہےاس پر بھی دن بھر بھیڑاور ٹریفک رہتاہےتوکہاں اورکب کھیلیں۔ ویسے بھی رمضان کا مہینہ چل رہا ہے، اس کی رونق تو ہونا ہی چاہئے ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK