نظام کائنات توازن کے ساتھ عدل پر قائم ہے، فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات کے رہنے والے بھی عدل پر قائم رہیں، توازن میں خلل نہ ڈالیں۔
EPAPER
Updated: March 26, 2025, 11:38 PM IST | Mumabi
نظام کائنات توازن کے ساتھ عدل پر قائم ہے، فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات کے رہنے والے بھی عدل پر قائم رہیں، توازن میں خلل نہ ڈالیں۔
آج :چھبیسویں تراویح
۲۷؍واں پارہ : قَالَ فَمَا خَطْبُكُم
۲۶؍ویں پارہ کی آخری سورہ الذاریات تھی جس کا موضوع بھی آخرت ہی ہے، اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے یہاں آخرت کا تصور تو ہے مگر عجیب وغریب شکلوں کے ساتھ، کسی نے اسے تناسخ کی شکل میں مانا، کسی نے اخروی زندگی کو تو تسلیم کیا مگر مکافات عمل کو ناقابل یقین ٹھہرایا۔ ۲۷؍ویں پارے کے آغاز میں حضرت لوط، حضرت ہود اور حضرت نوح علیہم السلام کی قوموں پر نازل ہونے والے عذاب کا ذکر ہے۔ سورہ کے آخر میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہ سب سرکش لوگ ہیں، آپ ان سے اعراض کیجئے، آپ پر کوئی ملامت نہیں کی جائے گی، البتہ نصیحت کرتے رہئے کیوں کہ نصیحت اہل ایمان کو نفع دیتی ہے، میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے، میں ان سے رزق نہیں مانگتا اور نہ ان سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں،اللہ تو خود ہی رزق دینے والا ہے، وہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔
اگلی سورہ طور ہے، اس کا موضوع بھی آخرت ہے، البتہ اس میں وقوع آخرت کے دلائل کے بجائے چند اہم چیزوں کی قسمیں کھا کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ قیامت تو ہر حال میں واقع ہوگی، فرمایا: قسم ہے (پہاڑ) طور کی اور لکھی ہوئی کتاب کی جو پتلی جلد میں ہے (مراد تورات وانجیل ہے) بیت معمور کی، (ساتویں آسمان پر ملائکہ کا قبلہ) اونچی چھت (آسمان) کی اور موجزن سمندر کی کہ آپ کے رب کا عذاب واقع ہونے والا ہے۔ آگے یہ بتلایا گیا ہے کہ اس عذاب کو کوئی روکنے والا نہیں ہے، کسی میں یہ طاقت نہیں کہ قیامت کو برپا ہونے سے روک دے، جو آج اس کا انکار کررہے ہیں وہ خود اپنا انجام دیکھ لیں گے۔ سورہ کے دوسرے رکوع میں سرداران قریش کے بارے میں بتلایا گیا ہے کہ وہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن، کبھی دیوانہ اور کبھی شاعر کہہ کر لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت سے برگشتہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن آسمان سے نہیں اتر رہا ہے بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) خود ہی گھڑ رہے ہیں، وہ بطور طنز یہ بھی کہتے ہیں کہ کیا اللہ کو پیغمبری کیلئے یہی ملے تھے، جب بھی آپ ﷺان کو دعوت دینے جاتے تو وہ ایسے منہ چھپا کر بھاگ کھڑے ہوتے جیسے آپ ان سے کچھ مانگنے آگئے ہوں۔ سرداران قریش کے اس رویّے کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے ارشاد فرمایا: آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، یہاں تک کہ وہ اپنے اس دن کو پہنچ جائیں جس دن ان کے ہوش اڑ جائیں گے جس دن ان کی کوئی چال ان کے کام نہ آئے گی، نہ ان کی مدد کی جائے گی اور ظلم کرنے والوں کے لئے اس وقت کے آنے سے پہلے بھی ایک عذاب ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں، آپ اپنے رب کا فیصلہ کرنے تک صبر کریں، آپ ہماری نظروں (کی حفاظت ) میں ہیں اور آپ اٹھتے وقت اپنے رب کی تسبیح بیان کیا کیجئے اور رات کے وقت بھی اور جب ستارے چھپتے ہیں اس وقت بھی۔
اگلی سورۂ النجم کا آغاز اس کلام سے کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم گمراہ اور بھٹکے ہوئے انسان نہیں ہیں، جیسا کہ تم ان کے متعلق کہتے ہو اور نہ وہ اپنی طرف سے کچھ کہتے ہیں بلکہ جو کچھ کہتے ہیں وہ خالص وحی ہے، جو ان کے اوپر نازل کی جاتی ہے انہوں نے اس فرشتے کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جس کے ذریعے سے ان کو یہ علم دیا جاتا ہے، انہیں اپنی نشانیوں کا براہ راست مشاہدہ کرایا گیا ہے، وہ جو کچھ کہتے ہیں سوچ کر نہیں کہتے، دیکھ کر کہتے ہیں، ان سے تم جھگڑتے ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اندھا کسی آنکھوں والے سے کسی ایسی چیز کے بارے میں جھگڑے جو اسے نظر نہیں آتی۔ تم جس دین کو مانتے ہو اس کی بنیاد حقائق پر نہیں مفروضات پر قائم ہے، تم نے لات منات اور عزّی نام کے بت مان رکھے ہیں اور ان کو معبود بنا رکھا ہے، حالاں کہ ان میں معبودیت والی کوئی بات ہی نہیں ہے، تم فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہتے ہو اور خود اپنے لئے بیٹی کے وجود کو باعث ذلت اورباعث ِ عار سمجھتے ہو۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ گھڑے ہوئے معبود تمہارے بگڑے کام بنواسکتے ہیں، یہ تمہاری غلط فہمی ہے، یہ جھوٹے معبود تو کیا تمام مقربین مل کر بھی اللہ سے کوئی بات نہیں منوا سکتے، تمہارے عقائد علم اور دلیل سے تعلق نہیں رکھتے، کچھ اوہام ہیں، کچھ خواہشات نفس ہیں جن کو تم نے دین سمجھ رکھا ہے۔ تمہیں حقیقت کی جستجو ہے بھی نہیں اور تمہیں اس بات کی بھی پروا نہیں ہے کہ جن عقائد کو تم لئے بیٹھے ہو وہ حق کے مطابق ہیں بھی یا نہیں، نہ تمہیں آخرت کی فکر ہے بس تم دنیا کی طلب میں لگے ہوئے ہو، اس حقیقت کو یاد رکھو کہ اللہ ہی مالکِ کُل اور مختار مطلق ہے، وہ ہدایت یافتہ ہے جو اس کے راستے پر ہے اور وہ گمراہ ہے جو اس کے راستے سے ہٹا ہوا ہے، فیصلے کا وقت قریب آپہنچا ہے اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے، مگر اس سے پہلے تم کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے ذریعے خبردار کیا جارہا ہے۔ تم ان کی ہنسی اڑاتے ہو، شور مچاتے ہو تاکہ کوئی اور بھی اس کو سننے نہ پائے، کیا تمہیں اپنی اس احمقانہ حرکت پر رونا نہیں آتا، اپنی اس حرکت سے باز آجاؤ اور اللہ کے سامنے سر بہ سجود ہوجاؤ۔
اگلی سورہ القمر ہے، اس میں معجزۂ شق القمر کا تذکر ہ ہے۔ روایات میں ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں منیٰ کے اندر کفار کا مجمع تھا، اس وقت ان لوگوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا کہ آپؐ کوئی نشانی دکھلائیں آپؐ نے دعا فرمائی، اچانک چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے، ایک ٹکڑا مشرق کی سمت چلا گیا اور دوسرا مغرب کی جانب چلا گیا۔ چاند پھر اپنی اصل حالت میں واپس آگیا، اسی کے متعلق فرمایا گیا کہ قیامت قریب آچکی ہے، چاند شق ہوچکا ہے اور جب یہ لوگ کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو اسے ٹال جاتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ شق القمر کا واقعہ ایک معجزہ تو تھا ہی، وہ اس وقت کے حالات کے مطابق منکرین آخرت کیلئے عبرت و موعظت کا سامان بھی تھا کہ جس طرح یہ چاند دو ٹکڑے ہوچکا ہے اسی طرح دوسرے ستارے اور سیارے بھی پھٹ سکتے ہیں اور اسی طرح قیامت برپا ہوگی، مگر یہ لوگ نہ سمجھتے ہیں نہ واقعات سے عبرت حاصل کرتے ہیں اور نہ تاریخ سے نصیحت پکڑتے ہیں ، یہ تو اسی وقت مانیں گے جب حقیقت میں قیامت برپا ہوگی اور لوگ قبروں سے نکل کر حشر کے میدان کی طرف دوڑیں گے۔ اس سورہ میں قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور آل فرعون کے واقعات بھی مختصراً بیان کئے گئے ہیں، ہر قوم کا قصہ بیان کرنے کے بعد یہ بات دہرائی گئی ہے کہ یہ قرآن نصیحت حاصل کرنے کا آسان ذریعہ ہے، اس کے بعد کفار مکہ سے خطاب کرکے کہا گیا ہے کہ ان قوموں کو جس وجہ سے عذاب دیا گیا ہے وہی طریقہ تم بھی اختیار کررہے ہو، تم بھی سزا سے نہ بچ سکو گے۔ قیامت اللہ کے لئے کوئی دشوار کام نہیں ہے، بس ایک حکم کی دیر ہے، پلک جھپکتے ہی برپا ہو جائے گی۔
سورۂ الرحمٰن قرآن کریم کی وہ سورہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے ساتھ جنوں کو بھی براہ راست مخاطب فرمایا ہے اور دونوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بے شمار مظاہر اور ان گنت انعامات واحسانات بتلا کر یہ حکم دیاہے کہ وہ نافرمانی سے بچیں اور اطاعت و فرماں برداری اختیار کریں۔ اس سورہ میں شروع کی چار آیات میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کی تعلیم اللہ کی طرف سے ہے، اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اسے بیان پر دسترس بخشی ہے۔ اگلی دو آیتوں میں بتلایا گیا کہ زمین و آسمان کی تمام چیزیں، چاند اور سورج سب ایک طے شدہ حساب کے تحت چل رہے ہیں اور دنیا کی تما م مخلوقات اس کی اطاعت گزار ہیں۔ اگلی تین آیتوں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ نظام کائنات توازن کے ساتھ عدل پر قائم ہے، فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کائنات کے رہنے والے بھی عدل پر قائم رہیں اور توازن میں خلل نہ ڈالیں۔ اگلی سولہ آیات میں قدرت کے عجائب وکمالات بیان کئے گئے ہیں اور ان نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے انسان اور جنات سب ہی مستفید ہورہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ تم اللہ رب العالمین کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤگے۔
اگلی پانچ آیات میں ان دونوں مخلوقات کو اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے کہ کائنات کی ہر چیز فانی ہے، بس ایک خدا ہی کی ذات ایسی ہے جسے فنا نہیں ہے، اپنے وجود وبقاء کیلئے سب اسی لافانی ہستی کے محتاج ہیں۔اگلی چھ آیات میں یہ کہا گیا ہے کہ عنقریب یوم حِساب آنے والا ہے، اس دن سے کوئی مفر نہیں ہے اور نہ کوئی جائے پناہ ہے۔ اگلی دو آیتوں میں بھی یہی مضمون دہرایا گیا ہے، اگلی سات آیتوں میں انسانوں اور جنوں میں سے ان مجرمین کی خبر دی گئی ہے جو دنیا میں اللہ کی نافرمانی کرتے رہے ہیں، اگلی تمام آیات میں ان انعامات کا ذکر ہے جو آخرت میں نیک انسانوں اور جنوں کو عطا کئے جائیںگے۔
سورۂ الواقعہ کا موضوع ان اعتراضات اور شبہات کی تردید ہے جو کفار مکہ کی طرف سے آخرت، توحید اور قرآن پرکئے جاتے تھے، آخرت کے متعلق تو ان کا خیال یہ تھا کہ یہ واقع ہوہی نہیں سکتی اور ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ قیامت برپا ہو اور زمین و آسمان کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے، مردے دوبارہ زندہ ہوں، ان کا حساب کتاب ہو، نیک انسانوں کو جنت ملے اور برے انسان جہنم کے حوالے کئے جائیں، یہ سب خیالی اور فرضی قصے ہیں۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ جب یہ واقعہ پیش آئے گا اس وقت کوئی اسے جھٹلانے والا نہیں ہوگا، اس وقت انسانوں کے تین طبقے ہوں گے سابقین صالحین اور منکرین، ان تینوں طبقات کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اس کی تفصیل اس سورہ کی آیت سات سے آیت چھبیس تک ہے، اگلی پندرہ سولہ آیات میں عقیدۂ آخرت اور عقیدۂ توحید پر دلائل دئیے گئے ہیں، وہ دلائل آسمان وزمین کی وسعتوں میں بھی پھیلے ہوئے ہیں اور خود انسان کے اندر بھی موجود ہیں، اس کے بعد والی آیات میں قرآن کے متعلق پیدا ہونے والے شکوک و اوہام کی تردید کی گئی ہے اور کفار مکہ سے کہا گیا ہے کہ تم اس کی تکذیب کرتے ہو، یہ اللہ کی نعمت ہے، اس سے فائدہ اٹھاؤ، اس کی تکذیب نہ کرو۔
اس کے بعد سورۂ الحدید شروع ہوتی ہے۔ اس میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا بیان ہے، پھر انفاق فی سبیل اللہ کو موضوع بنا کر کہا گیا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہ کرے، مال در حقیقت اللہ ہی کا ہے تم تو اس پر قائم مقام کی حیثیت سے قابض اور متصرف ہو، یہ مال کل کسی اور کے پاس تھا، آج تمہارے پاس ہے، کل کسی اور کے پاس ہوگا، اگر اس مال کا کوئی حصہ آئندہ تمہارے کام آسکتا ہے تو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال ہے، اللہ کیلئے جو مال بھی خرچ کیا جائے گا وہ اللہ کے ذمے قرض ہوگا اور اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا بلکہ اس پر مزید اجروثواب بھی عطا کرے گا، آخرت میں اللہ کا نور ان خوش قسمت اہل ایمان کو نصیب ہوگا جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کیا ہے۔