اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سابقہ قوموں کا ذکر فرمایا کہ کس طرح ان کے پاس پیغمبر بھیجے گئے اور کس طرح انہوں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی، اور اس تکذیب کے نتیجے میں ان پر کس طرح کے عذاب مسلط کئے گئے۔
EPAPER
Updated: March 16, 2025, 12:55 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سابقہ قوموں کا ذکر فرمایا کہ کس طرح ان کے پاس پیغمبر بھیجے گئے اور کس طرح انہوں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی، اور اس تکذیب کے نتیجے میں ان پر کس طرح کے عذاب مسلط کئے گئے۔
سولہویں تراویح۱۷؍واں پارہ : ٱقْتَرَبَ لِلْنَّاسِ
سترہویں پارے کا آغاز سورۂ انبیاء سے ہوتا ہے۔ اس سورہ میں وہ حالات بیان کئے گئے ہیں جو نبوت کے ابتدائی دنوں میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو در پیش تھے۔ آپؐ کی دعوتِ توحید ورسالت اور عقیدۂ آخرت پر قریش کے سردار طرح طرح کے اعتراضات کیا کرتے تھے اور آپؐ کے خلاف قسم قسم کی سازشیں رچا کرتے تھے۔ اس سورہ میں ان اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا ہے اور ان سازشوں کے خلاف فہمائش بھی کی گئی ہے۔ سورہ کا آغاز ان ارشادات سے ہوا کہ لوگوں کے حساب کا وقت قریب آپہنچا ہے اور وہ منہ پھیرے ہوئے غفلت میں پڑے ہیں، ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آتی ہے اسے سن تو لیتے ہیں مگر کھیل کود میں مست رہتے ہیں، ان کے دل بے کار چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ لوگ آپس میں اس طرح کی سر گوشیاں کرتے ہیں کہ یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تمہاری طرح انسان ہی تو ہیں، کیا تم کھلی آنکھوں جادو میں پھنس جاؤ گے؟ (سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سرگوشیوں کے جواب میں ) ارشاد فرمایا کہ میرا رب آسمان و زمین میں کی جانے والی ہر بات سے واقف ہے اور وہ خوب سننے اور خوب جاننے والا ہے بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ (ان کی باتیں ) پراگندہ خواب ہیں بلکہ من گھڑت افسانے ہیں بلکہ یہ تو شاعر (معلوم ہوتے) ہیں ورنہ لائیں کوئی نشانی جس طرح پیغمبر (نشانیوں کے ساتھ) بھیجے گئے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سابقہ قوموں کا ذکر فرمایا کہ کس طرح ان کے پاس پیغمبر بھیجے گئے اور کس طرح انہوں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی، اور اس تکذیب کے نتیجے میں ان پر کس طرح کے عذاب مسلط کئے گئے۔ اس کے بعد زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے آسمان و زمین اس لئے نہیں بنائے کہ ہم کھیلنا چاہتے تھے، اور اگر ہمیں یہی کچھ کرنا ہوتا تو ہم اپنے پاس سے کرلیتے، بلکہ ہم تو حق کے ذریعے باطل پر چوٹ لگانا چاہتے ہیں۔ زمین وآسمان میں جو مخلوق بھی ہے سب اسی کی ہے اور جو اس کے نزدیک مقبول ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے خود کو بڑا سمجھ کر سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملول ہوتے ہیں (بلکہ) شب وروز تسبیح کرتے رہتے ہیں۔ (آگے خدا کی وحدانیت پر بطور دلیل فرمایا) اگر آسمان و زمین میں اللہ کے علاوہ دیگر خدا ہوتے تو یہ دونوں (آسمان و زمین) تباہ و برباد ہوجاتے۔ کچھ آگے چل کر زمین و آسمان کی تخلیق، پانی، پہاڑ، چاند، سورج وغیرہ میں غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے۔
پانچویں رکوع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ کچھ الگ انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بتوں کو توڑ دیا تھا، اس پر چہ میگوئیاں شروع ہوئیں، کس نے توڑا، کس نے یہ حرکت کی، کہنے لگے جس نے بھی ہمارے معبودوں کے ساتھ ایسا کیا ہے وہ ظالموں میں سے ہے۔ لوگوں نے کہا کہ ایک نوجوان کے بارے میں کہا جارہا ہے (کہ اس نے ایسا کیا ہے) اس کا نام ابراہیم ہے، انہوں نے کہا کہ اسے لوگوں کے سامنے پکڑ کر لاؤ تاکہ سب اس کو دیکھ لیں (جب حضرت ابرہیمؑ کو مجمع عام میں لایا گیا تو ان سے) پوچھا کہ اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ (یہ کام) ان کے بڑے (معبود) نے انجام دیا ہے، ان سے پوچھ لو اگر یہ بول سکتے ہوں۔ پھر انہوں نے (شرمندگی سے) اپنے سر جھکائے اور کہنے لگے کہ تمیں معلوم ہے یہ بولتے نہیں ہیں۔ (اس پر ابراہیمؑ نے) کہا کہ کیا تم اللہ کے سوا ایسے معبودوں کی پرستش کرتے ہو جو تمہیں نہ نفع پہنچاسکتے ہیں اور نہ نقصان، افسوس ہے تم پر۔ اس جواب سے قوم کے لوگ غصے سے بے قابوہوگئے اور کہنے لگے کہ اسے جلا ڈالو۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کو آگ کے حوالے کردیا گیا۔ ہم نے کہا اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔ ہم ابراہیم اور لوط (علیہما السلام) کو بچا کر ایسی سرزمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں، اور ہم نے ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عطا کیا اور ہر ایک کو مرد صالح بنایا اور انہیں امام بنایا جو ہمارے حکم سے رہ نمائی حاصل کرتے تھے اور ہم نے انہیں وحی کے ذریعے نیک کاموں کی، نماز پڑھنے کی اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی۔
اس کے بعد حضرت لوطؑ، حضرت نوحؑاور حضرت داؤدؑ کا بھی تذکر ہ ہے۔ فرمایا: ہم نے داؤد اور سلیمان کو اس نعمت (نبوت ورسالت) سے نوازاجبکہ وہ دونوں کسی کھیت کے بارے میں فیصلہ کررہے تھے، جس میں رات کے وقت لوگوں کی بکریاں جا گھسی تھیں اور ہم ان کے فیصلے (کا عمل) خود دیکھ رہے تھے، اس وقت ہم نے سلیمان کو اس فیصلے کی سمجھ دے دی، حالانکہ ہم نے دونوں ہی کو علم اور حکمت عطا کی تھی، اور ہم نے داؤد کیلئے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو ان کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے، اور ہم نے انہیں تمہارے فائدے کیلئے زرہ بنانے کا فن سکھلا دیا تھا تاکہ وہ زرہ تمہیں تمہاری (دشمنوں کی) ضرب سے بچائے۔ اور سلیمان کیلئے ہم نے آندھی جیسی ہوا کو مسخر کردیا جو ان کے حکم سے اس زمین میں چلتی تھی۔
اس سورہ میں حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ ہم نے ایوب کو بھی یہ نعمت عنایت کی تھی، وہ وقت یاد کرو جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ میں بیماری میں مبتلا ہوں اور آپ ارحم الراحمین ہیں، ہم نے ان کی دعا قبول کی اور جو بیماری انہیں لاحق تھی اس سے نجات عطا کی۔ انہیں ان کے اہل وعیال اور ان ہی جیسے اور بھی بہت سے (رفقاء اور ساتھی) دیئے۔ حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل علیہم السلام کے متعلق فرمایا گیا کہ یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے اور انہیں ہم نے اپنی رحمت کے دائرے میں شامل کرلیا تھا۔ یہاں حضرت یونسؑ کا بھی ذکر آیا کہ جب وہ خفا ہوکر چل دیئے اور انہیں گمان ہوا کہ ہم ان پر قدرت نہ پا سکیں گے، تب انہوں نے (مچھلی کے پیٹ میں جاکر) تاریکیوں میں یہ آواز لگائی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، وہ پاک ہے، بلاشبہ میں ہی ظلم کرنے والوں میں سے ہوں، تب ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں اس تکلیف سے نجات دی۔ اس سورہ میں حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کا بھی ذکر ہے۔ ان دونوں پیغمبروں کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے۔ سورہ کے آخر میں قیامت کی ہولناکیوں کا بیان ہے اور پیغمبر آخر الزماں ﷺ سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے آپؐ کو دنیا والوں کیلئے باعث رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اس کے بعد سورۂ حج بھی قیامت کے ذکر ہی سے شروع ہوئی ہے کہ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، قیامت کا زلزلہ بڑی ہولناک چیز ہے، اس دن تم اسے دیکھو گے کہ ہر دودھ پلانے والی عورت اپنے دودھ پینے والے بچے سے غافل ہوجائے گی اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی نہایت سخت ہوگا۔ اس کے بعد انسان کی مرحلہ وار پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ ہم جس کو چاہتے ہیں رحم مادر میں ایک خاص مدت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر ایک بچے کی شکل و صورت دے کر نکالتے ہیں تاکہ تم جوانی تک پہنچ جاؤ، پھر تم میں سے بعض کو (پہلے ہی) اٹھا لیا جاتا ہے اور بعض کو بدترین عمر (انتہائی بڑھاپے) کی طرف پھیر دیا جاتا ہے۔ پھر فرمایا: قیامت ہر حال میں آئیگی اس میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ قبروں میں سے لوگوں کو اٹھائیں گے۔
کچھ آیات کے بعد اہل کفر کا ذکر ہے، ان کو جو عذاب دیا جائے گا اس کا بیان ہے، اس وقت ان کا حال یہ ہوگا کہ جب کبھی وہ گھبراکر جہنم سے نکلنے کی کوشش کرینگے پھر اسی میں دھکیل دیئے جائینگے۔
اب سورہ کے نام کی مناسبت سے حج کا ذکر شروع فرمایا کہ یاد کیجئے جس وقت ہم نے ابراہیمؑ کیلئے خانہ کعبہ کی جگہ تجویز کی تھی (اورکہا تھا کہ) میرے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کیلئے پاک و صاف رکھنا اور لوگوں میں حج کا اعلان کردینا وہ لوگ آپ کے پاس پیادہ پا، اونٹوں پرسوار، قریب اور دور ہر مقام سے چلے آئیں گے، تاکہ وہ (یہاں آکر) فائدے دیکھیں جو ان کیلئے ہیں اور معلوم ومتعین ایام میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لے کر (انہیں ذبح کریں ) جو انہیں دیئے گئے ہیں پھر ان جانوروں میں سے خود بھی کھائیں اور غریبوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں، اپنی نذر یں پوری کریں اور اس قدیم و محفوظ گھر کا طواف کریں۔ آگے اذن جہاد کا تذکرہ ہے۔
حق و باطل کے باہمی ٹکراؤ کے اس تسلسل پرسلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دعوت دی کہ وہ کائنات میں غور وفکر کریں، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے زمین و آسمان کی تمام چیزیں اور وہ کشتیاں جو اس کے حکم واجازت سے سمندر میں چلتی ہیں مسخر کر رکھی ہیں اور اسی نے آسمان کو اپنے حکم سے زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، بلاشبہ اللہ بندوں پر بڑا مہربان ہے، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اہل ایمان سے فرمایا کہ اے ایمان والو! رکوع کرو، سجدہ کرو، اور اپنے رب کی عبادت کرو، اوراچھے کام کیا کرو تاکہ فلاح پاؤ۔ تم اپنے باپ ابراہیم کی ملت (پر) ہو، انہوں نے اس سے پہلے بھی تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس (قرآن) میں بھی یہی نام ہے تاکہ تمہارے لئے رسول گواہ ہوں اورتم لوگوں پر گواہ بنو، تم لوگ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستگی اختیار کرو، وہی تمہارا مولیٰ ہے اور بہترین مدد گار ہے۔
(کل کا کالم ۱۷؍ویں تراویح کی مناسبت سے)