• Tue, 04 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ریڈر اِز کنگ، آپ قارئین بادشاہ ہیں!

Updated: February 03, 2025, 4:40 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

اس عنوان میں مشہور فقرے ’’سنگھ از کنگ‘‘ سے استفادہ کے مقصد سے ’’ریڈر اِز کنگ‘‘ لکھنے کو ترجیح دی گئی جس کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہمیں علم ہے کہ اکثر قارئین اپنی زبان اُردو سے والہانہ محبت کرتے ہیں، اُنہیں انگریزی یا کسی اور زبان کے الفاظ کی آمیزش ناگوار گزرتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بڑا مستحسن جذبہ ہے جو اردو زبان کے زندہ و تابندہ ہونے کی دلیل ہے۔

Some young people are reading the Inquilab newspaper. Photo: INN.
کچھ نوجوان انقلاب اخبار کا مطالعہ کررہے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

اس عنوان میں مشہور فقرے ’’سنگھ از کنگ‘‘ سے استفادہ کے مقصد سے ’’ریڈر اِز کنگ‘‘ لکھنے کو ترجیح دی گئی جس کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہمیں علم ہے کہ اکثر قارئین اپنی زبان اُردو سے والہانہ محبت کرتے ہیں، اُنہیں انگریزی یا کسی اور زبان کے الفاظ کی آمیزش ناگوار گزرتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بڑا مستحسن جذبہ ہے جو اردو زبان کے زندہ و تابندہ ہونے کی دلیل ہے۔ یاد آتے ہیں بانیٔ انقلاب مرحوم عبدالحمید انصاری، جو آج بقید حیات ہوتے تو اُردو زبان کو فروغ پاتا اور انقلاب کو ترقی کرتا ہوا دیکھتے تو کتنا خوش ہوتے! رب العالمین اُن کی قبر کو نور سے بھردے، آمین۔ 

عبدالحمید انصاری مرحوم

انقلاب کی چھیاسیویں سالگرہ پر ہمیں فخر بھی ہورہا ہے اور مسرت بھی۔ فخر اس لئے کہ چھیاسی سال کم نہیں ہوتے۔ ہم صرف اردو کا رونا روتے ہیں مگر یہ مسئلہ صرف اردو کا نہیں بلکہ دیگر زبانوں میں بھی رہا ہے کہ اخبار جاری ہوتا ہے، کچھ عرصہ جاری رہتا ہے، پھر سسکیاں اور ہچکیاں لینے لگتا ہے اور پھر ایں جہانی سے آنجہانی ہوجاتا ہے۔ اخبار کے ارباب ِاختیار اس کا ٹھیکرا قارئین کے سر پھوڑتے ہیں مگر ہم نے کسی اور زبان کے لوگوں کو اخبار یا رسالہ بند ہونے پر قارئین کو ملزم ٹھہراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہمارے یہاں بند ہونے والے اخبارات ہمیشہ قاری کے سر پر الزام دھرتے ہیں جبکہ کسی بھی دَور میں اُردو کے سارے اخبارات بند نہیں ہوئے، کچھ یا بہت سے جاری رہے، آج بھی جاری ہیں اور اپنا سفر آب و تاب کے ساتھ طے کر رہے ہیں۔ انقلاب بھی انہی میں سے ایک ہے جو ملک کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے۔ غور فرمائیے انقلاب کو سب سے زیادہ پڑھے جانے کا اعزاز کس نے دلوایا؟ بلاشبہ قارئین نے یعنی آپ نے دلوایا۔ اسی لئے ہماری نظر میں قاری بادشاہ ہے اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بادشاہ ہے تو آپ سب کا مرتبہ مزید بڑھ جاتا ہے اور آپ بادشاہ گر قرار پاتے ہیں۔ 
انقلاب کی چھیاسیویں سالگرہ پر ہمیں فخر کے ساتھ مسرت اس لئے ہے کہ اس اخبار کے پڑھنے والوں میں ایسے بھی ہیں جو نصف صدی سے اس کا مطالعہ کررہے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جنہوں نے خود تو پڑھا، اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کی تلقین کی جس کا نتیجہ ہے کہ بہت سے گھروں میں چوتھی نسل انقلاب پڑھ رہی ہے ( ملاحظہ کیجئے: ایک چھت کے نیچے چار نسلیں، انقلاب، ۷۸؍ ویں سالگرہ کا خصوصی شمارہ)۔ ہمیں مسرت اس لئے بھی ہے کہ بہت سے قاری نہ صرف اس کے مشمولات کی حفاظت کرتے ہیں بلکہ الگ الگ طریقوں سے اپنی انقلاب نوازی کا ثبوت بھی دیتے ہیں (مثلاً پائیدھونی کے محمد عثمان غنی صاحب)۔ ایک بار ایک قاری (میر ساجد علی قادری، اندھیری) تشریف لائے اور اداریوں کے تراشوں کا فائل بطور تحفہ پیش کیا۔ ایسے ہی ایک اور قاری (عبدالقادر ایم جولی، نالا سوپارہ) نے ایک بیاض نذر کی جس میں انقلاب کے صفحہ اول کی بے شمار شہ سرخیاں درج تھیں۔ ایک بار ایک خاتون قاری (گل بانو درویش) دفتر انقلاب کا پتہ بدلنے کے سبب بہت پریشان ہوئیں۔ وہ انقلاب کے عملے سے ملاقات کرنا چاہتی تھیں۔ بعد از تلاش بسیار وہ پہنچیں، انقلاب کے ادارتی عملے سے بڑے جذباتی انداز میں ملیں اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا۔ ایک خاتون (ثمینہ منصوری) نے انقلاب کو دو مختلف پکوانوں کی ترکیب بھیجی جو انقلاب میں اہتمام کے ساتھ شائع کی گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کا فون آیا، انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں بتایا کہ میرے پکوانوں کی تراکیب کو انقلاب میں جگہ کیا ملی، میرے حالات بدل گئے، انقلاب نے مجھے عام سے خاص بنا دیا، وہ اس طرح کہ اُس کے بعد مَیں نے کیٹرنگ کا باقاعدہ کاروبار شروع کیا جو آج ’’شیف ثمیناز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ (ان صاحبہ کو کئی مقابلوں میں بھی شامل کیا جاچکا ہے)۔ ایک بار راقم الحروف، فلم اداکار منوج کمار سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ وہ پلنگ پر نیم دراز تھے۔ راقم نے سلام دعا اور مصافحہ کے بعد کمرے کا جائزہ لیا تو میز پر کئی اخبارات سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔ ان میں انقلاب نہیں تھا۔ راقم نے استفسار کیا کہ آپ تو فرماتے ہیں کہ انقلاب روزانہ پڑھتا ہوں، یہاں تو نہیں ہے؟ یہ سن کر منوج کمار نے اشارہ کیا کہ ادھر آئیے، پھر اپنا تکیہ سرکا کر کہا یہ دیکھئے! انقلاب کو میں اپنے سرہانے رکھتا ہوں۔ 
یہ واقعات پڑھ کر آپ کو بھی مسرت ہورہی ہوگی اور آپ ہماری کیفیت کو سمجھ رہے ہوں گے۔ خیر، اب عنوان کی طرف لوَٹتے ہیں کہ قاری بادشاہ ہے، آپ بادشاہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ انقلاب کا قاری نام نہاد قاری نہیں ہے کہ پڑھنا تھا پڑھ لیا، سرسری ورق گردانی کرلی یا پڑھ سکے تو پڑھا ورنہ کوئی بات نہیں۔ انقلاب کا قاری خاندانِ انقلاب کا فرد ہے اور اپنی اس شناخت پر نازاں ہے، مخلص و بہی خواہ ہے، انقلاب کی ترقی کو اپنی ترقی سمجھتا ہے، وہ اخبار پڑھتا ہی نہیں ہے، اپنی رائے بھی دیتا ہے، غلطی ہوجائے تو نشاندہی بھی کرتا ہے، اہم امور پر توجہ بھی دلاتا ہے، قیمتی مشوروں سے بھی نوازتا ہے، خوشی کے اظہار کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی ناراض بھی ہوتا ہے (ناراضگی کا ایک واقعہ آگے آئیگا) اور بسا اوقات انقلاب سے پرانی وابستگی کا حوالہ دے کر رعب بھی جماتا ہے۔ اتنی اپنائیت تو معاشرہ کے بہت سے گھروں میں بھی نہیں ملے گی!ناراضگی کی بابت بتادیں کہ اُس زمانے میں جب ٹوجی اسپیکٹرم کا تنازع شباب پر تھا، انقلاب کی شہ سرخی میں اسپیکٹرم جیسے الفاظ استعمال ہوئے تھے۔ اُسی دن سہ پہر میں معروف شاعر و نغمہ نگار گلزار صاحب نے فون کیا، بھئی آپ کی شہ سرخی میں اتنے انگریزی الفاظ؟ راقم نے معذرت کی اور مسئلہ بیان کیا کہ یہ اتنا تکنیکی معاملہ ہے کہ جو الفاظ آئے ہیں اُن کااردو نعم البدل کہاں سے آئے! 
ایسے کئی واقعات ہیں جو قارئین سے انقلاب کی اور انقلاب سے قارئین کی جذباتی وابستگی کے غماز ہیں۔ روزانہ، جب انقلاب کا ادارتی عملہ، دفتر میں بیٹھ کر دوسرے دن کے شمارہ کے خدوحال پر تبادلۂ خیال کررہا ہوتا ہے تب عملے کے ہر فرد کے ذہن میں یہی بات ہوتی ہے کہ ہم عام قاری کی خدمت میں نہیں بلکہ انقلاب سے جذباتی لگاؤ رکھنے والے ایسے سنجیدہ اور ذی شعور قاری کی خدمت میں پیش ہونے جارہے ہیں جو واقعاتی سہو ہوجائے تو اُس کی بھی اور زبان و بیان کی غلطی راہ پا جائے تو اُس کی بھی نشاندہی کریگا۔ انقلاب نے ایسے تمام قارئین کو ہمیشہ اپنے محسنین میں شمار کیا اور اسی احساس کے ساتھ اُن کا شکریہ ادا کیا ہے۔ 
مگر، یاد رہے کہ ہم اُن قارئین کی بات کررہے ہیں جو روزانہ اخبار اپنے گھر منگواتے ہیں یا اخبار فروش سے خریدتے ہیں۔ ہم اُن کی بات نہیں کررہے ہیں جو کہیں نہ کہیں سے فارورڈ ہونے والے پی ڈی ایف کا مطالعہ کرکے بزعم خود ’’حق ِاخبار‘‘ ادا کرتے ہیں اور ایسا کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ پی ڈی ایف کی شکل میں حاصل شدہ اخبار کا قاری اخبار کا دوست ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لاک ڈاؤن کے دَور کو چھوڑ کر ہم نے کبھی پی ڈی ایف اپنے دفتر سے جاری نہیں کیا۔ جو لوگ پی ڈی ایف بناکر تقسیم کرتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں ( جن میں سے چند ایک کو ہم نے نوٹس دیا ہے) اور جو اس سے استفادہ کرتے ہیں وہ بھی غلطی پر ہیں۔ ۸۶؍ ویں سالگرہ پر اپنے اصل قارئین (جو کنگ ہیں )کی خدمت میں ہمارا پیغام یہی ہے کہ انقلاب کو پی ڈی ایف کلچر کا حصہ نہ بننے دیں، اپنے اثرورسوخ کا استعمال کریں اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں اُنہیں سمجھائیں، اُنہیں روکیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK