سورۂ انفال کے شروع میں کہا گیا تھا کہ اموال غنیمت سب اللہ اور اس کے رسول کے ہیں، ان کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے۔
EPAPER
Updated: March 09, 2025, 12:44 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
سورۂ انفال کے شروع میں کہا گیا تھا کہ اموال غنیمت سب اللہ اور اس کے رسول کے ہیں، ان کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے۔
آج :نوویں تراویح دسواں پارہ : وَٱعْلَمُواْ
سورۂ انفال کے شروع میں کہا گیا تھا کہ اموال غنیمت سب اللہ اور اس کے رسول کے ہیں، ان کے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو ہے۔ دسواں پارہ (وَٱعْلَمُواْ) کی ابتداء میں مالِ غنیمت کے مصارف بیان کئے جارہے ہیں کہ یہ بات جان لو کہ جو کچھ بھی تمہیں غنیمت میں حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)کیلئے آپ کے رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے، اگر تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اس پر ایمان رکھتے ہو جو ہم نے فیصلے کے دن یعنی اس دن نازل کی تھی جس دن دونوں فوجوں میں مڈبھیڑ ہوئی تھی۔ یہ غزوۂ بدر کا بیان ہے۔ یہ پہلا معرکہ تھا جس میں مسلمانوں کو کُھلی مادی فتوحات بھی حاصل ہوئیں اور دشمنوں پر فتح کے ساتھ بہت سا مال غنیمت بھی ہاتھ لگا۔ اس سے پہلی امتوں میں اموال غنیمت کے سلسلے میں دستور الٰہی یہ تھا کہ سارا سازو سامان ایک میدان میں جمع کیا جاتا اور اگر جہاد عند اللہ مقبول ہوتا تو آسمانی بجلی آکر اسے جلا کر خاک کردیتی، اس مال سے کسی کو استفادے کا حق حاصل نہ تھا۔ اسلام نے اس مال کو نہ صرف یہ کہ حلال وطیب قرار دیا بلکہ اس کے اصول و احکام بھی متعین کردئیے۔ اس کے بعد قرآن کریم نے غزوۂ بدر میں میدان جنگ کی صورت حال پر روشنی ڈالی کہ تم محل وقوع کے لحاظ سے جس جگہ تھے وہ موزوں نہیں تھی اور دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری تعداد بھی کم تھی اس کے باوجود جب مقابلہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت نے کام کیا اور تم تعداد کی قلت، اسلحہ کی کمی اور محل وقوع کی ناموزونیت کے باوجود کامیاب ہوئے۔ مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو، شاید کامیاب ہوجاؤ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو اور آپس میں جھگڑا مت کرو، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بلاشبہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو اپنی شان دکھلاتے ہوئے نکلے۔
اس کے بعد ان منافقین کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں شرکت کیلئے جانے والے مسلمانوں کے متعلق از راہ ہمدردی یا از راہ تمسخر یہ کہہ رہے تھے کہ ان مسلمانوں کو ان کے دین نے خبط میں مبتلا کردیا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کاش تم (اے منافقین) اس منظر کو دیکھتے جب فرشتے کافروں کی روح قبض کررہے تھے اور ان کے چہروں پر اور ان کی پُشت پر مار رہے تھے کہ لو اب جہنم کے عذاب کا (مزہ) چکھو۔ اس کے بعد فرعون کا ذکر ہے کہ اس کا اور اس کی قوم کا بھی یہی انجام ہوا تھا۔ پھر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جواس نے کسی قوم کو عطا کررکھی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنے طور طریقے نہیں بدلتی۔
اگلی کچھ آیات میں قوانین جنگ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پھر فرمایا گیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا ملے گا تمہارے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائے گی۔ مسلمانوں کے اتحاد کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیئے ہیں، آپ روئے زمین کی تمام دولت بھی خرچ کرڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے درمیان یگانگت پیدا کردی۔ آگے غزوۂ بدر کے سلسلے میں ترغیب پر مشتمل آیت ہے۔ پھر ان قیدیوں کا ذکر ہے جو غزوۂ بدر میں گرفتار کئے گئے اور ان میں سے ہر ایک کی رہائی کے بدلے چار سو درہم متعین کئے گئے۔ اس کے بعد کچھ ہجرت کے احکام ہیں کہ ہجرت کی صورت میں مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہئے، ان آیات میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے۔
یہاں سے سورۂ توبہ کا آغاز ہوتا ہے، سورۂ انفال اور سورۂ توبہ کے مضامین میں یکسانیت ہے اسی لئے سورۂ توبہ اگر مسلسل تلاوت کی جارہی ہو، تواس کے شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی جاتی، بعض صحابہؓ نے دونوں سورتوں کو ایک ہی کہا ہے۔ اس سورہ میں کفار ومنافقین کی بد عہدیوں کا اور ان پر عذاب کا ذکر ہے۔ اس سورہ میں بھی چند غزوات اور ان سے متعلق کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ مشرکین مکہ سے صلح حدیبیہ کے نام سے جو معاہدۂ صلح ہوا تھا وہ قریش نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے خود ہی توڑ ڈالا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکین کے لئے، جن سے تم نے عہد کیا ہے، دست برداری کا اعلان ہے لہٰذا تم چار مہینے اور چل پھر لو اور یہ جان لو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ بلاشبہ اللہ کافروں کو رسوا کریں گے۔
آگے اسی اعلان کی توضیح وتشریح ہے، اس اعلان پر عمل ہوا اور مسلمان لاؤ لشکر کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف بڑھے، قریش مکہ اور مشرکین حد درجہ خوف زدہ ہوگئے، اس موقع پرسرور کائنات رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے کریمانہ اخلاق کا مظاہرہ فرمایا اور چند خطرناک مجرموں کو چھوڑ کر سب کے لئے عام معافی کا اعلان فرمادیا، فتح مکہ کے ان تفصیلی واقعات کے بعد غزوۂ حنین کا بیان شروع ہوا، فرمایا اللہ تعالیٰ بہت سے مواقع پر تمہیں غلبہ دے چکے ہیں اور غزوۂ حنین کے دن بھی، اس روزتمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرہ ّ ہوگیا تھا، لیکن یہ تعداد تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور اہل ایمان پر اپنی سکینت نازل فرمائی اور ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کفر کرنے والوں کو سزادی۔ اس ایک آیت میں غزوۂ حنین کا پورا قصہ آگیا، یہ پہلا موقع تھا کہ چودہ ہزار نفوس پر مشتمل مسلمانوں کا لشکر مقابلے کے لئے نکلا، لڑائی کے ہتھیار بھی پہلے سے کہیں زیادہ تھے، مسلمانوں کو اپنی تعداد اور طاقت پر ناز ہونے لگا، بعض صحابۂ کرام کی زبانوں پر یہ جملے بھی آگئے کہ آج ہم مغلوب نہیں ہوسکتے، مقابلہ شروع ہوتے ہی دشمن بھاگنے پر مجبور ہوگا۔ جنگ کے ابتدائی حصے میں مسلمانوں میں جو گھبراہٹ پیدا ہوئی اور جو بھگڈر مچی وہ ایک طرح کی تنبیہ تھی اور یہ بتلانا تھا کہ تم تعداد میں کتنے بھی بڑھ جاؤ اللہ کی مدد کے بغیر کسی بھی حالت میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
اس کے بعد حالات میں تبدیلی ہوئی مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے قدم جمے اور فرشتے بھی مدد کے لئے نازل ہوئے، اس طرح اس غزوے میں بھی مسلمان فتح سے ہمکنار ہوئے۔ اگلی کچھ آیات میں یہود ونصاری کے عقائد کا ذکر ہے، پھر موضوع کی طرف واپسی اور غزوۂ تبوک کا ذکر۔ ۹ھ میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ روم کا عیسائی بادشاہ مدینہ منورہ پر فوج کشی کا ارادہ رکھتا ہے اور مقام تبوک میں اس کا لشکر جمع ہوچکا ہے، ان دنوں کئی مسلسل جنگوں کے بعد مسلمانوں کو قدرے سکون نصیب ہوا تھا، سخت گرمی کا موسم تھا، کھجور کے باغات میں فصلیں تیار کھڑی تھیں اور مسلمانوں کے ہاتھ خالی تھے، سفر طویل تھا ان حالات میں جہاد کا اعلان ہوا، بعض حضرات تو فوراً تیار ہوگئے اور بعض نے کچھ تردد کے ساتھ ہامی بھری، کچھ لوگوں کو واقعی عذر تھا اور کچھ سستی کی وجہ سے نہیں جاسکے۔ ان آیات میں ایسے ہی لوگوں کو جھنجوڑا گیا ہے کہ اے اہل ایمان تمہیں کیا ہوگیا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین سے چمٹ کر رہ جاتے ہو، کیا تم نے آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی پسند کرلی ہے، دنیا کی زندگی تو آخرت کے سامنے بڑی مختصر ہے، تم نہیں نکلو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں درد ناک عذاب دیں گے اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو کھڑا کردیں گے۔ یہاں ان منافقین کا بھی ذکر ہے جو مختلف حیلوں بہانوں کی بنیاد پر جنگ میں شریک نہ ہونا چاہتے تھے۔
آگے زکوٰۃ کے مصارف کا بیان ہے۔ مدینہ طیبہ میں جب زکوۃ فرض ہوئی تو اس کی وصولیابی اور تقسیم کا پورا نظام مرتب ہوا۔ آنے والی آیت کریمہ میں اسی کا بیان ہے کہ صدقات تو در حقیقت فقیروں اور مسکینوں کیلئے ہیں اور ان لوگوں کیلئے ہیں جو صدقات کے کام پر مقرر ہوں اور ان کے لئے ہیں جن کی دل جوئی مطلوب ہو، اور غلاموں کی گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کی مدد کرنے میں اور اللہ کے راستے میں اورمسافروں کی دیکھ بھال میں بھی صدقات خرچ کئے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے۔
آئندہ آیات میں گروہ منافقین کی منافقانہ روش پر روشنی ڈالی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی ہیں، وہ بری بات کی تعلیم دیتے ہیں اور اچھی بات سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بندھا رکھتے ہیں (اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے)، یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے بھی انہیں فراموش کردیا، بلاشبہ یہ منافق بڑے ہی سرکش ہیں۔ اس کے برعکس مومنین کا حال یہ ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ ضرور رحم کرے گا۔ آنے والی کچھ آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو بہانے بنا کر جنگ میں شریک نہیں ہوئے اور گھر بیٹھے خوش ہوتے رہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمادیا گیا کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی ربط نہ رکھیں ان میں سے کوئی مرے تو ان کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر کھڑے ہوں۔
(کل کا کالم دسویں تراویح کی مناسبت سے)