Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

منافقین کی پکڑ، قول و فعل میں تضاد سے ممانعت، نمازِ جمعہ اور رزق کی تلاش کا حکم

Updated: March 27, 2025, 12:02 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai

ایمان تم لوگ وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کو یہ چیز سخت ناپسند ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔

Muslims were ordered to pray Friday and spread out over the land in search of sustenance. Photo: INN.
مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ جمعہ کی نماز پڑھ کر تلاشِ رزق میں زمین پر پھیل جائیں۔ تصویر: آئی این این۔

آج :ستائیسویں تراویح۲۸؍واں پارہ : قَدْ سَمِعَ ٱللهُ 
۲۸؍ویں پارے کی پہلی سورہ مجادلہ ہے۔ یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ تجادلک سے ماخوذ ہے، جس کے معنی جھگڑا اور بحث کرنے کے ہیں۔ اس میں اس عورت کا قصہ مذکور ہے جس کے شوہر نے ظہار کیا تھا۔ ظہار کہتے ہیں اپنی بیوی کے کسی ایسے جزوبدن کو اپنی ماں یا دیگر محرمات سے تشبیہ دینا جس سے ذات مراد ہو، جیسے یہ کہا کہ تو مجھ پر ماں کی طرح ہے، یا تو میری ماں کی کمر کی طرح ہے، اس کے بعد اس عورت نے آکر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اصرار کیا کہ آپؐ کوئی ایسی صورت نکالیں جس سے اس کی شادی شدہ زندگی بچ جائے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپؐ سے بحث کررہی تھی اور اللہ سے شکایت کررہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔ اس آیت سے چھٹی آیت تک ظہار کے شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں اور مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اسلام کے بعد بھی جاہلیت کے طور طریقوں پر چلنا ایمان کے منافی ہے۔ ساتویں آیت سے دسویں آیت تک منافقین کی پکڑ کی گئی ہے کہ وہ خفیہ طور پر اسلام کے خلاف منصوبہ سازی کرتے رہتے ہیں اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا ہے اس کو ظاہر کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی سرگوشیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ پھر منافقین سے کہا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کیلئے سرگوشیاں کرنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں ہے۔ اگلی تین آیات میں مسلمانوں کو مجلسی تہذیب کی بابت بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے کچھ لوگ آجائیں تو سمٹ کر بیٹھ جائیں اور آنے والوں کیلئے جگہ بنا دیا کریں، اللہ تمہیں کشادگی عطا کرےگا، اور جب تم سے کہا جائے کہ مجلس سے اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو، تم میں سے جو اہل ایمان ہیں اور جن کو اللہ نے علم عطا کیا ہے اللہ ان کے درجات بلند کرے گا۔ اے ایمان والو! جب تم نبیؐ سے سرگوشی میں کوئی بات کیا کرو تو پہلے صدقہ دے دیا کرو۔ بعد کی آیات میں اخلاص کا معیار بتلایا گیا ہے، یہ مخلصین وہ لوگ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملے میں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتے۔ 
سورۂ الحشرکی ابتدائی آیات میں ایک غزوہ کی طرف اشارہ ہے جو تاریخ وسیرت کی کتابوں میں غزوۂ بنو نضیر کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ایک بہت بڑا قبیلہ تھا۔ افراد، مال و دولت اور جنگی سازو سامان کے لحاظ سے یہ لوگ مسلمانوں سے کسی طرح کم نہ تھے، بلکہ کچھ بڑھے ہی ہوئے تھے، مگر جب مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کیا تو وہ لوگ پہلے ہی مرحلے میں از خود جلا وطن ہوگئے۔ شروع کی چار آیات میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ وہی (اللہ) ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی ہلّے میں ان کے گھروں سے نکال باہرکیا، تمہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور تم یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے قلعے ان کو بچا لیں گے، لیکن اللہ ان پر ایسے رُخ سے آیا کہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا، اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کیا اورمؤمنین سے بھی برباد کرایا۔ اگلی آیتوں میں اموال غنیمت کے سلسلے میں ہدایت دی گئی کہ وہ اللہ ورسول، ان کے رشتہ داروں یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہیں، تاکہ وہ تمہارے دولتمندوں ہی میں گردش نہ کرتے رہیں جو کچھ رسول اللہ ﷺ تمہیں دیں، لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ۔ 
پھرغزوۂ بنو نضیر کے موقع پر منافقین نے جو روش اختیار کی تھی اس کا بھی ذکر ہے کہ انہوں نے اہل کتاب سے یہ وعدہ کررکھا تھا کہ اگر تم اپنے گھروں سے نکالے گئے تو ہم تمہارے ساتھ نکل جائیں گے اور اگر تمہارے ساتھ جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے، لیکن خدا گواہ ہے کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں، نہ گھرسے نکلیں گے اور نہ جنگ میں مدد کریں گے۔ باقی آیات میں اہل ایمان کو خطاب کرکے کچھ نصیحتیں کی گئی ہیں اور بتلایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، قرآن کو ماننے کا دعویٰ ہے مگر قرآن کی روح کو سمجھتے ہی نہیں ، یہ قرآن وہ ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے جھکا جا رہا ہے اور پھٹا جارہا ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، غیب وحاضر کا جاننے والا ہے، رحمٰن ورحیم ہے، وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، بادشاہ ہے، نہایت مقدس، سراسر سلامتی و امن دینے والا، نگہبان، غالب اپنا حکم پُر زور نافذ کرنے والا، بڑائی کا سزاوار، اللہ اس شرک سے پاک ہے جو وہ کررہے ہیں، وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ ساز بھی ہے اور اسے نافذ بھی کرتا ہے، صورت گر بھی ہے، آ سمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کی تسبیح بیان کرتی ہے، وہ زبردست ہے حکمت والا ہے۔ 
سورۂ ممتحنہ کا آغاز ایک قصے کی طرف اشارے سے ہوتا ہے۔ حضرت حاطب ابن بلتعہ ؓ نے اپنے اہل وعیال کو بچانے کیلئے مسلمانوں کا ایک جنگی راز دشمنوں کو بتلانا چاہا تھا جس کی بروقت خبر ہوگئی اور یہ راز افشا نہیں ہوسکا۔ اس سورہ کی ابتدائی نو آیات میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بنائیں۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ قیامت کے دن یہ رشتے ناطے اور اولاد کام نہ دے گی، اس روز اللہ تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ اگلی دو آیتوں میں ان مسلمان عورتوں کے متعلق فرمایا گیا ہے جو خود تو ہجرت کرکے مدینے آگئیں مگر ان کے شوہر بہ حالت کفر مکے میں تھے، یہی حال بہت سے مردوں کا تھا کہ وہ خود تو مسلمان ہوگئے تھے مگر ان کی بیویاں بہ حالت کفر مکّے میں تھیں۔ ان کے بارے میں تفصیلی احکام ہیں۔ آخری آیات میں سرکار دو عالم ؐسے فرمایا گیا ہے کہ جو عورتیں اسلام قبول کرلیں ان سے شرک، چوری، زنا، قتل اولاد، بہتان تراشی جیسی برائیوں سے بچنے کا عہد لیں۔ 
سورۂ الصف کی ابتداء میں اہل ایمان سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ اے اہل ایمان تم لوگ وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کو یہ چیز سخت ناپسند ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر عمل نہ کرو، اللہ کو وہ لوگ محبوب ہیں جواس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر صف بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں۔  اس کے بعد کی تین آیات میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ رسولؐ اللہ کے ساتھ ہمارا طرز عمل وہ نہ ہونا چاہئے جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے ساتھ ان کی قوموں کا تھا۔ اگلی آیت میں یہود ونصاریٰ اور منافقین کی سازشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ لوگ اپنی پھونکوں سے اللہ کا نور بجھانا چاہتے ہیں، اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے (پھیلا کر) رہے گا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ اگلی تین آیات میں اہل ایمان کو بتلایا گیا کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اورجان سے جہاد کرو۔ آخر میں اہل ایمان سے کہا گیا ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اسی طرح تم بھی انصار اللہ بنو۔ 
اب سورہ جمعہ ہے جس کے پہلے رکوع میں اہل کتاب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے رسول ماننے سے انکار کردیا کہ وہ امی قوم میں مبعوث ہوئے ہیں، اور تم یہ سمجھتے ہو کہ منصب رسالت ہماری قوم کیلئے مخصوص ہے، تمہاری خواہش کے علی الرغم اللہ نے انہی امیوں میں ایک رسول پیدا کیا ہے جو لوگوں کو اس کی آیات سنا رہا ہے اور تزکیۂ نفس کررہا ہے اور لوگوں کو ہدایت دے رہا ہے۔ تم کو تورات دی گئی تھی، لیکن تم نے اس کی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ تمہارا حال اس گدھے کا سا ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہیں کہ وہ کس چیز کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اگر تم بزعم خود اللہ کے محبوب اور اس کے دوست ہو تو موت کی تمنا کیوں نہیں کرتے، تم موت کی تمنا کرہی نہیں سکتے، حالاں کہ جس موت سے تم راہ فرار اختیار کررہے ہو وہ آئے گی ضرور۔ دوسرے رکوع میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا کہ جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ پھر جب نماز ختم ہوجائے تو تلاشِ رزق میں زمین پر پھیل جائیں۔ 
اگلی سورہ، سورۂ منافقون میں ان منافقین کا ذکر ہے جو اکثر یہودی تھے، ان کو اولاد پر بڑا گھمنڈ تھا، اس لئے ان سے کہا جارہا ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد تم کو یاد الٰہی سے غافل نہ کردے۔ 
اس کے بعد سورۂ تغابن ہے جس کا موضوع ایمان کی دعوت، اللہ و رسول کی اطاعت کی تلقین اور اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے۔ تمام بنی نوع انسان کو آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ کائنات جس میں تم رہتے ہو بے خدا نہیں ہے۔ اگلی پانچ آیتوں میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو قرآن کی دعوت پر یقین نہیں رکھتے اور باقی آیات میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو اس دعوت کو تسلیم کرتے ہیں۔ 
سورۂ الطلاق کے احکام تو بڑی تفصیل کے ساتھ سورۂ بقرہ میں آچکے ہیں، اس سورہ میں وہ تمام احکام علی حالہ برقرار رکھتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ مرد اپنے اختیار طلاق کو نہایت حکیمانہ طریقے پرروبہ عمل لائے، اول تو اس کی طرف سے یہ کوشش ہونی چاہئے کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق کی نوبت ہی نہ آئے، اور علاحدگی صرف اس صورت میں ہو جب مصالحت کے تمام امکانات ختم ہوچکے ہوں۔ سورۂ بقرہ میں احکام طلاق نازل ہونے کے بعد جو کچھ احکام ومسائل باقی رہ گئے تھے وہ بھی اس میں بیان ہوئے ہیں، مثلاً عدت، مطلقات کیلئے نان نفقہ کی ذمہ داری، جس بچے کے والدین طلاق کے ذریعے الگ ہوچکے ہیں اس کی رضاعت و کفالت کا نظم، وغیرہ۔ 
اس کے بعد سورۂ تحریم شروع ہوتی ہے۔ اس سورہ میں ازواج مطہرات کے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند اہم مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے، ان میں سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ حلال وحرام اور جائز یا ناجائز کی حدود مقرر کرنے کا اختیار صرف اللہ کو ہے۔ پوری سورہ اسی ایک اہم مسئلے کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ یہ سورہ ایک گھریلو قسم کے واقعے کے بعد نازل ہوئی۔ حضور پاکؐ نے اپنی ایک زوجۂ محترمہؓ کے یہاں شہد پی لیا تھا، باقی ازواج مطہرا ت ؓ کو اس پر رشک آیا اور انہوں نے کہا کہ آپ کے دہن مبارک سے ینافیر کی بو آرہی ہے، اس پر آپؐ نے قسم کھالی کہ میں آئندہ شہد نہ پیوں گا، کیونکہ آپؐ کو بدبو سخت ناپسند تھی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو چیز اللہ نے حلال کر رکھی ہے آپ اسے اپنے اوپر حرام نہ کریں۔ اس سورہ میں گھریلو معاملات کے سلسلے میں کچھ ہدایات بھی ہیں۔ 
آخر میں چار خواتین کا ذکر ہے جن میں سے دو (نوحؑ کی بیوی اور لوطؑ کی بیوی) نے کفر کیا اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور دو (آسیہ زوجہ فرعون اور حضرت مریم) اہل ایمان میں سے تھیں جن کی تعریف بیان ہوئی ہے۔ 
(کل کا کالم ۲۸؍ویں تراویح کی مناسبت سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK