• Thu, 26 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان اور عرب ممالک کے تعلقات

Updated: September 19, 2023, 7:00 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

عرب ملکوں میں لاکھوں ہندوستانی نژاد لوگ ہیں، اب ان میں مسلمان ہی نہیں ہندوستان کے ہر مذہب اور ہر فرقہ کے لوگ ہیں، یہ لوگ یہاں کاروبار کرتے ہیں، ملازمت کرتے ہیں اور ہر سال اربوں کا غیر ملکی سرمایہ ہندوستان کیلئے کماتے ہیں۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

جیسا کہ ان کالموں میں بتایا گیا تھا کہ بھارت اور انڈیا زور دار بحث وقت گزرنے کے ساتھ ہی گزر گئی خیر اس کے بعد ہم نے میڈیا اور خاص طور پر مین اسٹریم میڈیا میں یہ خبریں دیکھیں یا دکھائی گئیں کہ اچانک سعودی عرب اور ہندوستان میں معاشی تعاون کے اچھے معاہدے ہو گئے اور بقول میڈیا سعودی عرب اور ایران میں کچھ معاہدے قرار پائے، اگر ایسا ہو تو یقیناًیہ ایک اچھی خبر ہوتی لیکن ہماری جانب سے یہ جان لیں کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ ایک تو جی ٹوینٹی میٹنگ ایک بین الاقوامی ہنگامہ تھا، یہاں کسی دو ملکوں میں ایسے معاہدوں کا کوئی ماحول ہی نہیں تھا، نہ ہی ہم نے یا آپ نے کوئی ایسا منظر یا عکس دیکھا جس میں نریندر مودی اور محمد بن سلمان کسی دستاویزات پر دستخط کر رہے ہوں ۔ یقینا َ اس میں کسی نہ کسی کا کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کا پہلو رہاہوگا۔ 
 بر سبیل تذکرہ ہم آپ کو یاد دلادیں کہ جس وقت مہاراشٹر کے اسمبلی چناؤکے بعد امیت شاہ اور ادھو ٹھاکرے میں بات چیت چل رہی تھی کہ پہلے ڈھائی سال چیف منسٹر شیو سینا کا ہوگا یا بی جے پی کا، تو اس وقت ادھو ٹھاکرے کا کہنا تھا کہ امیت شاہ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ پہلا چیف منسٹر شیو سینا کا ہی ہوگا۔ دوسری طرف امیت شاہ کا اسرار تھا کہ انہوں نے ایسا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔ ان کالموں کے مستقل قارئین کو یاد ہوگا کہ در اصل راز کی بات یہ تھی کہ مودی سرکار نے امبانی کو یہ بچن دیا تھا کہ انہیں کوکن میں ایک ریفائنری کھولنے کی اجازت دی جائے گی۔ کوکن کے لوگ اس ریفائنری کے خلاف تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ اس ریفائنری کے بعد کوکن میں ماہی زندگی بالکل ختم ہوجائے گی۔ اس ریفائنری کے لئے سعودی عرب نے بھی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پھر شیو سینا حکومت بن گئی اور بات آئی گئی ہو گئی۔اب اس ریفائنری کےکھلنے کا کوئی امکان نہیں ہے اس لئے بھی سعودی عرب بزنس مین ہو چکے ہیں وہ مودی کی کمزوری کے بعد کسی معاشی جال میں الجھنا نہیں چاہیں گے۔
ہندوستانیوں اورعربوں میں خیر سگالی کے جذبات بھی صدیوں پرانے ہیں ، اسلام کی آمد سے قبل بھی ان دونوں میں تعلقات کا ایک تسلسل تھا۔ عرب اس مقام تک جسے اب کیرل کہا جاتا تھا اپنی دخانی کشتیاں لے کر آتے تھے۔ وہ یہاں اپنا سامان بیچتے تھے اور یہاں سے اپنی ضرروتوں کے سامان لے جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جنوبی ہند کےلوگوں کےجلدکی رنگت گہرے سانولے یا سیاہ قسم کی تھی اسی لئے عرب انہیں ہندوکہا کرتے تھے۔ اسلام کے آنے کے بعد بھی تعلقات کا تسلسل جاری رہا، کہتے ہیں کہ رسول پاک کے عہد میں یہاں بسنے والے مسلمانوں نے کچھ مسجدیں بنوائی تھیں ، جو آج بھی یہ مسجدیں پوری آب و تاب سے موجود ہیں ۔ ہزاروں مسلمان یہاں نمازیں ادا کرتے ہیں ، خیر ہے کہ اس علاقہ میں نہ کل کوئی ایسا گروہ تھا اور نہ آج ہے جو کسی مسجد کو دیکھتے ہی وہاں مندر کی تلاش شروع کر دیتا ہے، اسلام کی آمدکے بعد سے آج تک ہزاروں ایسے ملیالی مسلم ہیں جنہوں نے مختلف عرب ممالک میں اپنے چھوٹے موٹے کارو بار شروع کر رکھے ہیں ۔
