• Mon, 24 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کشمکش کے دروازے پر انقلاب کی دستک (کارل مارکس کے نام )

Updated: February 24, 2025, 5:28 PM IST | Aleem Tahir | Malegaon

اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کے لئے کشمکش جس جھونپڑی میں رہائش پذیر تھی اس نے جھونپڑی کو خود اپنے محنت کش ہاتھوں سے تشکیل دیا تھا۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

اپنے وجود کو محفوظ رکھنے کے لئے کشمکش جس جھونپڑی میں رہائش پذیر تھی اس نے جھونپڑی کو خود اپنے محنت کش ہاتھوں سے تشکیل دیا تھا۔ جو مفلسی کی مثال ہونے کے باوجود اکیلی کشمکش کی طرح پرکشش اور خوبصورت تھی۔ ارد گرد نیچرل ماحول تھا۔ دور تک کھیتوں اور درختوں کا ایک ہجوم اس کا پڑوسی تھا۔ 
 حالانکہ اس کے نام کی معنویت کی طرح اس کی زندگی میں کھینچا تانی، کشاکش، کشیدگی، رکاوٹ، مجادلہ، لڑائی، جھگڑا، تکرار، مخمصہ، بکھیڑا، الجھاؤ، غم و اندوہ، اضطراب، پریشانی، مصیبت، مشکل، دھکم پیل، مجمع، بھیڑ، کوشش، تگ ودو، جدوجہد، الجھن، وغیرہ سمٹ کر کشمکش میں تبدیل ہو چکے تھے۔ کشمکش اجرت پر جسمانی محنت و مشقت کرنے والی اس کردار کا نام ہے۔ جس کا دنیا میں سب سے زیادہ استحصال کیا گیا ہے۔ 
  دو وقت کی روٹی کے لئے سرمایہ دار طبقے نے کشمکش کو غلامی کی پگڈنڈیوں پر چلنے اور جھونپڑی میں رہنے پر مجبور رکھا۔ کشمکش جیسے بے شمار کرداروں کے زوال سے سرمایہ دار طبقے کا عروج برقرار ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو منصفانہ رویوں کی جانکاری ضرور رکھتا ہے لیکن انصاف برتنے کے تعلق سے نیتوں میں کھوٹ رکھنے کو ہوشیاری سمجھتا ہے۔ 
 آج رات بھی اپنی جھونپڑی میں کشمکش تذبذب اور الجھن میں مبتلا اپنے بستر پر لیٹے لیٹے چھت تاکتے ہوئے نیند سے ہمیشہ کی طرح کوسوں دور تھی۔ جھونپڑی میں شمشان اور قبرستان کی خموشی اور سناٹے سا طلسم اس وقت ٹوٹتا ہے جب دروازے پر دستک کی آواز آتی ہے۔ کشمکش اٹھ کر دروازے کی طرف بڑبڑاتے ہوئے جانے لگتی ہے۔ 
 ’’اتنی رات گئے کسی نئے کام کا آرڈر نہ آیا ہو۔ ‘‘ دروازہ کھولتی ہے، سامنے فعال، متحرک اور جلالی شخص کو دیکھ کر پوچھتی ہے۔ ’’کون؟‘‘جواب ملتا ہے۔ ’’ میں انقلاب ہوں۔ آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ 
  کشمکش دروازہ کھولتے ہوئے اندر آنے کا اشارہ دیتی ہے۔ ’’ آئیے آئیے آپ کا استقبال ہے۔ ‘‘ انقلاب اندر آ کر کشمکش کے روبرو بیٹھ جاتا ہے۔ کشمکش کہتی ہے کہیے کیسے آنا ہوا ؟
  انقلاب جھونپڑی کے در و دیوار اور چھت پر اچٹتی سی نظریں گھماتے ہوئے بولا’’ میں دراصل آپ کی گفتگو زندگی کے لیے ہی آیا ہوں۔ مجھے محسوس ہوا کہ آپ سے تبادلۂ خیال کر لوں۔ کیونکہ جسمانی محنت اور مشقت کے ساتھ عصر حاضر میں یا جدید عہد میں ذہنی محنت کو بھی دیگر شعبوں میں مزدوری گردانا جا رہا ہے۔ 
  کشمکش کے چہرے پر اضطرابی کیفیت کے ساتھ شگفتگی کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ کہنے لگی، ’’انقلاب صاحب پہلے تو آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے میرے اور مجھ جیسے بے شمار کرداروں کے متعلق اظہار ہمدردی پیش کیا۔ آپ بالکل درست فرما رہے ہیں پوری دنیا میں آج بھی مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے۔ دن بدن اجرت میں کٹوتی اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ یہ سب سوچ کر مجھ میں الجھاؤ سا رہتا ہے۔ 
  انقلاب دیدے گھماتے ہوئے بول پڑا کشمکش جی، آپ جیسے انگنت کرداروں کا معاشی، جنسی جسمانی استحصال، ایسا لگتا ہے جیسے اب کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ دھڑلے سے قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اور یہ پوری دنیا کا منظر نامہ ہے۔ کسی ایک ملک، ایک ریاست، ایک شہر، ایک گاؤں، ایک قصبے، ایک محلے، یا پھر ایک گھر کا قصہ نہیں۔ 
  کشمکش ذہنی کھینچا تانی سے جوجھتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’دیکھیے نا انقلاب صاحب یوں لگتا ہے زندگی کے ہر شعبے میں حقیقی لیڈرشپ کا کال پڑا ہوا ہے۔ عالمی قانون کے مطابق آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے تفریح اور آٹھ گھنٹے آرام کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ مگر مشاہدہ کیجیے دنیا کے کون سے علاقے میں ان قوانین پر سو فیصد عمل کیا جا رہا ہے۔ مقرر کردہ وقت سے زیادہ محنت مشقت کروانا اور مقرر کردہ اجرت سے کم تنخواہ دینا، دستور، رواج اور فیشن تصور کر لیا گیا ہے۔ 
  انقلاب کے چہرے پر جوش و خروش کے تاثرات ابھرتے ہیں۔ کشمکش جی آپ جیسے کرداروں کو اپنی لڑائی آپ لڑنی پڑے گی۔ چوراہوں پر آنا پڑے گا۔ مہنگائی اور لاقانونیت کے خلاف آواز اٹھانی پڑے گی۔ آپ جیسے کرداروں کے لئے ۵؍ مئی۱۸۱۸ء کو جرمنی کے شہر ٹرائر میں جنم لینے والے ’کارل مارکس فلاسفر اور نظریہ ساز شخصیت نے اہم سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ اسی توسط سے دنیا کے کئی ممالک میں کارل مارکس کی تھیوری نافذ العمل ہے۔ کیونکہ کارل مارکس کا نظریہ بالکل صاف ہے۔ مزدور اور مالکان کے درمیان کا فاصلہ اس وقت تک قائم رہے گا جس وقت تک غیر منصفانہ رویہ ختم نہ ہوگا۔ بغاوت جنم لیں گی۔ یہ نظام مسمار ہوگا۔ اور اس کی قیادت روشن خیال لوگ کریں گے۔ 
  کشمکش جذباتی ہو کر بولتی ہے۔ لیکن انقلاب صاحب بغاوت کے لیے ایکتا اور یکجہتی کہاں سے لائیں گے مزدور۔ کارل مارکس کے نظریات کو روس میں تو کافی پذیرائی ملی۔ ان کا قول ہے، جمہوریت سوشلزم کا راستہ ہے۔ انقلاب نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ڈیس کیپیٹل اور دا کمیونسٹ مینی فیسٹو نامی ان کی مشہور کتابیں ہیں اور ۱۴؍ مارچ۱۸۳۸ء کو انہوں نے لندن میں وفات پائی تھی۔ 
 کشمکش نے کہاکہ کارل مارکس نے اچھا کام کیا ہے لیکن کچھ ناقدین کی مانیں تو آج بھی پورے طور پر کال مارکس کی تھیوری کامیاب نہیں ہے۔ ورنہ ہم جیسے کرداروں کا اتنا برا حال ہرگز نہیں ہوتا۔ 
 انقلاب نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ کشمکش انسان اپنی سوچ کے مطابق اپنی زندگی سنوارتا اور بگاڑتا ہے۔ آج یعنی اکیسویں صدی میں جو
 بین الاقوامی صورتحال کو سمجھے گا وہ سماجی انقلاب کا حصہ بنے گا۔ اب میں سمجھتا ہوں مجھے اجازت لینی چاہیے تاکہ آپ تبادلۂ خیال کی روشنی میں کسی اطمینان بخش فیصلے پر پہنچتے ہوئے نیند کی پناہ بھی حاصل کرنے کی کوشش کر سکو۔ اب مجھے اجازت دیجیے۔ 
  کہتے ہوئے انقلاب اٹھ کر جھونپڑی کے دروازے سے باہر نکل جاتا ہے۔ جھونپڑی کے دروازے پر کشمکش مسکراتے ہوئے انقلاب کو
 الوداع کہتی ہے۔ مڑ کر واپس جھونپڑی میں اپنے بستر پر آجاتی ہے۔ تب اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کی رگ رگ میں عجیب سا کہرام مچا ہوا ہے۔ خیالات میں مختلف ادوار کے جیتے جاگتے منظر نامے تیز رفتاری سے گزر رہے ہیں اور کشمکش کے چہرے پر ان منظر ناموں کے مختلف رنگ تاثراتی تحریک بن کر جھلک رہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK