Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

انبیاء اور رسولوں کا ذکر خیر، اہل کتاب کو نصیحتیں اور بنی اسرائیل کی بدعہدیاں

Updated: March 05, 2025, 3:45 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

آج رات کی تراویح کا آغاز چھٹے پارے سے ہوتا ہے۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کو یہ پسند نہیں کہ کسی کی بُری بات زبان سے ظاہر کی جائے، إلاّ یہ کہ کوئی شخص مظلوم ہو (یعنی وہ ظالم کی برائی کرسکتا ہے) اللہ سننے اور جاننے والا ہے اگر چہ تم علی الاعلان یا چھپ کر بھلا ئی کرو یا معاف کردو، اللہ بڑے معاف کرنے والے اور قدرت والے ہیں۔

Purity and cleanliness are given special importance in Islam, which is why the Holy Quran also guides Muslims in the matter of purity. Photo: INN
طہارت اور پاکیزگی کو اسلام میں خاص اہمیت دی گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں بھی طہارت کے ضمن میں مسلمانوں کی رہنمائی کی گئی ہے۔ تصویر: آئی این این

آج :پانچویں تراویح چھٹا پارہ :لاَ یُحِبُّ اللہ 
آج رات کی تراویح کا آغاز چھٹے پارے سے ہوتا ہے۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کو یہ پسند نہیں کہ کسی کی بُری بات زبان سے ظاہر کی جائے، إلاّ یہ کہ کوئی شخص مظلوم ہو (یعنی وہ ظالم کی برائی کرسکتا ہے) اللہ سننے اور جاننے والا ہے اگر چہ تم علی الاعلان یا چھپ کر بھلا ئی کرو یا معاف کردو، اللہ بڑے معاف کرنے والے اور قدرت والے ہیں۔ اس کے بعد والی آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ تمام رسولوں کو نہیں مانتے بلکہ کچھ کو مانتے ہیں اور کچھ کو نہیں مانتے وہ کافر ہیں، ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لائیں اور ان میں تفریق نہ کریں۔ آگے یہودیوں کے مطالبے کا ذکر ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ ان پر کوئی نوشتہ نازل فرمادے، حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو یہ لوگ اس سے بھی بڑے بڑے مطالبے کرچکے ہیں اور یہاں تک فرمائش کرچکے ہیں کہ ہمیں اللہ کو کھلم کھلا دکھلائیے، اس کے بعد یہود کی سرکشیوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ 
 چند آیات کے بعد بتلایا گیا ہے کہ یہودیوں کا آپ سے کسی آسمانی دستاویز کا مطالبہ کرنا تو اس لئے بھی غلط ہے کہ یہ سلسلۂ نبوت کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے بلکہ پرانا ہے، قدیم انبیاء کو تو یہ یہود کسی شرط کے بغیر تسلیم کرچکے ہیں اور آپ کے معاملے میں شرط رکھ رہے ہیں، یہ ان کا بے جا اور غلط مطالبہ ہے جب کہ ہم نے آپ پر اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح حضرت نوح علیہ السلام پر اور ان کے بعد دوسرے پیغمبروں پر نازل کی تھی۔ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کی اولاد اور عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان علیہم الصلوٰۃ والسلام پر وحی نازل کی تھی اور ہم نے داؤدعلیہ السلام کو زبور عطا کی۔ آگے کئی آیات تک مختلف انبیاء اور رسولوں کا ذکر خیر ہے۔ آخر میں لوگوں سے آخری بات کہہ دی گئی کہ اے لو گو! تمہارے پاس رسولؐ، اللہ کی طرف سے حق بات لے کر آچکے ہیں اب تم ایمان لے آؤ، یہی بات تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم کفر کرو گے تو جان لو کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ کا ہے اور اللہ جاننے والے اور حکمت والے ہیں۔ 
 آئندہ آیات میں اہل کتاب کو کچھ نصیحتیں ہیں، مثال کے طور پر ان کو ایک نصیحت یہ کی گئی کہ وہ اپنے دین میں غلو نہ کریں اور اللہ کی طرف حق بات کے علاوہ کوئی بات منسوب نہ کریں، عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام بس اللہ کے رسول اور اس کا حکم تھے جو اللہ نے مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا تھا اور وہ اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ایک روح تھے، لہٰذا تم اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین خدا ہیں، اس سے باز آجاؤ اسی میں تمہارے لئے بہتری ہے، اللہ صرف ایک ہے، وہ اس بات سے پاک ہے کہ اس کے کوئی بیٹا ہو، کئی آیات تک یہی مضمون بیان کیا گیاہے۔ 
 سورہ النساء کا اختتام ایک اہم فقہی مسئلے پر ہوا ہے، بنیادی طور پر یہ سورہ احکام پر ہی مشتمل ہے اگرچہ درمیان میں کچھ دوسری چیزیں بھی آگئی ہیں، اور وہ فقہی مسئلہ یہ ہے کہ : لوگ آپ سے فتویٰ (یعنی شرعی حکم) دریافت کرتے ہیں۔ فرما دیجئے کہ اﷲ تمہیں (بغیر اولاد اور بغیر والدین کے فوت ہونے والے) کلالہ* (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کی ایک بہن ہو تو اس کے لئے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کی صورت میں اس کا) بھائی اس (بہن) کا وارث (کامل) ہوگا اگر اس (بہن) کی کوئی اولاد نہ ہو، پھر اگر (کلالہ بھائی کی موت پر) دو (بہنیں وارث) ہوں تو ان کے لئے اس (مال) کا دو تہائی (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے، اور اگر (بصورتِ کلالہ مرحوم کے) چند بھائی بہن مرد (بھی) اور عورتیں (بھی وارث) ہوں تو پھر (ہر) ایک مرد کا (حصہ) دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہوگا۔ (یہ احکام) اﷲ تمہارے لئے کھول کر بیان فرما رہا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو، اور اﷲ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ 
یہاں سے سورۂ المائدہ کا آغاز ہوتا ہے، اس سورہ کے تین بنیادی مضامین ہیں : (۱) مسلمانوں کو مذہبی، تمدنی اور سیاسی ہدایات (۲) مسلمانوں کو عدل وانصاف کے راستے پر قائم رہنے کی تلقین (۳) اہل کتاب کو تنبیہ اور فہمائش۔ سورہ کا آغاز اس ہدایت سے ہوتا ہے کہ اے ایمان والو! عہدو پیمان پورے کیا کرو، تمہارے لئے تمام جانور حلال کردیئے گئے ہیں سوائے ان کے جو آگے بتلائے جائیں گے۔ اس کے بعد والی آیات احرام کی حالت میں شکار کی ممانعت اور دوسرے مضامین پر مشتمل ہیں، پھر حرام جانوروں کا ذکر ہے کہ تم پر حرام کیا گیا مردار جانور، خون اور سورکا گوشت اور وہ جانور جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور وہ جانور جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا اونچائی سے گر کر یا ٹکرا کر مر گیا ہو یا اس کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا ہو، إلاّ یہ کہ تم نے اسے زندہ ذبح کر لیا ہو، وہ جانور بھی حرام ہے جو کسی تھان پر (بتوں کے آگے) ذبح کیا گیا ہو اور تمہارے لئے پانسوں کی تقسیم بھی حرام ہے (اس میں رمل، جفر، نجوم نچھتر، دست شناسی، فال، جوا، لاٹری، معمہ وغیرہ سب داخل ہیں ) اور یہ ساری چیزیں گناہ ہیں، آج اہل کفر کو تمہارے دین سے پوری طرح مایوسی ہوچکی ہے، تم ان سے خوف مت کھاؤ بلکہ صرف مجھ سے ڈرو، آج میں نے دین کو تمہارے لئے مکمل کردیا ہے اور تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی ہے اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کرلیا ہے۔ 
فرمایا گیا کہ آج تمہارے لئے پاکیزہ چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔ اس کے بعد پاکباز مومن اور پارسا کتابیہ عورتوں کا ذکر ہے۔ پھر طہارت وغیرہ کے متعلق کچھ احکام ہیں، فرمایا: اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں سمیت دھولو اور اپنے سر کا مسح کرلو اور پاؤں بھی ٹخنوں سمیت دھولو، اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہوجاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی استنجے سے فارغ ہوکر آیا ہو یا تم بیویوں کے پاس گئے ہو اور پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو اور اس پر ہاتھ مار کر منہ اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔ اللہ تم پر تنگی نہیں چاہتا مگر وہ تمہیں پاک صاف رکھنا چاہتا ہے۔ 
 اس کے بعد بنی اسرائیل کی بد عہدیوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں اور ان کے عقائد ذکر کئے گئے ہیں اور آخر میں دو ٹوک لفظوں میں ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ اے اہل کتاب تمہارے پاس ہمارے رسول آپہنچے ہیں جو تمہیں صاف صاف بتلاتے ہیں ایسے وقت میں جب کہ رسولوں کا سلسلہ (بہت دنوں سے) موقوف تھا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس نہ کوئی بشارت دینے والا آیا اور نہ کوئی ڈرانے والا آیا، اب بشارت دینے والے اور ڈرانے والے آگئے ہیں، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں۔ 
 حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قوم یہود نے طرح طرح کے مطالبوں اور فرمائشوں سے جس قدر ستایا اس کا ذکر قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر ہے، اس سورہ میں بھی ہے اور آیت بیس سے آیت تیس تک ان کے عبرتناک واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ اسی ضمن میں یہ آیت بھی ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے علاوہ قتل کردیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی انسان کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بچالی۔ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے والوں اور ملک میں فساد پھیلانے والوں کی سزا کا ذکر ہے۔ کچھ آگے فرمایا: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اللہ تک رسائی کا کچھ وسیلہ (اعمال صالحہ وغیرہ) تلاش کرو اور اس کی راہ میں جد وجہد کرو شاید تم کامیابی حاصل کرلو۔ چوروں کی سزا کے سلسلے میں فرمایا کہ چور مرد اور چور عورت کیلئے یہ حکم ہے کہ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کے اس کام کا بدلہ ہے جو انہوں نے انجام دیا ہے، اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہیں اور حکمت والے ہیں ، حدود و تعزیرات کے سلسلے میں یہ آیت بھی ہے اور ہم نے ان پر یہ فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ہے، اور خاص زخموں کا بدلہ بھی ہے اور جو شخص بدلہ نہ لے اور معاف کردے تو یہ اس کے لئے کفارہ ہے۔ یہود ونصاریٰ کے متعلق ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! یہود ونصاری کو اپنا دوست مت بناؤ، یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص ان سے دوستی کرے گا وہ اُن ہی میں شمار ہوگا۔ آگے فرمایا گیا کہ سو آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جن کے دلوں میں (نفاق اور ذہنوں میں غلامی کی) بیماری ہے کہ وہ ان (یہود و نصاریٰ) میں (شامل ہونے کے لئے) دوڑتے ہیں، کہتے ہیں : ہمیں خوف ہے کہ ہم پر کوئی گردش (نہ) آجائے (یعنی ان کے ساتھ ملنے سے شاید ہمیں تحفظ مل جائے)، تو بعید نہیں کہ اﷲ (واقعۃً مسلمانوں کی) فتح لے آئے یا اپنی طرف سے کوئی امر تو یہ لوگ اس (منافقانہ سوچ) پر جسے یہ اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں شرمندہ ہوکر رہ جائیں گے۔ اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے۔ 
  اس پارے کے آخر تک یہود ونصاریٰ کی سازشوں اورمکروفریب کا ہی ذکرہے۔ 
*(کلالہ کی تفسیر میں اختلاف ہے کہ یہ میت کا وصف ہے یا ورثاء کو کہا جاتا ہے یا ترکہ کو، لیکن کلالہ کی جو تعریف معروف ہے اُس کے مطابق کلالہ سے مراد وہ میت ہے جس کے ورثاء میں اصول و فروع میں سے کوئی موجود نہ ہو یعنی اُس کے والد دادا اور بیٹے پوتوں میں سے کوئی موجود نہ ہو۔ تفسير الزمخشري۔ الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK