سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ اس افضل ترین گھرانے کی افضل البشر ذات گرامی آنحضرت ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرۂ ہونے کے ناتے مقام و مرتبےمیں اعلیٰ و بالا نظر آتی ہیں۔
EPAPER
Updated: March 11, 2025, 2:54 PM IST | Maulana Muhammad Qasim Rafi | Mumbai
سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ اس افضل ترین گھرانے کی افضل البشر ذات گرامی آنحضرت ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرۂ ہونے کے ناتے مقام و مرتبےمیں اعلیٰ و بالا نظر آتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے نوع انسانیت میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا، پھر ان کی تنہائی اور وحشت دور کرنے کے لئے حضرت حوا سلام اللہ علیہا کو پیدا فرمایا، مرد و عورت کے اس اولین جوڑے کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اتارا، اور ان دونوں سے نسلِ انسانیت کا ارتقا ءشروع ہوا۔ مرد و عورت کا یہ رشتہ روزِ اول سے چلا آرہا ہے، باہمی محبت و مودّت، ہمدردی و خیرخواہی اور سفرِ حیات کے نشیب و فراز میں ایک دوسرے کے ساتھ تعان کے لئے یہ بے حد ضروری بھی تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے نسل انسانی کے ساتھ ساتھ نبوت کا سلسلہ بھی جاری ہوا، جس کے آخری تاج دار خاتم النبیین آنحضرت ﷺ ٹھہرے، اور حضرت آدم و حوا سلام اللہ علیہماسے ازدواج کا جو تعلق قائم ہوا اس کی سنہری کڑی حضور اکرم ﷺ اور امّ المومنین سیّدہ طیبہ طاہرہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا جیسا خوبصورت اور لاثانی جوڑا ہے۔
جب آنحضرت ﷺ پر منصبِ نبوت کی اہم ذمہ داری عائد ہوئی اور آپؐ پہلی وحی کے نزول کے بعد گھر تشریف لائے تو یہ آپ کی زوجہ مطہرہ سیدہ خدیجہ ؓہی تھیں، جن کے تسلی آمیز کلمات نے آپؐ کی ڈھارس بندھائی اور ان کے حوصلہ افزا کلمات نے آپؐ کو امید دلائی تھی، پھر اپنے چچازاد بھائی حضرت ورقہ بن نوفل ؓ کے پاس لے جاکر ان سے بھی آپ ﷺ کے قلبی اطمینان میں اضافہ کرایا۔
یہ بھی پڑھئے:سورہ ہود میں کئی قوموں کی سرکشی اور پھر ان پر عذاب کے واقعات بیان ہوئے ہیں!
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ جب غارِ حرا میں حضرت جبریلؑ کے ظاہرہونے پر حضور اقدس ﷺ گھبرا کر گھر تشریف لائے تھے تو اس گھبراہٹ کے وقت حضرت خدیجہ ؓنے حضور ؐ کو تسلی دیتے ہوئے کہا:’’آپ پریشان نہ ہوں۔ اللہ کی قسم! ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ آپ کو بے سہارا کردے۔ آپ تو رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔ آپ سچ بولتے ہیں۔ عاجز محتاج کی مدد کرتے ہیں۔ غریبوں کا خرچ برداشت کرتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق والے مصیبت زدوں کے کام آتے ہیں۔ ‘‘
پھر حضرت خدیجہؓکی خواہش پر حضرت ورقہ بن نوفل، جو آسمانی مذاہب کے بڑے عالم اور توحید پرست تھے، نے سارا ماجرا سنا تو کہا:’’اے بھتیجے! خوش ہوجائو، یہ وہی فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ کاش! میں اس وقت تک زندہ رہ سکوں، جب آپ کی قوم آپ کو مکہ مکرمہ سے نکالے گی۔ ‘‘ آپ ﷺنے تعجب سے دریافت فرمایا : ’’ کیا ایسا ہوگا؟‘‘ تو حضرت ورقہ نے جواب میں کہا: ’’جی ہاں ! جب کبھی آپ جیسا دین لے کر کوئی نبی آیا تو ضرور اس سے دشمنی کی گئی۔ اگر مجھے آپ کا وہ زمانہ ملا تو میں آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔ ‘‘
مندرجہ بالا واقعے سے امّ المومنین حضرت خدیجہ ؓکی سمجھداری، فہم و فراست، ایمان کی مضبوطی، یقین کی پختگی، ثابت قدمی اور بیدار قلبی کا ثبوت ملتا ہے، اور کیوں نہ ہو! آپؓ کا حسب و نسب انہی اوصاف کا تقاضا کرتا ہے۔ ام المومنین، سیدۃ المسلمین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا عام الفیل سے تقریباً پندرہ سال پہلے پیدا ہوئیں۔ آپؓ کا سلسلۂ نسب آنحضرتؐ کے اجداد سے جاملتا ہے، اور آپؓ کا قبیلہ قریش ٹھہرتا ہے۔
تمام ازواج مطہراتؓ میں آپ کو آپﷺ سے نسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ قرب حاصل ہے، اورنکاح کے بعد آپ گھرانہ نبوت کی سب سے پہلی فرد ہیں۔ سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ اس افضل ترین گھرانے کی افضل البشر ذات گرامی آنحضرت ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرۂ ہونے کے ناتے مقام و مرتبےمیں اعلیٰ و بالا نظر آتی ہیں۔ جب کہ آپ کا اپنا گھرانا بھی بزرگی میں ممتاز تھا، آپ کے خاندان میں ایسے بزرگ موجود تھے جو شرک و بت پرستی سے بے زار تھے اور تورات و انجیل کے عالم تھے، جس کی بناء پر وہ نبی آخر الزماں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے منتظر تھے، اور جانتے تھے کہ ان کا زمانہ قریب ہے اور وہ اولادِ سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے ہوں گے۔
حضرت خدیجہؓ کے والد گرامی کا ایک قابل فخر کارنامہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب یمن کے آخری بادشاہ تبع نے حجر اسود کو خانہ کعبہ سے اکھاڑ کر یمن لے جانے کا ارادہ کیا تو جناب خویلد نے اسے منع کیا اور بالآخر وہ اسے اس ارادے سے باز رکھنے میں کامیاب ٹھہرے، اس طرح حجر اسود کی حفاظت میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ نیز حضرت خدیجہؓ کے چچازاد جناب ورقہ بن نوفل کے بارے میں گزرا کہ وہ انجیل کے بڑے عالم تھے، شرک سے بے زار اور مؤحّد تھے، آنحضرت ﷺکے پاس تشریف لانے والے فرشتے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معرفت رکھتے تھے، اور آپؐ کی نبوت و رسالت کی گواہی دینے والے تھے۔ اپنے آباء واجداد کی انہی صفات و خوبیوں کی بناء پر سیدہ خدیجہؓ بھی انہی کے رنگ میں رنگی ہوئی تھیں، آپ انتہائی شرم و حیا والی خاتون تھیں، بت پرستی سےکوسوں دور تھیں، اور اپنے چچازاد حضرت ورقہؓ کے ساتھ نبی آخرالزماں ﷺکی بعثت کی منتظر تھیں۔ زمانہ جاہلیت میں بھی آپؓ کے کردار کی بلندی اس قدر تھی کہ آپؓ ’’طاہرہ‘‘ کے خوش لقب سے پکاری جاتی تھیں۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کو دو مرتبہ بیوہ ہونے کے بعد بھی عرب کے رؤسا و سرداروں کی جانب سے نکاح کے پیام موصول ہوتے رہے، مگر آپؓ نے قبول نہیں فرمائے۔ پھر آپؓ کی قریبی سہیلی حضرت نفیسہ بنت منیہ نے آپؐکے ساتھ آپؓ کے نکاح کی تحریک کی، جانبین سے رضا مندی ہونے کے بعد حضور اکرمﷺ کے سرپرست و محبوب چچا جناب ابوطالب، حضرت حمزہؓ اور حضرت عباس ؓباقاعدہ پیامِ نکاح لے کر حضرت خدیجہؓ کے گھر تشریف لے گئے، حضرت خدیجہؓ کی جانب سے ان کے چچازاد بھائی عمرو بن اسد آئے، مجلسِ نکاح منعقد ہوئی، جناب ابو طالب نے خطبہ نکاح پڑھا۔
حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کے نکاح میں آجانے کے بعد اپنا تمام تر مال و دولت آپؐ پر نچھاور کر دیا اور خود کو آپ کی خدمت کے لئےوقف کردیا۔ آپ نبوت ملنے سے قبل خلوت نشینی کو پسند فرمانے لگے تھے، چنانچہ آپ کئی کئی روز غارِ حرا میں مقیم رہتے تھے تو حضرت خدیجہؓ آپ ﷺکے کھانے پینے کے انتظامات میں مشغول رہتی تھیں، آپﷺ کے غارِ حرا تشریف لے جاتے وقت توشہ سفر باندھ کر ساتھ دیتیں اور بسا اوقات گھر سے کھانا تیار کرکے غار تک پہنچانے تشریف لے جاتی تھیں۔ (جاری)