Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ذوالقرنین کا تعارف، یاجوج ماجوج کا فساد، دیوار کی تعمیر اَور موسیٰؑ کی پیغمبری پر مشتمل آیات سنئے

Updated: March 15, 2025, 2:14 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

’’ہم نے ان (ذوالقرنین) کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو ہر قسم کا سامان (وافر مقدار میں) دیا تھا۔‘‘

The Holy Quran is a reminder for those who fear Allah, and it has been revealed by the One Who created the earth and the high heavens. Photo: INN
قرآن مجید ڈرنے والوں کے لئے نصیحت ہے اور یہ اس ذات پاک کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین اور بلند آسمان پیدا کئے ہیں۔ تصویر: آئی این این

آج :پندرہویں تراویح ۱۶؍واں پارہ : قَالَ أَلَمْ 
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ گزشتہ پارے میں شروع ہوا تھا۔ آخر میں یہ ذکر تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالا تھا، اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ آپ نے بے جا حرکت کی ہے کہ لڑکے کو بلا کسی سبب کے ہلا ک کردیا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے ان کا وعدہ یاد دلایا اور فرمایا کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ سے میرے ساتھ (رہ کر اور اس طرح کے واقعات دیکھ کر) صبر نہ ہوسکے گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ (ایک مہلت اور دیجئے) اگر اس مرتبہ میں آپ سے کسی معاملے میں کچھ پوچھوں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے، بے شک آپ میری طرف سے عذر کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ پھرد ونوں (حضرات) آگے چلے یہاں تک کہ ان دونوں کا گزر ایک گاؤں والوں پر ہوا تو انہوں نے گاؤں والوں سے کھانا طلب کیا۔ گاؤں والوں نے کھانا دینے سے انکار کردیا، اتنے میں انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گرا چاہتی تھی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے وہ دیوار سیدھی کردی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام پر اجرت لے لیتے (آخر کو انہوں نے کھانا دینے سے انکار کیا ہے)۔ اس پر حضرت خضر علیہ السلام نے کہا کہ یہ لمحہ میری اور آپ کی جدائی کا ہے اور اب میں آپ کو ان باتوں کی حقیقت بتلائے دیتا ہوں جن پر آپ نے صبر نہیں کیا۔ جہاں تک کشتی کا معاملہ ہے، وہ چند غریب لوگوں کی تھی جو (اس کے ذریعے) دریا میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اس کشتی میں کوئی عیب پیدا کردوں (کیونکہ) ان لوگوں کے پیچھے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی (ان کے مالکان سے) چھین لیا کرتا تھا۔ لڑکے کا قصہ یہ ہے کہ اس کے والدین صاحب ایمان تھے۔ ہمیں ڈر ہوا کہ وہ ان دونوں پر سرکشی اور کفر کا اثر نہ ڈال دے (یعنی وہ دونوں بیٹے کی محبت میں کہیں ایمان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ) چنانچہ ہماری یہ خواہش ہوئی کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو بدلے میں (دین دار ی) میں اس سے اچھی اور محبت کرنے میں اس سے بڑھ کر اولاد عطا کرے، اور وہ جو دیوار تھی ایسے دو یتیم بچوں کی تھی جو اس گائوں میں رہتے ہیں اور اس دیوار کے نیچے ان دونوں کا خزانہ (مدفون) ہے، ان کے والد نیک انسان تھے آپ کا رب چاہتا ہے کہ یہ دونوں بالغ ہوں اور آپ کے رب کی مہربانی سے اپنا خزانہ نکالیں اور یہ (تمام) کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کئے ہیں، یہ ہے ان چیزوں کی حقیقت جس پر آپ کو صبر نہ ہوسکا۔ 
اگلی آیات میں فرمایا گیا ہے کہ آپ سے یہ لوگ ذوالقرنین کے متعلق بھی دریافت کرتے ہیں (کہ وہ کون تھے) آپ فرمادیجئے کہ میں اس کا ذکر ابھی تمہارے سامنے کروں گا۔ (اس کے بعد ذوالقرنین کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) ہم نے ان کو روئے زمین پر حکومت دی تھی اور ہم نے ان کو ہر قسم کا سامان (وافر مقدار میں ) دیا تھا، چنانچہ وہ (بلاد مغرب کی فتح کے ارادے سے) ایک راہ پر چلے یہاں تک کہ جب اس جگہ پہنچے جہاں آفتاب غروب ہوتا ہے (مراد جانب مغرب کی آخری آبادی) تو انہوں نے آفتاب کو دیکھا کہ وہ ایک سیاہ پانی کے چشمے میں ڈوب رہا ہے اور اس کے پاس انہوں نے ایک قوم بھی دیکھی۔ (وہ قوم اہل کفر میں سے تھی) ہم نے کہا اے ذوا لقرنین (تمہیں اختیار ہے) چاہے تو تم اس قوم کو سزا دو اور چاہو تو ان کے بارے میں نرمی اختیار کرو۔ انہوں نے عرض کیا: جو ظالم (وکافر) ہوگا ہم اس کو سزا ضرور دیں گے، پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹ جائے گا جو اس کو اس سے بھی برا عذاب دے گا اور جو ایمان لائے گا اور اچھا عمل کرے گا اس کے لئے بہترین جزا ہے، اور ہم بھی (دنیا میں ) اسے سہولت پہنچائیں گے۔ ذوالقرنین پھر آگے بڑھے (اس مرتبہ رخ مشرق کی طرف تھا) یہاں تک کہ آفتا ب نکلنے کی جگہ پر(مشرق کی انتہائی آبادی تک) پہنچے، دیکھا کہ آفتا ب ایک ایسی قوم پر طلوع ہورہا ہے کہ ہم نے ان کے لئے آفتاب سے کوئی رکاوٹ نہیں بنائی تھی (وہ لق ودق صحرا میں دھوپ کے اندر تھے)۔ 

یہ بھی پڑھئے:یوسف ؑ کی بادشاہت، دربار میں ان کے بھائیوں کی آمد اور معافی سماعت کیجئے

یہ قصہ اس طرح ہے اور جو کچھ ذوالقرنین کے پاس تھا ہم کو اس کی پوری خبر ہے، پھر وہ ایک راستے پر چل پڑے، یہاں تک کہ ایسے مقام پر جا پہنچے جو دو پہاڑوں کے درمیان واقع تھا۔ ان پہاڑوں کے پیچھے ایک قوم ملی، یہ لوگ کوئی بھی بات سمجھ ہی نہیں پاتے تھے۔ (پھر کسی طرح) انہوں نے عرض کیا کہ اے ذو القرنین یا جوج ماجوج زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، کیا ہم آپ کو کچھ رقم بطور خراج ادا نہ کردیں اور آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں۔ ذو القرنین نے فرمایا کہ میرے رب نے جس مال میں تصرف کا اختیار دیا ہے وہ بہت ہے، البتہ تم (افرادی) قوت سے میری مدد کرو تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک موٹی دیوار بنادوں۔ 
 آگے دیوار کی تعمیر کا ذکر ہے کہ لوہے کے بڑے بڑے گاٹر لگا کر دیوار بنائی گئی اور اس پر تانبہ پگھلا کر ڈالا گیا۔ سورہ کا اختتام اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی پر ہوتا ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لئے روشنائی کی جگہ سمندر ہو تو سمندر کا پانی ختم ہوجائے اور میرے رب کی باتیں ختم نہ ہوں اگرچہ ہم دوسرا (سمندر) بھی اسی جیسا اس کی مدد کو لائیں۔ 
اس پارے میں سورۂ مریم بھی ہے۔ پہلے دو رکوع میں حضرت زکریا، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے قصے سنانے کے بعد تیسرے رکوع میں حالات کی مناسبت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ سنایا گیا ہے کیوں کہ وہ بھی ایسے ہی حالات میں اپنے والد، اہل خاندان اور اہل وطن کے ظلم وستم سے عاجز آکر گھر سے نکل گئے تھے۔ کفار مکہ کو بتلایا گیا کہ آج ہجرت کرنے والے مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے حالات سے دو چار ہیں، اور تم جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی اولاد ہو، ان ظالموں کی جگہ لے رہے ہو جنہوں نے ایک دن تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ دوسری طرف سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھ ہجرت کرنے والوں کو یہ خوش خبری دی گئی کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وطن سے نکلنے کے بعد عظمت اور سر بلندی ملی اسی طرح آپ لوگوں کو بھی ملے گی۔ اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا کہ وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے، اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق فرمایا گیا کہ بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھےاور ہم نے انہیں بلند مقام پر اٹھا لیا تھا۔ اس سورہ کے خاتمے پر فرمایا گیا کہ اور ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے، کیا آپ ان میں سے کسی کا وجود بھی دیکھتے ہیں یا کسی کی کوئی آہٹ بھی سنتے ہیں۔ 
اگلی سورہ طٰہٰ ہے۔ سورہ کے آغاز میں قرآن کریم کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہم نے یہ قرآن آپ پر اس لئے نہیں اتارا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں یہ تو ڈرنے والوں کے لئے نصیحت ہے اور یہ اس ذات پاک کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جس نے زمین اور بلند آسمان پیدا کئے ہیں، جو رحمٰن عرش پر قائم ہے اور جو مالک ہے ان سب چیزوں کا جو آسمان وزمین میں ہیں اور ان دونوں کے درمیان ہیں اور جو چیزیں تحت الثری میں ہیں۔ چاہے تم پکار کر کہو وہ تو چپکے سے کہی ہوئی بات بلکہ اس سے بھی مخفی بات جانتا ہے، اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کے لئے بہترین نام ہیں، ان تمہیدی کلمات کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا جارہا ہے کہ کیا آپ کو موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر پہنچی ہے؟ اس کے بعد حضرت موسیٰ کا مکمل قصہ مذکور ہے، اس قصے کے بہت سے حصے سابقہ پاروں میں آچکے ہیں، یہاں اتنا ذکر ہے کہ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) سے طے شدہ معاملہ پورا کرنے کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، اپنے اہل و عیال کے ساتھ وطن تشریف لانے لگے تو راستے میں انہوں نے ایک مقام پر آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے، شاید میں اس میں سے ایک آدھ انگارہ لے کر آؤں یا اس کے پاس (جاکر) راستے کا پتہ چل جائے۔ 
 جب وہ آگ کے پاس آئے تو انہیں پکارا گیا: اے موسیٰ! میں تمہارا رب ہوں اپنے جوتے اتار دو، تم ایک وادئ مقدس میں ہو، میں نے تمہیں (پیغمبری کیلئے) چن لیا ہے اب تم پر جو وحی کی جارہی ہے اسے غور سے سنو۔ اس کے بعد کچھ ہدایات کے ساتھ فرعون تک پہنچنے کا حکم ہے، باقی قصہ گزشتہ پاروں میں مختلف جگہوں پر گزر چکا ہے، اورکچھ واقعات آئند ہ پاروں میں بھی آنے والے ہیں، اس قصے کے اختتام پر مشرکین مکہ کے ایک اور سوال کا ذکر ہے کہ وہ آپ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا، اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور شکن نہ دیکھو گے، اس وقت منادی کی آواز پر سب لوگ ناک کی سیدھ میں چلے آئینگے اور تمام آوازیں اللہ کے سامنے دب جائینگی، تم ایک سُر سراہٹ بھی نہ سن پاؤ گے، اس دن کوئی سفارش نفع نہ دے گی اِلا ّ یہ کہ اللہ رحمٰن ورحیم کسی کو اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے، اللہ تمہارے آگے پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور دوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے، لوگوں کے سر اس حیُّ وقیوم کے آگے جھک جائیں گے اور جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا ہوگا وہ (اس دن) ناکام ونامراد ہوگا، اور جس نے ایمان کے ساتھ نیک عمل کئے ہوں گے اسے نہ کسی ظلم کا خوف ہوگا اور نہ حق تلفی کا خطرہ ہوگا۔ 
 آگے قرآن کریم کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہم نے اس طرح قرآن کو عربی میں نازل کیا ہے اور اس میں طرح طرح کی وعیدیں بیان کی ہیں شاید وہ لوگ ڈر جائیں یا وہ اس سے نصیحت پکڑیں، اللہ تعالیٰ بلند وبرتر ہے، بادشاہ حقیقی ہے، قرآن کریم پڑھنے میں جلدی نہ کیا کیجئے جب تک آپ کی طرف اس کی وحی مکمل نہ پہنچ جائے اور یہ دعا کیا کیجئے کہ اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔ 
 اس کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کا قصہ ابتدائے آفرینش سے مذکور ہے، یہ قصہ بھی مختلف انداز میں کئی پاروں میں آچکا ہے، یہ قصہ سنانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اس میں واقعتاً اہل فہم کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں، اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات طے نہ کردی گئی ہوتی اور مہلت کی ایک مدت متعین نہ کردی گئی ہوتی تو ان کا بھی فیصلہ ہوچکا ہوتا جو باتیں یہ (مشرکین) کیا کرتے ہیں آ پ ان پر صبر کیا کیجئے اور اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کیا کیجئے، سورج نکلنے سے پہلے، اس کے غروب ہونے سے پہلے رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرتے رہئے اور دن کے آغاز واختتام پر بھی تاکہ آپ خوش ہوں اور دنیوی زندگی کی اس شان وشوکت کی طرف جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو دے رکھی ہے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK