• Wed, 22 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہار میں ضمنی انتخابات کے نتائج اور سیاسی دعویداری!

Updated: November 28, 2024, 1:11 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

ہندوستان کےانتخابی عمل مشکوک ہوتے جا رہے ہیں۔ نتائج کے بعد قومی سطح پر یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ عوام کے یقین کو متزلزل کرنے والا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

کسی بھی جمہوری ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہاں انتخابی عمل مشتبہ نہ ہو اور عوام کے ذہن ودل میں نتائج کے متعلق کسی طرح کا وسوسہ پیدا نہ ہو۔ مگر افسوس صد افسوس حالیہ دنوں میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان کے انتخابی عمل مشکوک ہوتے جا رہے ہیں اور پارلیمانی انتخابات ہوں کہ اسمبلی انتخابات، کے نتائج کے بعد قومی سطح پر یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ جو نتیجہ سامنے آیا ہے وہ عوام کے یقین کو متزلزل کرنے والا ہے اور اس کے دو بنیادی وجوہ ہیں ۔ اول تو یہ کہ ہمارے ملک میں انتخابی عمل کے درمیان ہی مختلف طرح کے ایگزٹ پول شروع ہو جاتے ہیں اور وہ قومی سطح پر مشتہر کئے جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس ایگزٹ پول کو الگ الگ سیاسی نظریے سے دیکھا جاتا ہے اور حالیہ دنوں میں تو بیشتر ایگزٹ پول کرنے والی ایجنسیوں کے خواب چکنا چور ہوئے ہیں۔ دوسری تلخ سچائی یہ ہے کہ اب چونکہ ہر ایک بوتھ کے ای وی ایم الگ الگ ہوتے ہیں اور جس کی وجہ سے بھی ووٹروں کے ذہن میں یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جتنا فیصد ووٹ ڈالا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ ووٹوں کی گنتی کی گئی ہے اور ووٹروں کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ جس پارٹی کے حمایتیوں کی تعداد انگلیوں پر گننے والی اس بوتھ پر تھی وہاں انہیں سیکڑوں میں ووٹ ملتے ہیں ۔ حالیہ پارلیمانی انتخاب میں بھی اس طرح کے ہزاروں بوتھوں کی مثال سامنے آئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے کئی معاملے عدالتِ عظمیٰ تک پہنچے تھے اور عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا کہ اگر کسی بوتھ پر اس طرح کا شک وشبہ ہوتا ہے تو اس حلقے کے امید وار ای وی ایم اور وی وی پیٹ کے ملان کے لئے ۴۷۲۰۰؍ روپے جمع کرا کر انتخابی کمیشن سے دوبارہ ووٹ شماری کرا سکتے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگردوبارہ ووٹ شماری کے اس عمل میں ایک بھی ووٹ کی زیادتی یا کمی ہوتی ہے تو بطور فیس لی گئی رقم امیدوار کو واپس کی جائے گی۔ مگر المیہ یہ ہے کہ عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کو بھی انتخابی کمیشن اہمیت نہیں دے رہی ہے اور ہریانہ اسمبلی انتخاب کے بعد جتنے بھی اس طرح کی دعویداری کی گئی تھی وہ سب ٹھنڈے بستے میں ہے۔ اب جب کہ مہاراشٹر اسمبلی کا انتخابی نتیجہ سامنے آیا ہے تو ایک بار پھر عوام میں طرح طرح کی چہ می گوئیاں شروع ہوگئی ہیں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی یہ خلاصہ کیا جا رہاہے کہ کس طرح الیکشن کمیشن نے اپنے عملی رویے سے نتائج کو متاثر کیا ہے۔ 
بہر کیف! ملک کی مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آچکے ہیں اور اسی کڑی میں ریاست بہار اسمبلی کی چار خالی سیٹوں کے لئے بھی ضمنی انتخاب ہوا تھااور ان چاروں سیٹوں پر نتیش کمار کی قیادت والی این ڈی اے کو کامیابی ملی ہے۔ جب کہ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ ان چاروں سیٹوں کے نتائج چونکانے والے ہوں گے مگر جن کو بہار کی سیاست سے دلچسپی ہے انہیں زمینی حقیقت معلوم تھی کہ نتائج کیا ہوں گے۔ 
بہار میں حالیہ دنوں میں پرشانت کشور نے جس طرح ایک نئی سیاسی جماعت ’’جن سوراج‘‘ کی تشکیل دی تھی اور انہوں نے اس ضمنی انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے اسی وقت راقم الحروف نے لکھا تھا کہ اس ضمنی انتخاب کے نتائج کیا ہونے والے ہیں کیوں کہ پرشانت کشور کے سیاسی عندیہ اظہر من الشمس ہیں کہ وہ کس مشن میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے اس مشن کا پردہ فاش بھی اس ضمنی انتخاب کے نتائج نے کردیا ہے۔ واضح رہے کہ بہار میں چار اسمبلی حلقے بیلا گنج، امام گنج، رام گڑھ اور تراری میں انتخاب ہونے تھے اور ان چاروں جگہوں پر قومی جمہوری اتحاد کو کامیابی ملی ہے۔ رام گڑھ اور تراری میں بی جے پی کے امیدوار کامیاب ہوئے ہیں جب کہ بیلا گنج میں جے ڈی یو کو کامیابی ملی ہے۔ امام گنج میں ہندوستانی عوام مورچہ یعنی جیتن رام مانجھی کی پارٹی کامیاب ہوئی ہے۔ ان چاروں اسمبلی حلقے کے ووٹوں کے اعداد وشمار سے یہ اندازہ لگ جاتا ہے کہ جن سوراج نے کس کا کھیل بگاڑا ہے۔ تراری میں بی جے پی کے امیدوار وشال پرشانت کو ۷۸۷۵۵؍ ووٹ ملے تھے جب کہ مالے کے راجو یادو کو ۶۸۱۴۳؍اور جن سوراج کو ۶۵۲۲؍ ووٹ ملے ہیں ۔ رام گڑھ میں بی جے پی کے کامیاب امیدوار اشوک کمار سنگھ کو ۶۲۲۵۷؍ووٹ ملے تھے جب کہ بسپا کے ستیش یادو کو ۶۰۸۹۵؍ اور راجد کے اجیت سنگھ کو ۳۵۸۲۵؍ ووٹ ملا ہے۔ امام گنج میں جتین رام مانجھی کی بہو دیپا کماری مانجھی کو کل ووٹ ۵۳۴۳۵؍ملے ہیں اور راجد کے امیدوار روشن کمار کو ۴۷۴۹۰؍ جب کہ جن سوراج کے امیدوار جیتندر کمار کو ۳۷۱۰۳؍ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اسی طرح بیلا گنج میں جنتا دل متحدہ کی کامیاب امیدوار منورما دیوی کو ۷۳۳۳۴؍ ووٹ ملے ہیں اور راجد کے وشوناتھ کو ۵۱۹۵۳؍جب کہ جن سوراج کے محمد امجد کو ۱۷۲۸۵؍ ووٹ ملے ہیں۔ ووٹوں کے اس اعداد وشمار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پرشانت کشور اپنے مشن میں کامیاب رہے ہیں اور انڈیا اتحاد یعنی راشٹریہ جنتا دل اور مالے کے امیدواروں کی شکست فاش کی وجہ کیا رہی ہے۔ اس ضمنی انتخاب کے بعدریاست میں سیاسی بیانیہ میں بھی تبدیلی آئی ہے کہ جنتا دل متحدہ کے ممبر پارلیمنٹ اور مودی کابینہ میں وزیر راجیو رنجن عرف للن سنگھ نے گزشتہ روز مظفرپور میں پارٹی کی میٹنگ میں اعلانیہ کہا کہ جنتا دل متحدہ کو مسلمان ووٹ نہیں دیتے ہیں اور ہماری پارٹی کے کسی بھی لیڈر کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنی چاہئے کہ مسلمان انہیں ووٹ دیں گے۔ شاید اس میٹنگ میں مسلم طبقے کے بھی ان کی پارٹی کے لیڈر رہے ہوں گے اور ان کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ کر للن سنگھ نے یہ بھی کہا کہ نتیش کمار کوجوووٹ دیتے ہیں اس کیلئے بھی کام کرتے ہیں اور جو نہیں دیتے ہیں اس کیلئےبھی کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسی طرح کا بیان حالیہ پارلیمانی انتخاب کے نتائج کے بعد جے ڈی یو پارلیمانی ممبر دیویش چندر ٹھاکر نے بھی دیا تھا۔ غرض کہ ایک طرف راشٹریہ جنتا دل شکست فاش کیلئے مسلمانوں کے سر ٹھیکرا پھوڑ رہے ہیں تو دوسری طرف حکمراں جماعت کے ممبر پارلیمنٹ مسلمانوں کی سیاسی بصیرت کو اجاگر کر رہے ہیں ۔ 

bihar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK