Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

متبنیٰ اولاد، اہل ایمان مردوں اور خواتین کے لئے معاشرتی احکام سماعت کیجئے

Updated: March 21, 2025, 3:08 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

The Holy Quran clearly provides guidance regarding adopted children. Photo: INN.
لے پالک اولاد کے متعلق قرآن مجید میں واضح طور پر رہنمائی کردی گئی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

آج :اکیسویں تراویح۲۲؍واں پارہ : وَمَنْ يَّقْنُتْ
سورۂ احزاب شروع ہوچکی ہے، یہ سورہ متعدد احکام اور بہت سے معاشرتی مضامین پر مشتمل ہے، سورہ کے پہلے ہی رکوع میں ایک ایسی رسم کا خاتمہ کیا گیا ہے جو دور جاہلیت میں بڑی عام تھی، لوگ گودلے کر بچوں کو اپنا بیٹا بنا لیا کرتے تھے اور ان کو وہ تمام حقوق دیتے تھے جو حقیقی اولاد کے ہوتے ہیں۔ یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ نے اپنی بیوی حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اشارہ تھا اور آنحضرتؐ بھی اس کی ضرورت و مصلحت محسوس فرمارہے تھے کہ منہ بولے رشتوں کے سلسلے میں جو تصور عام ہے اس کو ختم کرنے کا یہ صحیح موقع ہے۔ اگر حضرت زینب ؓسے آپؐ کا نکاح ہوجائے تو اس تصور کاخاتمہ ہوسکتا ہے، مگر اس معاملے میں کچھ پس و پیش دامن گیر تھا اور یہ خیال تھا کہ اگر یہ قدم اٹھا یا گیا تو کفار و منافقین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک نیا محاذ بنا کر کھڑے ہوجائینگے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اے نبی اللہ سے ڈرو اور کفار ومنافقین کا کہنا نہ مانو۔ اس کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے نہیں بنایا ہے، ان کو اپنے آباء کی طرف منسوب کرو اور اگر تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔ اس سورہ میں مختصر طورپر یہ مضامین بھی آئے ہیں۔ اس میں امہات المؤمنین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں، زیب و زینت کرکے باہر نہ نکلیں، اگر غیر مردوں سے گفتگو کی ضرورت ہو تو پست آواز سے بات کریں، عنوان تو امہات المؤمنین کا ہے لیکن در اصل ان کے واسطے سے تمام مسلمان عورتوں کو اس حکم کا پابند بنایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مسلمان مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حضورؐ کے گھروں میں بلا اجازت داخل نہ ہوں، اور اگر کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگیں، غیر محرم مردوں اور محرم مردوں کے درمیان فرق کرتے ہوئے حکم دیا گیا کہ ازواج مطہرات کے صرف محرم رشتہ دار ہی گھروں میں آجاسکتے ہیں۔ مسلمانوں کو بتلایا گیا کہ حضورؐ کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں ، قلب ونگاہ میں ان کے لئے عزت واحترام رہے۔ مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا کہ سرکارؐ دو عالم کو اذیت دینا سخت گناہ ہے، دنیا و آخرت میں سخت ترین عذاب الٰہی اور رسوا کن لعنت خداوندی کا باعث ہے، اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اس پر ناحق الزام لگانا بھی سخت گناہ ہے۔ تمام مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب ان کو گھر سے باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے جسم کو اچھی طرح ڈھانپ لیں اور چہرے پر گھونگھٹ لٹکالیں۔ اس پارے کے شروع میں کچھ مخصوص صفات کے حامل مردوں اور عورتوں کا بھی ذکر ہے، فرمایا جو مرد اور عورتیں مسلمان ہیں، مومن ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ سے ڈرنے والے ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور اجر عظیم مہیا کررکھا ہے۔ اگلی آیت میں طلاق کے سلسلے میں کچھ شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد نکاح وطلاق کے سلسلے میں آپ ﷺ کی کچھ خصوصیات بیان کی گئی ہیں 
اسلام اور مسلمانوں پر یہ وقت وہ تھا کہ کفار و مشرکین اور یہود ومنافقین سب اسلام کی بے مثال ترقی پر مارے حسد کے مرے جارہے تھے، ان کے بس میں یہ تو تھا نہیں کہ اسلام کے بڑھتے قدموں کو روک دیتے، بس اتنا کرسکتے تھے کہ حضورؐ کی ذات اقدس پر الزامات لگا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔ ان حالات میں یہ آیت نازل ہوئی، گویا اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمام مخالفین کو آگاہ کردیا کہ تمہاری مخالفت بے اثر رہے گی، کیونکہ میں خود ان پر مہربان ہوں۔ فرمایا: اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے اہل ایمان تم بھی ان پر درود وسلام بھیجو۔ 
چند آیات کے بعد اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور صحیح بات کیا کرو، اللہ تمہارے اعمال قبول فرمالے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اس سورۃ میں ایک آیت یہ بھی ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ یہ بار امانت (قرآن کریم کے احکام کا) ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ ڈر گئے اور اس کو اٹھانے سے انکار کردیا اور انسان نے اٹھا لیا، بلاشبہ انسان بڑا ظالم وجاہل ہے (مفسرین کے نزدیک یہ الفا ظ غایت شفقت و محبت کے ہیں )۔ 
سورۂ سبا میں کفار کے ان اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید اور خود آپؐ کی نبوت پر کیا کرتے تھے۔ مثلاً، پہلے ہی رکوع میں فرمایا کہ اہل کفر کہا کرتے ہیں کہ ہمارے پاس قیامت نہیں آئے گی، آپ فرمادیجئے کیوں نہیں آئے گی، میرے رب کی قسم جو عالم الغیب ہے قیامت تم پر ضرور آئے گی، اس سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز نہ آسمانوں میں چھپی ہوئی ہے اور نہ زمین میں، نہ ذرہ سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی۔ پھر فرمایا: کافر لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ کیا ہم تمہیں ایسے شخص کے بارے میں نہ بتلائیں جو تمہیں یہ خبر دیتا ہے کہ تم ریزہ ریزہ کردیئے جاؤ گے، اس وقت تم از سر نو پیدا کئے جاؤ گے، یہ شخص یا تو اللہ پر بہتان باندھتا ہے یا اسے جنون لاحق ہے، اس کے جواب میں فرمایا گیا: نہیں، جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں، یہی لوگ کُھلی گمراہی میں ہیں، کیا انہوں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے، اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسادیں یا آسمان سے کچھ ٹکڑے ان کے اوپر گرادیں۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا کچھ ذکر پہلے آچکا ہے اور کچھ اس سورۃ میں ہے، فرمایا کہ ہم نے داؤد علیہ السلام پر اپنی طرف سے بڑی مہربانی کی، پہاڑوں اور پرندوں کو حکم دیا کہ وہ اُن کے ساتھ تسبیح کیا کریں، ہم نے ان کیلئے لوہا نرم کردیا کہ زرہیں پوری بناؤ اور ان کے حلقے ٹھیک اندازے پر رکھو اور اچھے عمل کیا کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو میں اسے دیکھ رہا ہوں، سلیمانؑ کیلئے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی مسافت تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک ماہ کی مسافت تک (یعنی ہوا اتنی تیز رفتاری کے ساتھ ان کو لئے پھرتی تھی کہ ایک ماہ کی مسافت ایک وقت میں اور دوسرے ماہ کی مسافت دوسرے وقت میں طے کرلیا کرتے تھے، گویا ایک شب و روز میں دو ماہ کی مسافت طے ہوتی تھی) ہم نے ان کیلئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہادیا اور ایسے جنات ان کے تابع کئے جو اپنے رب کے حکم سے ان کے سامنے کام کیا کرتے تھے، وہ ان کیلئے جو کچھ وہ چاہتے بنا تے تھے، اونچی عمارتیں، مجسمے، بڑے بڑے حوض، اے آل داؤد بطور شکر (اچھا) عمل کرو (اگرچہ) میرے بندوں میں شکر کرنے والے کم ہی ہیں۔ 
جب ہم نے سلیمان پر موت کا فیصلہ کیا (تو ان کی موت کو جنات پر خفیہ رکھا کیونکہ وہ بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر میں مشغول تھے اور حضرت سلیمان کھڑے ہوکر ان کی نگرانی فرما رہے تھے) ان کی موت کا پتہ دینے والا کوئی اس گُھن کے سوا نہ تھا جو ان کے عصا کو کھارہا تھا، جب (لکڑی ٹوٹ گئی تو) سلیمانؑ گر پڑے تب جنات کو (ان کی موت کا ) پتہ چلا کہ، اگر وہ غیب کی بات جانتے تو اس ذلت آمیز (بیگار اور مزدوری کے ) عذاب میں گرفتار نہ ہوتے، یہ سب واقعات دلائل قدرت کے ضمن میں بیان کئے گئے ہیں، اس سلسلہ میں قوم سبا کا ذکر بھی آیا کہ ان کیلئے ان کے وطن ہی میں قدرت کی نشانی موجود تھی، ان کیلئے دو باغ تھے دائیں بائیں (اور انہیں اجازت تھی کہ) کھاؤ پیو اپنے رب کے عطا کردہ رزق سے اور اس کا شکر ادا کرو کہ اللہ مغفرت کرنے والا تھا (مگر انہوں نے) منہ موڑا آخر کار ہم نے ان پر سیلاب بھیج دیا اور ان کے دو باغوں کے بدلے دو اور باغ دیئے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور تھوڑی سی بیریاں تھیں، یہ تھا ان کے کفر کا بدلہ جو ان کو ہم نے دیا۔ ایسے ہی مضامین پر یہ سورۃ اختتام کو پہنچی۔ 
اس کے بعد سورۂ فاطر ہے، اس میں کفار مکہ کے ساتھ ناصحانہ انداز تخاطب اختیار کیا گیا ہے کہ رسولؐ تمہیں جس طرف بلا رہے ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے، اگر تم ان کی بات نہیں مانو گے تو ان کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے، تمہاری تمام مخالفانہ تدبیریں تمہارے ہی خلاف پڑیں گی، نبیؐ جو کچھ فرمارہے ہیں اس میں کچھ بھی غلط نہیں ہے، وہ شرک سے منع کرتے ہیں تم خود آنکھ کھول کر دیکھو کہ اللہ کے ہوتے ہوئے شرک کی کوئی معقول بنیاد ہے، وہ قیامت کے بارے بتلاتے ہیں، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کی خبر دیتے ہیں، اس میں حیرت کی کیا بات ہے، کیا تم دن رات چیزوں کے دو بارہ پیدا ہونے کا مشاہدہ نہیں کررہے ہو، پھر اللہ نے تمہیں ایک قطرے سے پیدا کیا ہے، کیا وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا، اس ناصحانہ گفتگو کے ساتھ آپؐ کو تشفی دی گئی کہ جب آپ حق دعوت ادا کر رہے ہیں تو گمراہی پر اصرار کرنے والوں کو راہ راست پر لانے کی فکر میں ہلکا ن نہ ہوں، اپنی توجہ ان پر مرکوز کریں جو آپ کی بات غور سے سنتے ہیں۔ 
اس پارہ کی آخری سورۃ سورۂ یٰسین ہے جس کا صرف ڈیڑھ رکوع اس پارے میں ہے اور باقی اگلے پارے میں ۔ 
(کل کا کالم ۲۲؍ویں تراویح کی مناسبت سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK