Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

نکاح، وراثت کے احکام، ثالثی کی ترغیب، منافقین کا طرز ِعمل اور انجام

Updated: March 04, 2025, 1:42 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

آج رات کی تراویح کی ابتداء سورۂ نساء کی تلاوت سے ہوتی ہے۔ یہ سورہ مختلف احکام پر مشتمل ہے، اس میں تین طرح کے معاملات کا بیان ہے، باہمی معاملات جیسے یتیموں اور بیویوں کے متعلق احکامات، مخالفین کے معاملات جیسے جہاد کے احکام، منافقین کے احوال، مشرکین کے عقائد، دیانات جیسے نمازا ورتوبہ کے احکام، جنابت وطہارت وغیرہ کے مسائل۔

If there is a rift in the relationship, it has been ordered that efforts should be made to reconcile the spouses, for which the people of the home and family should come forward. Photo: INN
رشتوں میں دراڑ آجائے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ زوجین کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی جائے اس کیلئے گھر اور خاندان کے لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

آج :چوتھی تراویح لَنْ تَنَالُوا کے ثلث سے وَالْمُحْصَنٰتُکے ختم تک
آج رات کی تراویح کی ابتداء سورۂ نساء کی تلاوت سے ہوتی ہے۔ یہ سورہ مختلف احکام پر مشتمل ہے، اس میں تین طرح کے معاملات کا بیان ہے، باہمی معاملات جیسے یتیموں اور بیویوں کے متعلق احکامات، مخالفین کے معاملات جیسے جہاد کے احکام، منافقین کے احوال، مشرکین کے عقائد، دیانات جیسے نمازا ورتوبہ کے احکام، جنابت وطہارت وغیرہ کے مسائل۔ چنا نچہ اس سلسلے کا پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ یتیموں کا مال ان کو واپس دے دو اپنے برے مال کواُن اچھے مال سے نہ بدلو اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں ایک دستور یہ تھا کہ اگر کسی کے پاس کوئی یتیم لڑکی زیر کفالت ہوتی تووہ اس کا مال ہڑپنے کے لئے اسے اپنی بیوی بنا لیاکرتا تھا، بسا اوقات وہ پہلے سے ہی شادی شدہ ہوتا تھا۔ اسلام نے اس طریقے کو ختم کیا اور حکم دیا کہ اگر تمہیں یہ ڈر ہے کہ تم یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کرسکو گے تو تم نکاح کرسکتے، ہو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں دو دو، تین تین، چار چار سے اورا گر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم ان کے ساتھ عدل نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا وہ باندی رکھو جو تمہارے قبضے میں ہے۔ یہ طریقہ نا انصافی نہ کرنے کے زیادہ قریب ہے۔ مہر کے سلسلے میں فرمایا کہ بیویوں کو ان کا مہر خوش دلی کے ساتھ ادا کرو، البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے خود چھوڑ دیں تو تم مزے سے کھا سکتے ہو۔ 
اسی سورہ میں وراثت کے مسائل بھی ہیں، اس سے پہلے کچھ ہدایات ہیں۔ مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور اقارب نے چھوڑا ہے اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں ، باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہے، خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ اور یہ حصہ قطعی طے شدہ ہے اور ترکہ تقسیم کرنے کے وقت اگر رشتہ دار، یتیم اور مسکین آئیں تو انہیں بھی کچھ دے دو اور ان سے اچھی بات کرو اور لوگوں کو ڈرنا چاہئے اس شخص کے ترکے کے بارے میں اگر وہ پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جائے۔ 
ان ہدایات کے بعد ترکے میں ورثاء کے شرعی حصوں کا بیان ہے۔ اس پارے کی آخری آیت میں ان عورتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح نہیں کیا جاسکتا، فرمایا تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہا ری بیویوں کی وہ بیٹیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے جن سے تم نے صحبت کر لی ہو اور اگر صحبت نہ کی ہو تو پھر ان سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو صلبی ہوں اور یہ کہ تم ایک نکاح میں دو بہنیں جمع کرو، مگر جو پہلے ہو گیا سو ہوگیا اللہ تعالیٰ بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ اور جو عورتیں کسی کے نکاح میں ہوں وہ بھی حرام ہیں، البتہ جو عورتیں تمہاری مملوک ہوں (یاد رہے یہ اس وقت کا حکم ہے جب جنگوں میں مردوں عورتوں اور بچوں کو گرفتار کرکے مملوک بنا لیا جاتا تھا، اسلام نے بہ تدریج اس رسم کو ختم کیا، آج غلامی کسی شکل میں بھی موجود نہیں ہے)۔ سورۂ نساء میں یہ بھی ارشاد فرمایا: مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں، پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں، اور تمہیں جن عورتوں کی نافرمانی و سرکشی کا اندیشہ ہو تو انہیں نصیحت کرو اور (اگر نہ سمجھیں تو) انہیں خواب گاہوں میں (خود سے) علاحدہ کر دو اور (اگر پھر بھی اصلاح پذیر نہ ہوں تو) انہیں (تادیباً ہلکا سا) مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر (ظلم کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بیشک اللہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے، اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے۔ والدین اور رشتہ داروں کے متعلق اللہ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ، والدین کے ساتھ حسنِ سلو ک کرو اور رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب اور دور کے پڑوسیوں پاس بیٹھنے والوں، مسافروں اور ان غلام باندیوں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں حسن سلوک کرو، آگے نماز اور طہارت کے کچھ احکام ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے:غزوۂ بدر کی فتح کے بعد غزوۂ احد کی شکست پردل برداشتہ مسلمانوں کو تسلی دی گئی

اے ایمان والو! تم نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت جایا کرو، یہاں تک کہ تم یہ سمجھنے لگو کہ کیا کہہ رہے ہو اور نہ ناپاکی کی حالت میں نماز کے پاس جاؤ إلا یہ کہ مسافر ہو، جب تک غسل نہ کرلو، اور اگر تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو یا تم بیویوں کے پاس گئے ہو اور تمہیں پانی نہ ملے تو تم پاک صاف مٹی سے تیمم کرلیا کرواوراپنے چہروں اور ہاتھوں پر پھیر لیا کرو۔ 
اس کے بعد اہل کتاب کی ضلالت وگمراہی کا کچھ ذکر ہے۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ گناہ معاف نہیں کرتے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اس کے علاوہ گناہ جس کے لئے چاہیں معاف کردیتے ہیں۔ کچھ آیتوں کے بعد مسلمانوں کو یہ تلقین فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں بہترین نصیحتیں فرماتے ہیں، بلاشبہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھنے اور سننے والے ہیں۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اور اپنے حکام کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہوجائے تو اللہ اوررسول اللہ کی طرف رجوع کرلیا کرو، اگر تم حقیقت میں اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی بہتر بات ہے اور اسی کا اچھا انجام ہے۔ اس کے بعد ان منافقین کا ذکر ہے جو زبان سے تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں مگر عمل میں شیطان کے متبع ہیں، فرمایا: کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اس کتاب پر ایمان لانے کا دعویٰ تو کرتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئیں تھیں مگر چاہتے یہ ہیں کہ اپنا فیصلہ کرانے کے لئے شیطان کی طرف رجوع کریں، حالاں کہ انہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ شیطان کو تسلیم نہ کریں، شیطان انہیں گمراہ کرکے گمراہی کی انتہا تک پہنچانا چاہتا ہے اور جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اس حکم کی طرف آجائیں جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آجائیں تو آپ منافقین کو دیکھتے ہیں کہ وہ آپ سے دور بھاگتے ہیں ۔ 
 دو تین آیتوں کے بعد اس مضمون کو قطعیت کے ساتھ اس طرح بیان فرمایا کہ آپؐ کے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے باہمی اختلافات میں فیصل تسلیم نہ کرلیں اور اس کے بعد آپ کے فیصلے سے اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ خوشی کے ساتھ اس کو قبول کرلیں۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ اللہ و رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ اور کیسے اچھے ہیں یہ رفیق۔ کچھ آیات کے بعد ان منافقین کاذکر ہے کہ آپ نے ان لوگوں کو بھی دیکھا ہے جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو، نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیتے رہو، پھر جب ان پر جہاد ضروری قرار دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں سے اس طرح ڈرتے ہیں جیسے اللہ سے ڈرتے ہوں یا اس سے بھی زیادہ اور کہنے لگے کہ اے اللہ آپ نے ہم پر جنگ کا حکم کیوں نازل کردیا، کچھ دیر اس حکم کو ٹال دیتے، آپ فرما دیجئے کہ دنیا کا مال ومتاع مختصر ہے اور آخرت پرہیز گاروں کیلئے بہتر ہے، تم پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا، (جہاں تک موت کا سوال ہے) موت تمہیں ہر حال میں پالے گی خواہ تم کہیں بھی ہو، اگر چہ تم مضبوط قلعوں کے اندر ہو۔ 
 اس کے بعد قتال وجہاد کے سلسلے میں کچھ ہدایات ہیں، کچھ نصیحتیں ہیں، پھر امت مسلمہ کو یہ دو زرّین ہدایات عطا کی گئیں، ایک تو یہ کہ جو اچھی بات کی سفارش کرے گا اس کو بھی اس میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے گااس کو بھی اس کا حصہ ملے گا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والے ہیں، دوسری ہدایت یہ فرمائی گئی کہ جب تمہیں کوئی سلام کیا کرے تو تم اسی جیسے الفاظ میں یا اس سے اچھے الفاظ میں سلام کا جواب دیا کرو۔ 
  ان دو نصیحتوں کے بعد پھر جہاد وقتال کا ذکر ہوا اور قتال کی مناسبت سے قتل کی بعض خاص قسموں کے احکام ہیں کہ کسی مومن کا یہ کام نہیں کہ دوسرے مومن کو قتل کرے الاّ یہ کہ اس سے غلطی ہوجائے اور جو شخص کسی مومن کو غلطی سے قتل کردے تو اس کو بہ طور کفارہ ایک غلام آزاد کرنا چاہئے اور مقتول کے ورثاء کو خوں بہاادا کرنا چاہئے، آگے فرمایا اور اگر کسی نے جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کردیا تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اس کے لیے سخت عذاب تیار کیا ہوا ہے، آگے عورتوں وغیرہ سے متعلق کچھ احکام ہیں، یتیموں کے متعلق کچھ ہدایات ہیں ۔ منافقوں کے بارے میں کہا گیا کہ بیشک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور آپ ان کیلئے ہرگز کوئی مددگار نہ پائیں گے۔ ایہ پارہ اس آیت پراختتام پذیر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب نہیں دینا چاہے گا اگر تم شکر گزار بنے رہو گے اور ایمان رکھو گے، اور اللہ (ہر حق کا) قدر شناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK