Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

رمضان ڈائری: خریداری عروج پرمگر ہر دل میں فلسطین دھڑک رہا ہے !

Updated: March 30, 2025, 11:45 AM IST | Sharjil Qureshi | Mumbai

اس رمضان کی اہم خصوصیت یہ رہی کہ مہرون کا بازار ہو یا بھساول کا، نہایت مناسب داموں میں بےشمار اشیاء گویا سوئی سے لے کر ہاتھی تک دستیاب تھیں۔

A view of the Eid Bazaar at Raza Tower Chowk in Bhasawal. Photo: INN.
بھساول کے رضا ٹاور چوک پر لگنے والے عید بازار کا منظر۔ تصویر: آئی این این۔

شمالی مہاراشٹر کاشہرجلگائوں ایک حساس شہرہے جس نے کئی فسادات اور کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اس لئے نئی نسل ان واقعات کو سنتے سنتے خود بھی کافی حساس ہو گئی ہے۔ اس رمضان میں اس شہر میں کئی ایسے واقعات دیکھے گئے جو انسانیت کو شرمسار کرنے والے تھے۔ سب سے زیادہ قابل ذکر وہ واقعہ رہا جس میں تلوار بردار ایک شرپسند زین آباد کی مسجد میں گھسا اور آس پاس رکھے سامان کی توڑ پھوڑ کی۔ پولیس نے بروقت اقدام کیا اور وہاں کے غیر مسلم بھائیوں نے بھی اس کی لعنت ملامت کی۔ دوسرے روز مشتعل نوجوان کورٹ کے آس پاس جمع ہو گئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ملزم کی ضمانت نہ ہو اور ہوا بھی ایسا ہی۔ 
اس رمضان کی اہم خصوصیت یہ رہی کہ مہرون کا بازار ہو یا بھساول کا، نہایت مناسب داموں میں بےشمار اشیاء گویا سوئی سے لے کر ہاتھی تک دستیاب تھیں۔ خریدار بھی اپنے اور تاجر بھی اپنے۔ علاقہ بھی اپنا اور سہولیات بھی بے شمار۔ اس پر چپے چپے پر نوجوانوں کی نظر۔ یہ سلسلہ چند سالوں سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ ایک اور اہم اقدام جو مسلم نوجوانوں نے اٹھایا وہ ہے دعوت افطار اور اُس کے فوراً بعد دعوت طعام کا جس میں غیر مسلم افراد کو کثرت سے مدعو کیا گیا اور اُن سے موجودہ حالات پر گفتگو کی گئی۔ غیر مسلم بھائیوں کے خیالات سُن کر خو شگوار احساس ہوا۔ یہ باتیں حوصلہ بڑھانے والی ہیں۔ اس اقدام کا سہرہ ’’اقراء‘‘ کی روح رواں ڈاکٹر عبدالکریم سالار کے سر باندھتا ہے جو اس ضمن میں نوجوانوں کو متحرک کررہے ہیں ۔ 
اس مرتبہ، اپنے علاقے کے مدارس اور خانقاہوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کا جذبہ بھی دیکھا گیا۔ بیرون ریاست کے مدارس کی امداد کے لئے ہلکا سا پس وپیش بھی محسوس کیا گیا۔ مدرسے چاہے جہاں کے ہوں، ملت اسلامیہ کے قلعے ہیں لہٰذا جس قدر ممکن ہو علاقہ دیکھے بغیر اُن کی مدد کرنی چاہئے مگر سوچنے کا ایک زاویہ یہ بھی تو ہے کہ پہلے اپنا علاقہ دیکھیں اس کے بعد بیرونی۔ اسی لئے مذکورہ پس و پیش ہمیں بُرا نہیں لگا۔ کچھ مسلم علاقوں کی مساجد اور گلیوں میں خوبصورت لائٹنگ لگائی گئی۔ ایک دن ہم شہید عبدالحمید نگر علاقہ میں سحری کے وقت پہنچے تو سحری جگانے والوں کی آواز نے متوجہ کیا۔ معلوم ہوا دو نوجوان ہیں جن کے والد سحری جگاتے تھے، اب یہ اُس روایت کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ سحری جگانے کی روایت کو زندہ رکھنا ان کا مقصد ہے۔ 
یہاں عیدگاہوں پر تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔ نمازِ عید الفطر کے اوقات طے کئے جاچکے ہیں۔ لوگ طے کرچکے ہیں کہ اُنہیں محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنی ہے یا عید گاہ کا رُخ کرنا ہے۔ اکثر لوگوں کو عید گاہ میں بڑی سہولت محسوس ہوتی ہے۔ عید گاہ جاکر ہی اُنہیں عید کا لطف ملتا ہے۔ مگر عید گاہ جانے سے پہلے اِدھر بازاروں میں خریداری کا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ خریداری کا جوش و خروش ہے مگر ہر دل میں فلسطین دھڑک رہا ہے۔ ۲۷؍ ویں شب کی دعائوں میں بندگان خدا نے رو رو کر اہل فلسطین کو یاد کیا۔ وہ شہر جلگاؤں ہو یا ضلع جلگاؤں یا پورا خاندیش ہی کیو ں نہ ہو، بچے تو بچے ہیں، ہر جگہ ان میں بے شمار مماثلتیں ملتی ہیں مثلاً اب یہی دیکھ لیجئے کہ ہر شہر، ضلع اور ریاست کے بچوں کو چاند دیکھنے کا انتظار ہے تو ویسی ہی بے چینی جلگاؤں میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے بلکہ بعض بچے تو اس حد تک بے قرار ہیں کہ اُن کا بس چلے تو چاند خود نکال لیں اور نئے کپڑوں، ٹوپیوں، کرتوں، اوڑھنیوں کو زیب تن کرلیں۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ بچے سوچتے بھی ہوں کہ جب عید کا سارا سازو سامان گھر میں آچکا ہے تو عید کیلئے انتظار کیوں کیا جائے؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK