ملک کی پارلیمنٹ ہر روز نئی تاریخ لکھتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں تاریخ لکھنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ جس ہندوستانی پارلیمنٹ نے دو دن پہلے ’مردِ تاریخ‘ نریندر مودی کی قیادت میں ’ناری شکتی وندن‘ کی تاریخ لکھی تھی، اسی پارلیمنٹ میں حکمراں طبقے کے ایک رکن نے پارلیمانی ڈکشنری میں کئی نئے اور تہذیبی الفاظ کا اضافہ کیا جو کہ گزشتہ ۷۵؍ برسوں میں نہیں بنائے جاسکے تھے۔
رمیش بدھوڑی۔ تصویر:آئی این این
ملک کی پارلیمنٹ ہر روز نئی تاریخ لکھتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں تاریخ لکھنے کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے۔ جس ہندوستانی پارلیمنٹ نے دو دن پہلے ’مردِ تاریخ‘نریندر مودی کی قیادت میں ’ناری شکتی وندن‘ کی تاریخ لکھی تھی، اسی پارلیمنٹ میں حکمراں طبقے کے ایک رکن نے پارلیمانی ڈکشنری میں کئی نئے اور تہذیبی الفاظ کا اضافہ کیا جو کہ گزشتہ ۷۵؍ برسوں میں نہیں بنائے جاسکے تھے۔ اس نئی تاریخ کو لکھنے کیلئے حکمراں جماعت کو اعلیٰ ترین شہری اعزاز بھارت رتن سے نوازا جانا چاہئے۔
ملک میں ’ناری شکتی وندنا‘ کے نعرے لگانے والی بی جے پی کا اصل چہرہ ان کی پارٹی کے سینئر رکن اسمبلی رمیش بدھوڑی نے بے نقاب کر دیا ہے۔ لوک سبھا میں چندریان تھری پر بحث کے دوران بدھوڑی نے بی ایس پی کے رکن پارلیمان کنور دانش علی کے خلاف جو ’تہذیب یافتہ‘ الفاظ استعمال کئے تھے وہ آج تک کبھی استعمال نہیں ہوئے ہیں ۔ یقیناً، بدھوڑی کو یہ الفاظ اور اقدار بی جے پی کی بنیادی تنظیم کی کسی نہ کسی شاخ میں ملی ہوں گی۔ ۶۰؍ کی عمر کو عبور کرنے والے بدھوڑی کوئی نئے کھلاڑی نہیں ہیں جو انجانے میں غلطی کر بیٹھے۔ وہ بی جے پی کے ایک منجھے ہوئے کارکن اور لیڈر ہیں ۔ رمیش بدھوڑی لوک سبھا اور بی جے پی کے رکن ہیں ۔ کالج کے زمانے ہی سے وہ سیاست میں سرگرم ہیں ۔ انہوں نے بی جے پی کو اپنی سیاسی جماعت کے طور پر منتخب کیا۔ وہ دہلی ریاست میں بی جے پی کے جنرل سکریٹری تھے۔ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۸ء تک وہ بی جے پی دہلی کے نائب صدر تھے۔ بی جے پی نے انہیں ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات کیلئے امیدوار منتخب کیا۔ اپنی انہی ’خوبیوں ‘ کی بنیاد پر بدھوڑی تین بار ایم ایل اے بھی رہ چکے ہیں ۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی دیواریں بدھوڑی کی آواز سے گونج رہی ہیں اور وہ خود کو قابل فخر محسوس کر رہی ہیں ۔ وہیں پارلیمنٹ کی پرانی عمارت اس بات پر اطمینان محسوس کررہی ہوگی کہ کم از کم ’بدھوڑی ادب‘ کے یہ الفاظ اس کی عمارت کا حصہ نہیں بنے...کیونکہ پرانے پارلیمنٹ ہاؤس میں لکھی گئی اس ملک کی تاریخ کی زبان رمیش بدھوڑی کے الفاظ سے ذرہ برابر بھی میل نہیں کھاتی۔ ان کی زبان کا موازنہ ان کی اپنی پارٹی کے اعلیٰ لیڈروں کی زبان سے ضرور کیا جا سکتا ہے جو ماضی میں ایک شریف خاتون کو جرسی گائے کہہ چکے ہیں ۔ وہ لوگ جو کسی کی گرل فرینڈ کو۴۰؍ کروڑ کی سمجھتے ہیں اور خاتون رکن پارلیمان کی ہنسی میں انہیں شیطان کی آواز محسوس ہوتی ہے۔ رکن پارلیمان بدھوڑی نے کوئی جرم نہیں کیا۔ بی جے پی کو تو ان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے ان کی پارٹی کی عزت بچائی، ورنہ ملک کو کیسے پتہ چلتا کہ ہمارے ملک کی ’مہذب ترین‘ پارٹی کی’قومی زبان‘ کیا ہے؟
بدھوڑی نے جو زبان استعمال کی ہے، بی جے پی کے زیادہ تر اراکین پارلیمان شاید وہی اصطلاحات استعمال کرنا چاہتے ہوں گے لیکن وہ اس کی ہمت نہیں کر سکے۔ بدھوڑی کو نوٹس دینے کے بجائے، بی جے پی کو لوک سبھا اسپیکر سے اس سال کے بہترین رکن پارلیمان کا ایوارڈ دینے کیلئے کہنا چا ہے۔ وہ’مستحق‘ ہیں ۔ قانون کا ایک عام طالب علم ہونے کے ناطے میں جانتا ہوں کہ اگر بدھوڑی نے بی ایس پی کے رکن پارلیمان دانش بھائی کے تئیں جو الفاظ اور رویہ استعمال کیا ہے وہ پارلیمنٹ کے اندر نہ ہوتا تو بدھوڑی کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا جاتا جو غیر ضمانتی ہو تا ہے۔ اس نے دانش بھائی کو ایوان سے باہر دیکھنے کیلئے کہا ہے۔ انہوں نے جو کہا اس کا ہر لفظ ہتک آمیز ہے لیکن یہ سب کچھ پارلیمنٹ کے اندر جس میں اراکین کو استحقاق حاصل ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے، کوئی ایسا ڈسٹر اور ایسا کوئی ربڑ نہیں ہے جس سے بدھوری جی کے سنہری الفاظ کو مٹایا جا سکے۔ تکنیکی طور پر بھلے ہی الفاظ ہٹا دیئے جائیں لیکن وہ پارلیمنٹ کی کارروائی سے کبھی نہیں ہٹ سکتے۔ وہ ایک ایک فرد کے پاس پہنچ چکی ہے۔
وہ الفاظ ٹی وی کیمروں میں قید ہیں ۔ وہ سوشل میڈیا کے اثاثہ بن چکے ہیں ۔ بدھوڑی کے الفاظ اب ہندوستانی پارلیمنٹ کی ادبی ملکیت‘ ہیں ۔ انہیں ۲۰۲۴ء میں منتخب ہونے والے نئے اراکین پارلیمان کی ٹریننگ کیلئے لی جانے والی کلاسوں میں پڑھا جائے گا تاکہ نئے اراکین سیکھ سکیں کہ انہیں پارلیمنٹ میں کون سی اصطلاحات استعمال کرنی ہیں ۔ بی جے پی نے اپنے تشکیل کے ۴۳؍ برسوں میں کتنے بدھوڑی پیدا کئے ہیں، یہ شاید اسے بھی ٹھیک سے پتہ نہ ہو۔