کاروبار میں بھی فرقہ پرستی، ’شربت جہاد‘ کا شوشہ اس کا واضح ثبوت ہے، اس فرقہ پرستانہ کوشش کے باوجود عدالت، اہم شخصیات اور عوام کا رد عمل نہایت شاندار اور امید افزا رہا۔
EPAPER
Updated: April 27, 2025, 2:33 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
کاروبار میں بھی فرقہ پرستی، ’شربت جہاد‘ کا شوشہ اس کا واضح ثبوت ہے، اس فرقہ پرستانہ کوشش کے باوجود عدالت، اہم شخصیات اور عوام کا رد عمل نہایت شاندار اور امید افزا رہا۔
سرزمین ہندوستان جو صدیوں سے محبت، رواداری اور گنگا جمنی تہذیب کی امین رہی ہے، آج ایک ایسے پُرآشوب دور سے گزر رہی ہے جہاں مذہبی تعصب کی آندھیاں سماج کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لینے پر تُلی ہوئی ہیں۔ سیاست اور فرقہ پرستی کا زہر تو بہت پہلے رگ و پے میں اتر چکا تھا مگر جب کاروبار جیسی بے ضرر انسانی ضرورت پر بھی فرقہ پرستی کی گرد جمنے لگے تو یہ المیہ سے آگے بڑھ کر سانحہ بن جاتا ہے۔ ’شربت جہاد‘ جیسا لغو اور مضحکہ خیز شوشہ اسی تعصب کی گھناؤنی کوششوں کا بین ثبوت ہے، جس کا مقصد سماجی ہم آہنگی کی جڑیں کاٹنا اور نفرت کے بیج بونا ہے۔ ایسے ہی اندھیرے میں رام دیو جیسے کردار ابھرتے ہیں جو روحانیت کے نام پر تعصب کی تجارت کرتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ خود کو سنتوں کا وارث کہلوانا چاہتے ہیں مگر لہجے میں تعصب کی زہرناکی چھپا نہیں پاتے۔ جو زبان کبھی ’پرانایام‘ اور ’آسن‘کی نرمی گنگناتی تھی، اب نفرت کے کٹھور نعرے برساتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یوگا چھوڑ کر وہ ’تعصب آسن‘ کی مشق میں لگ گئے ہوں اور ہر سانس کے ساتھ نفرت کے پودے اُگا رہے ہوں۔ رام دیو جو کبھی یوگا کےسفیر سمجھے جاتے تھے، آج نفرت کے سوداگر بن کر اپنے ہی دعوؤں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یوگا کی نرمی کو چھوڑ کر وہ ’تعصب آسن‘ میں مہارت حاصل کر چکے ہیں جہاں ہر سانس کے ساتھ وہ رواداری کا گلا گھونٹنے کی مشق کرتے ہیں۔ غالب کی یہ شکایت گویا انہی پر صادق آتی ہے ’’ہم کو اُن سے وفا کی ہے امید، جو نہیں جانتے وفا کیا ہے‘‘۔
رام دیو کی حالیہ حرکات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے یوگا کے آدرشوں کو نیلامی میں چڑھا دیا ہے اور اب روحانیت کی خالی دیواروں پر نفرت کے بینر چسپاں کر د ئیے ہیں۔ رام دیو کی حالیہ حرکات یہ ثابت کرتی ہیں کہ ظاہری روحانیت کا لباس پہن لینا دل کی صفائی کی ضمانت نہیں ہوتا۔ ان کا ’شربت جہاد‘ کا افسانہ دراصل اس ذہنی دیوالیہ پن کا اعلان ہے جہاں دلیل، محبت اور سچائی کا چراغ بجھ چکا ہے اور اندھی تقلید کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی حرکات پر میر تقی میر ؔ کا طنز یوں چھلکتا ہے: ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔ ‘‘
رام دیو کی موجودہ حیثیت ایک ایسے دکاندار کی ہوکر رہ گئی ہے جو روحانی مال کے نام پر زہر کی شیشیاں بیچ رہا ہو اور ہر خریدار کے ہاتھ میں تعصب کا طوق تھما رہا ہو۔ ان کی کاروباری چالاکیاں اس حد تک پہنچ چکی ہیں کہ اب وہ خود بھی نہیں جانتے کہ وہ یوگا کے استاد ہیں یا نفرت کے بیوپاری۔ ان کا یوگا اب سچ بولنے کے آسن سے خالی ہو چکا ہے، ان کا پرانایام اب تعصب کی آلودگی میں سانسیں لینا سکھاتا ہے، ان کی سنسکرتی اب فرقہ پرستی کی میلی چادر میں لپٹی ہوئی ہے۔ بابا رام دیو کی زبان آج کل یوگا کی نرمی کے بجائے، نفرت کے پتھریلے وزن اٹھانے میں مصروف ہوگئی ہے۔ جو شخص سانسوں کو سنبھالنے کا درس دیتا تھا، اب لوگوں کے دم گھوٹنے کے منصوبے پیش کر رہا ہے۔ سچ پوچھیں تو ان کے بیانات کو سن کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تعصب نے یوگا کو بھی زبردستی ’کنٹھ مالا‘ پہنا دی ہو۔ ’شربت جہاد‘جیسے افسانے گھڑنا گویا اس بات کا اعتراف ہے کہ دلائل کی زمین بنجر ہو چکی ہے اور اب تعصب کے خار بو کر سیاسی فصلیں اگانے کی لاحاصل کوششیں ہو رہی ہیں۔
شربت جہاد محض الزام نہیں بلکہ ایک منظم کوشش ہے کہ معاشی میدان میں بھی ایک خاص طبقے کو حاشیے پر دھکیل دیا جائے۔ شربت ہو یا کباب، حجاب ہو یا حلال ہر شے کو ’جہاد‘ کے لیبل کے ساتھ جوڑ کر ایک جعلی خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس خطرے کا فائدہ وہی عناصر اٹھاتے ہیں جن کا مقصد سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنا اور فرقہ وارانہ تفریق سے سیاسی یا معاشی فائدہ حاصل کرنا ہے۔
مگر فرقہ پرستی کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی امید کی کرنیں بہرحال روشن ہیں۔ عدالتوں نے آئین کے تحفظ کا علم بلند رکھا ہے، ملک کی سیکولر و معزز شخصیات نے حق و صداقت کی آواز اٹھائی ہے اور عام ہندوستانی عوام نے نفرت کے اس مکروہ کاروبار کو مسترد کر کے اپنی دانشمندی اور فراست کا لوہا منوایاہے۔ عدالت نے رام دیو کو جس طرح لتاڑا ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ہندوستان کی سیکولر اور محبت کرنے والی روح آج بھی زندہ ہے، وہ روح جو نہ کبھی نفرت کے سوداگروں کی باتوں میں آئی ہے اور نہ کبھی آئے گی۔ آج جب رام دیو جیسے کردار اپنے زوال کی طرف بڑھتے ہیں تو تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ محبت اور اخوت کے چراغ کبھی بجھائے نہیں جاسکتے اور آج کے ہندوستان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی حالت بدلنے کا شعور رکھتا ہے بلکہ تعصب کے ہر سوداگر کو منہ کی کھانے پر مجبور کر سکتا ہے۔ رام دیو اور ان جیسے دوسرے کرداروں کے لئے یہی پیغام کافی ہے کہ روحانیت کا لباس پہن کر نفرت کا کاروبار زیادہ دیر نہیں چمکایا جا سکتا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ رام دیو دوسروں کی بنائی گئی لکیر کے سامنے اپنی لکیر کو بڑا کرنے کا ہنر نہیں جانتے۔ محبت کی فطرت میں دوام ہے، نفرت کی فطرت میں فنا اور آخرکار یہی محبت کا کارواں اپنی منزل پائے گا اور فرقہ پرستی کے یہ عارضی خیمے وقت کے طوفان میں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ فرقہ پرستی کا جتنا بھی شور اٹھے، جب عوامی شعور بیدار ہوتا ہے نفرت کے ایوانوں کی دیواروں میں خود بخود دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ یہی وہ زندہ اور روشن جذبہ ہے جس پر ہندوستان کی روح آج بھی قائم ہے اور کل بھی تابندہ رہے گی۔