آج کی تراویح کا آغاز تحویلِ قبلہ کے معاملے میں معترضین کے خیال کی تردید سے ہوا جو قبلہ رخ ہونے ہی کو نیکی سمجھتے تھے۔
EPAPER
Updated: March 04, 2025, 1:37 PM IST | Molana Nadimul Wajidi | Mumbai
آج کی تراویح کا آغاز تحویلِ قبلہ کے معاملے میں معترضین کے خیال کی تردید سے ہوا جو قبلہ رخ ہونے ہی کو نیکی سمجھتے تھے۔
دوسری تراویح: سَیَقُوْل کے ربع سے تِلْکَ الرُّسْلُ کے نصف تک
آج کی تراویح کا آغاز تحویلِ قبلہ کے معاملے میں معترضین کے خیال کی تردید سے ہوا جو قبلہ رخ ہونے ہی کو نیکی سمجھتے تھے، فرمایا نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنا منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ بندہ اللہ پر، قیامت کے دن پر، ملائکہ پر، آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء پر ایمان لائے، اپنے مال سے محبت کے باوجود (علاوہ زکوۃ کے) اسے رشتہ داروں، یتیموں، غریبوں، مسافروں، ضرورت مند سائلوں اور قید میں گرفتار مسلمانوں پر خرچ کرے، نماز پڑھے، زکوٰۃ دے، اپنا وعدہ پورا کرے، فقر وفاقہ، بیماری اور تنگی کی حالت میں صبر سے رہے۔ اس کے بعد شریعت کے کچھ اہم احکام شروع ہوتے ہیں، سب سے پہلے قصاص کا حکم ہے یعنی قتل کے بدلے قتل، اس میں برابری ہونی چاہئے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، وغیرہ، ہاں اگر قاتل کو مقتول کے وارثوں کی طرف سے معاف کردیا جائے تو دیکھا جائے گا کہ انہوں نے مالی معاوضہ کی خواہش کے بغیر معاف کیا ہے یا وہ دیت چاہتے ہیں، جو بھی طے شدہ معاملہ ہو اس کی اتباع کی جائے۔ اس آیت کے آخر میں کہا گیا کہ تمہارے لئے اے ارباب دانش! قصاص میں ہی زندگی ہے یعنی قصاص کا حکم اگرچہ سخت نظر آتا ہے لیکن ارباب عقل و خرد سمجھ سکتے ہیں کہ یہ حکم زندہ لوگوں کی زندگی کا سبب ہے، کیونکہ قصاص کے خوف سے کوئی قتل کی جرأت نہیں کرسکتا۔
قصاص کے بعد دوسرا حکم وصیت کے متعلق ہے کہ اگر تمہارے پاس مال ہو تو تم کو والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے لئے انصاف کے ساتھ وصیت کرنی چاہئے یہ وصیت آیت میراث سے پہلے فرض تھی، اب فرض تو نہیں رہی کیوں کہ آیت میراث میں ترکے کے ورثاء متعین ہوچکے ہیں، البتہ اگر کسی پر قرض وغیرہ ہو، یا کسی کے پاس امانتیں رکھی ہوئی ہوں تو مرنے سے پہلے وصیت لکھنا ضروری ہے۔
تیسرا حکم روزے کی فرضیت کا ہے کہ اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح پہلی امتوں پر فرض تھے، یہ تمام سال کے روزے نہیں ہیں بلکہ چند روز کے ہیں، اس میں بھی مریضوں اور مسافروں کو یہ گنجائش ہے کہ وہ صحت مند ہونے کے بعد یا سفر سے واپسی کے بعد رکھ لیں اور جو لوگ روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ رکھتے ہوں ان کو ایک مسکین کا کھانا بہ طور فدیہ دینا چاہئے۔
اس کے بعد ماہِ رمضان سے متعلق ارشاد ہوا کہ اس مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ہے جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت ہے اور جس میں ہدایت پانے کی واضح دلیلیں موجود ہیں اور جو حق وباطل کے درمیان حد فاصل قائم کرنے والی ہے، اس کے بعد روزے کے کچھ احکام بیان کئے گئے ہیں، مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک ہی آیت میں نزول قرآن اور روزے کی فرضیت کا ذکر کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اوررمضان میں گہری مناسبت ہے، اسی لئے اس مہینے میں تراویح کی نماز رکھی گئی ہے تاکہ قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کا اور تلاوت سننے کا اہتمام ہو۔
آگے حج کا بیان ہے، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چاند کے متعلق سوال کرتے تھے کہ یہ کیوں گھٹتا بڑھتا ہے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ چاند کا اس طرح پر نکلنا اس لئے ہے تاکہ لوگوں کو عبادات؛ نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور معاملات؛ عدت، رضاعت وغیرہ میں ماہ وسال کی تعیین میں سہولت ہو، حج کے ایام بھی چاند کے گھٹنے بڑھنے ہی سے معلوم ہوتے ہیں، درمیان میں کچھ احکامِ جہاد کے اور پھر اشہر ِ حُرم کا ذکر ہوا ہے، پھر متعدد آیات میں حج کے احکام بیان کئے گئے ہیں۔ آخر میں فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ، یعنی ظاہر وباطن اور عقیدہ وعمل ہرمعاملے میں اسلام کی اتباع کرو۔
اس پارے کے آٹھویں رکوع سے پھر بنی اسرائیل کا ذکر ہے، اس سے پہلے یہ فرمادیا گیا تھا کہ اللہ رب العزت کے واضح اور صریح حکم کے بعد اس کی مخالفت کرنا عذاب کا باعث ہے، اسی کی تائید میں فرمایا کہ بنی اسرائیل ہی سے پوچھ لو کہ ہم نے ان کے اوپر کتنی کھلی اور واضح آیات نازل کیں مگر انہوں نے انحراف کیا تو مبتلائے عذاب ہوئے۔ اسی رکوع میں یہ بھی فرمایا گیا کہ حضرت آدم ؑکے زمانے سے ایک ہی دین تھا اور سب لوگ اسی کی پیروی کرتے تھے، اس کے بعد لوگوں نے دین کے معاملے میں اختلاف شروع کردیا تب ہم نے صحیح دین بتلانے اور سمجھانے کیلئے انبیاء اور رُسل بھیجے، یہاں لوگوں کے ایک اور سوال کا ذکر بھی ہے کہ وہ آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں، آپ کہہ دیجئے کہ جو کچھ تم خرچ کروگے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں ، محتاجوں اور مسکینوں پر وہ سب خدا کے لئے ہے۔
اسی پارے میں آیت جہاد بھی ہے، جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں رہے آپ پر جہاد فرض نہیں ہوا، مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جہاد کی اجازت دی گئی مگر صرف ان کفار سے جو خود اہل اسلام سے مقاتلہ کریں، اس کے بعد عام کفار سے بھی مقاتلے کی اجازت دے دی گئی اور جہاد فرض ہوا۔ آگے جہاد کے کچھ احکام ہیں اور اسی ضمن میں یہ فرمایا گیا کہ فتنہ انگیزی قتل سے بھی بڑا جرم ہے، اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ دین کے معاملے میں فتنہ انگیزی کرنا اور ایسے حالات پیدا کرنا کہ لوگ دین قبول نہ کریں اس قتل سے بدرجہا مذموم ہے جو مسلمانوں سے حرمت کے مہینوں میں واقع ہواہو۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ اس سورہ میں متعدد احکام شریعت بیان کئے گئے ہیں، لوگوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ شراب اور جوئے کے بارے میں کیا حکم ہے، اللہ کی طرف سے حکم نازل ہوا کہ آپ ان کو بتلا دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں، مگر ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بڑھ کر ہے۔ یتیموں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ یتیموں کے کام سنوارنا بہتر ہے، بعض لوگ یتیموں کے مال میں امتیاز نہیں کرتے تھے، اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ ’’یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ‘‘ لوگ ڈر گئے اور جو لوگ یتیموں کی پرورش ان کے مال سے کررہے تھے انہوں نے ان کا کھانا پینا الگ کردیا، اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ ان کا مال الگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بس اصلاح اور درستی کا خیال رکھو، نکاح کے احکام بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ مسلمان نہ ہوجائیں، اسی طرح اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ حیض کے متعلق سوال پوچھا گیا اس کے جواب میں فرمایا کہ حیض گندگی ہے، تمہیں حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہنا چاہئے اور جب تک وہ پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب نہ جانا چاہئے، قسموں کے سلسلے میں فرمایا کہ اللہ تمہاری بے ہودہ قسموں پر گرفت نہیں کرتا لیکن جو قسمیں تم دل کے ارادے سے کھاتے ہو ان پر تمہارا مواخذہ ضرور ہوگا۔ قسم کے ہی ضمن میں ایلاء کا بیان ہے، یعنی اگر کوئی شخص یہ قسم کھالے کہ میں چار مہینے تک اپنی بیوی کے پاس نہ جاؤں گا تو اگر وہ چار ماہ سے پہلے پہلے بیوی کے پاس چلا گیا تو قسم کا کفارہ دے گا اور اگر اس مدت کے اندر نہیں گیا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس کے بعد مطلقہ عورتوں کی عدت کا ذکر ہے کہ وہ تین حیض تک انتظار کریں ، اور اگر حمل سے ہیں تو وضع حمل ہوجانے تک رکی رہیں، طلاق کے متعلق فرمایا کہ طلاق (رجعی) تو دوہی مرتبہ ہے، اس کے بعد یا تو دستور کے مطابق نکاح برقرار رکھ لینا چاہئے یا حسن سلوک کے ساتھ بیوی کو آزاد کردینا چاہئے، دو مرتبہ کی قید اس لئے لگائی کہ اسلام سے پہلے یہ طریقہ تھا کہ لوگ دس بیس بار طلاق دے کر بھی رجوع کرلیتے تھے، اس طرح عورتیں سخت دشواریوں میں تھیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعت کی اجازت صرف دو مرتبہ ہے۔
اس کے بعد خلع کا بیان ہے کہ اے مسلمانو اگر تم کو یہ خوف ہو کہ میاں بیوی میں نباہ نہیں ہوسکے گا تو عورت کو اجازت ہے کہ وہ کچھ مال دے کر اپنے آپ کو نکاح سے آزاد کرالے، تیسری طلاق کے بعد اب کوئی عورت طلاق دینے والے مرد سے اس وقت تک نکاح نہیں کرسکتی جب تک وہ عورت کسی دوسرے سے نکاح نہ کرے اور پھروہ طلاق وعدت کے مرحلے سے نہ گزر جائے۔ اس سورہ میں مدت رضاعت کا بھی ذکر ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو مکمل دو سال تک دودھ پلاسکتی ہیں۔ جن عورتوں کے شوہر مرجائیں وہ چار مہینے دس دن تک عدت پوری کریں گی، اس کے بعد کچھ مہر کے احکام ہیں کہ اگر تم نے مہر طے کئے بغیر کسی سے نکاح کرلیا اور اس کے بعد بغیر ہاتھ لگائے طلاق دے دی اب اگرچہ مہر تو نہیں دیا جائے گا کیوں کہ طے نہیں ہوا تھا تاہم اپنی وسعت کے بہ قدر کچھ نہ کچھ دو ضرور، اور اگر مہر طے ہوا تھا تو عورت نصف مہر کی حق دار ہوگی۔ اس پارے کے آخر میں طالوت بادشاہ کا قصہ بھی مذکور ہے۔
تیسرے پارے کے آغاز میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی فضیلت کا بیان ہے، اسی میں آیۃ الکرسی بھی ہے جس کی بڑی فضیلت ہے، اس میں اللہ کی توحید، اللہ کا تقدس وجلال اور عظمت پوری وضاحت کے ساتھ مذکور ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا مکالمہ اور حضرت عزیر علیہ السلام کا عجیب وغریب واقعہ بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اطمینان قلب کے لئے حق تعالیٰ سے یہ درخواست کی تھی کہ اے میرے رب مجھے یہ دکھلا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا، اس کا جواب اس طرح دیا گیا کہ تم چار پرندے پکڑو، پھر ان کے بدن کے مختلف اجزاء مختلف پہاڑیوں پر رکھ دو، پھر اپنی طرف بلاؤ وہ تمہاری طرف دوڑے چلے آئینگے، اس طرح یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ بھی ہوا اور مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت بھی سامنے آگئی۔ اس ضمنی تذکرے کے بعد پھر انفاق فی سبیل اللہ کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔
اسی سورہ میں سود کا بیان بھی ہے کہ اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ وخیرات کو بڑھاتا ہے، اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے اسے بھی چھوڑ دو۔ قرض کے لین دین کے احکام ایک طویل آیت میں مذکور ہیں کہ قرض کے معاملات گواہوں کی گواہی کے ساتھ لکھ لیا کرو۔ یہ سورہ بعض اہم ترین دعاؤں پر ختم ہوتی ہے۔ پھرآل عمران کا آغاز ہوتا ہے، اس میں پہلے اللہ کی حمد وثنا ہے، کچھ دعائیں ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوربنی اسرائیل کا ذکر ہے۔
(کل کا کالم تیسری تراویح کی مناسبت سے)