 عرب ممالک میں تیل نکلنے کے بعد یہ تعلقات مزید بڑھے۔ اب ان ملکوں میں لاکھوں ہندوستانی نژاد لوگ ہیں ، اب ان میں مسلمان ہی نہیں ہندوستان کے ہر مذہب اور ہر فرقہ کے لوگ ہیں ، یہ لوگ یہاں کاروبار کرتے ہیں ، ملازمت کرتے ہیں اور ہر سال اربوں کا غیر ملکی سرمایہ ہندوستان کیلئے کماتے ہیں ۔ ان میں ڈاکٹر ہیں ، نرسیں ہیں ،انجینئر ہیں ،پروفیسر ہیں ، اب ان میں بڑے بڑے کاروباری بھی ہیں ۔آپ بھی اگر دبئی وغیرہ جائیں تو معلوم ہوگا کہ وہاں سونے اور زیورات کا تمام کاروبار ہندستانیوں کے قبضہ میں ہے۔ اب وہاں ان کی بلڈنگیں ہیں ۔ ان لوگوں نے عربی آداب سیکھ لئے ہیں اور عرب بھی ان کی توقیر کرتے ہیں ۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے بھی عربوں میں کافی دھوم مچائی ہے، سعودی عرب نے انہیں اعزاز سے نوازا ہے،خلیجی ملکوں میں بھی ان کا ذکر رہا ہے بلکہ خلیجی ملک سے ان کے بہت اچھے مراسم ہیں ۔اب تو کئی عرب ممالک نے اپنے یہاں ہندوؤں کو مندر بنانے کی بھی اجازت دے دی ہے، یہ بھی اچھا ہے، ہر ملک پر لازم ہے کہ وہ اپنے یہاں بسنے والوں کی مذہبی رسوم کی ادائیگی کی اجازت دے، یہ تعلقات اور بھی آگے بڑھتے ، لیکن پچھلے کچھ سال سے اس میں نشیب و فراز پیدا ہونے لگے ہیں ۔
 مودی سرکا رکے بنتے ہی یہاں کچھ ایسی باتیں ہوئی ہیں جوعربوں کو ناخوشگوار لگی ہیں ۔ اصل میں یہاں بھی کچھ سنگھ اور مودی کے ہمدردوں میں پیچیدگیاں پیدا کیں ۔ انہوں نے پہلے مودی سرکار کے گن گائے، عربوں نے اس کا کوئی برا نہیں منایا، پھر یہاں اندھ بھگتوں نے ہندوستانی مسلمانوں پر حملے شروع کئے۔ بی جے پی کے کرناٹک ایم پی تیجسوی سوریہ نے عرب خواتین کے خلاف رکیک جملے کہے ، ایک پریس کانفرنس میں ہندوستان کے بدنام ترین ٹی وی اینکر سدھیر چودھری کو بولنے کیلئے بلایا گیا تھا ، لیکن جب ان کی باری آئی تو خلیج کے شاہی خاندان کی ایک رکن ہندی القاسمی نے اعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اسلام اور مسلم دشمن فرد ہے اسے بولنے کی اجازت نہ دینی چاہئے۔ بلکہ سدھیر چودھری کو کانفرنس سے نکال دیا گیا۔ اس طرح ان کا نکالا جانا ان کی عزت کے خزانے کو کم نہیں کرتا تھا کیونکہ ایسا تو ان کے ساتھ کئی بار ہو چکا تھا۔ ہاں ان کے ٹی وی کو ندامت جھیلنی پڑی تھی۔ 
 جی ٹوینٹی سے اس ملک کو کیا فائدہ ہوا ہے یا ہوا بھی ہے یا نہیں اس پر کافی بحثیں ہو رہی ہیں لیکن ایک فائدہ ضرورہواہے، یہ بات مختلف ملکوں سے آئے ہوئے سربراہوں نے تو نہیں کہی لیکن ان کے ساتھ جو وفود اور صحافی آئے تھے انہوں نے ہندوستان میں کانفرنس کے ذمہ داروں کو یہ بتلا دیا کہ ملک کے میڈیا کی حرکتوں کی وجہ سے ہندوستان کی بہت بد نامی ہو رہی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ کانفرنس کے بعد بی جے پی نے یہ حکم نامہ جاری کیا ہے کہ ٹی وی پر بی جے پی کے وہ مشاہد جاری کریں گے ، جن کو بی جے پی نے اجازت دی ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ کسی مذہب کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، اس لئے آپ کو ا ب گودی میڈیا پر بی جے پی کے وہ کمنٹیٹر نظر نہیں آئیں گے جو اسلام دشمن پروپیگنڈے کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتے تھے۔ دوسری طرف چیف جسٹس چندر چوڑ نے بھی وزیر داخلہ کو حکم دیا ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر اپنی پریس بریفنگ تیارکریں اور یہ بتائیں کہ جعلی اور فیک نیوز کے بارے میں اس کی پالیسی کیا ہوگی۔ ہم خود چاہتے ہیں کہ عرب اور ہندوستانی دنیا میں خیر سگالی ہو۔ شاید ان اقدامات کے بعد یہ ممکن بھی ہو جائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK