Inquilab Logo

عروج و زوال : اللہ کی سنت (سورۃ الفجر کی روشنی میں)

Updated: September 30, 2022, 3:36 PM IST | Abdul Rahman Al Kaaf | Mumbai

سورۃ الفجر میں، فجر اور بھیگتی ہوئی رات اور طاق اور جفت عددوں کی، جن کا اطلاق ہر قابل شمار چیزپر ہوسکتا ہے، قسم کھا کر اللہ تعالیٰ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ہی شب و روز کے تغیر و تبدل سے زمانہ بنتا ہے جس کو انسان تاریخ کا نام دیتا ہے۔

 Surah Al-Fajr .Picture:INN
سورۃ الفجر ۔ تصویر:آئی این این

اللہ تعالیٰ نے ، اس دُنیا میں، قوموں کے عروج و زوال اور ترقی و تنزل کے چند اٹوٹ قوانین بنائے ہیں جن کو سُنَّۃُ وَسُنَنُ اللّٰہِ فِی خَلْقِہٖ (اپنی خلقت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت/سنتیں) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی سے کوئی رشتے داری نہیں ہے، نہ کوئی اس کا مائی باپ ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی، بیٹا یا بیٹی ہے، اس لئے یہ قوانین عروج و زوال اور سنتیں سرِمو بدلے بغیر حرکت پزیر ہیں۔ جو کوئی فرد، خاندان، معاشرہ یا قوم اس کی زد میں آ جائے، وہ خمیازہ بھگت کر ہی رہتا ہے۔ اسی لئے فرمایا: ’’اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا۔‘‘  (یوسف :۱۱۰) سورۃ الفجر میں، فجر اور بھیگتی ہوئی رات اور طاق اور جفت عددوں کی، جن کا اطلاق ہر قابل شمار چیزپر ہوسکتا ہے، قسم کھا کر اللہ تعالیٰ زمانے کے بدلتے ہوئے رنگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ ان ہی شب و روز کے تغیر و تبدل سے زمانہ بنتا ہے جس کو انسان تاریخ کا نام دیتا ہے۔ یہ تاریخ انسانی بہت سی عبرت ناک داستانوں سے اَٹی پڑی ہے، اگر کوئی ان پر عبرت کی نگاہ سے غوروفکر کرے! اس لئے ان قسموں کے بعد یہ سوال فرمایا:  ’’کیااس میں کسی صاحب عقل کیلئے کوئی قسم ہے؟‘‘ (الفجر :۵)  یعنی کیا اس میں عقل مند کے لئے سامان عبرت نہیں پایا جاتا ہے؟یہ سوال ایک عام قسم کا سوال تھا جس سے ذہن و نگاہ کہیں بھی منتقل ہو سکتے تھے۔ اس وجہ سے فوراً یہ سوال فرمایا:’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے (قومِ) عاد کے ساتھ کیسا (سلوک) کیا؟، (جو اہلِ) اِرم تھے (اور) بڑے بڑے ستونوں (کی طرح دراز قد اور اونچے محلات) والے تھے، جن کا مثل (دنیا کے) ملکوں میں (کوئی بھی) پیدا نہیں کیا گیا، اور ثمود (کے ساتھ کیا سلوک ہوا) جنہوں نے وادئ (قری) میں چٹانوں کو کاٹ (کر پتھروں سے سینکڑوں شہروں کو تعمیر کر) ڈالا تھا، اور فرعون (کا کیا حشر ہوا) جو بڑے لشکروں والا (یا لوگوں کو میخوں سے سزا دینے والا) تھا، (یہ) وہ لوگ (تھے) جنہوں نے (اپنے اپنے) ملکوں میں سرکشی کی تھی، پھر ان میں بڑی فساد انگیزی کی تھی۔‘‘ (الفجر:۶-۱۲)
یہاں تین قوموں کی بڑی بڑی خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے۔ عاد _… قومِ ہود علیہ السلام…کے بارے میں یہ بتایا کہ ان کا اُونچے اُونچے ستونوں والا شہر لق و دق صحرا کے درمیان واقع تھا اور وہ ہر لحاظ سے اور ہر نقطۂ نظر سے اپنی نظیر آپ تھا۔ کیونکہ اس جیسا شہر نگاہِ فلک نے، اس وقت تک، دیکھا ہی نہیں تھا۔ اب رہی قومِ ثمود تو انہوں نے شمالی جزیرۃ العرب کے مدائن صالح کے علاقے میں، پہاڑوں کو موم بنا دیا تھا۔ وہ پہاڑوں میں بڑے بڑے خوب صورت محلات، بازار اور گھر تراشا کرتے تھے اور وہ بھی پوری مہارت کے ساتھ۔ جہاں تک قوم فرعون کا تعلق ہے اس کی اہم نشانی اس کی فوجی قوت تھی جس کو صحرا میں فوجی چھائونی کی شکل میں آباد کرنے اور ٹھیرانے کے لئے لاتعداد کھونٹیوں کی ضرورت پڑا کرتی تھی جن کے ذریعے خیموں کو نصب کیا جاتا تھا۔
غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان تینوں قوموں میں مادی قوت بےپناہ پائی جاتی تھی۔ پہلی دو قومیں  لق و دق صحرا اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں اپنے شہربسا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی تھیں تو تیسری قوم کو اپنی فوجی برتری پر ناز تھا جس کے ذریعے وہ دوسری قوموں کو مرعوب کر سکتی تھی۔اس مادی برتری اور قوت و طاقت نے ان تینوں کو غرور میں مبتلا کر دیا اور وہ یہ کہنے لگے:  مَنْ اَشَدُّ مِنَّا  قُوَّۃً (کون قوت و طاقت میں ہمارا ہم پلہ ہے؟) اس غرور اور تکبر نے ان کو حد سے زیادہ ظلم و ستم پر اُبھارا اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی سرزمین پر فتنہ و فساد اس حد تک برپا کر دیا کہ زمین فتنہ و فساد سے بھر گئی۔ کمزور قوموں، جماعتوں اور افراد کا زندہ رہنا ناممکن ہو گیا۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا۔یہ فتنہ اور فساد زندگی کے سارے ہی میدانوں میں برپا ہو گیا تھا۔ عقائد میں وہ توحید کے دشمن اور شرک کے پرستار تھے۔ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اور نہ صرف ان کی دعوتِ توحید کا سختی سے انکار کرتے بلکہ ان کی ذاتِ بابرکت سے اس قدر نفرت کرتے کہ ان کی ہر دھمکی کے جواب میں چیلنج بن کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔
توحید سے نفرت نے انہیں اُس خطرناک ظلم میں مبتلا کیا جس کا نام شرک ہے اور جو بجائے خود ہر قسم کے ظلم کی جڑ ہے۔ پہلے توانہوں نے اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر یہ ظلم کیا کہ اس کو مختلف مخلوقات میں تقسیم کرکے ان کو درجۂ مخلوقات سے بڑھا کر الوہیت، ربوبیت، خالقیت، رزاقیت وغیرہ کے ان درجات تک پہنچایا جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں اور ان میں اس ذاتِ بابرکات کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ہے۔ یہ دہرا ظلم یوں ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے بے مثال، بے عیب اور اُونچے درجے سے اُتار کر اسی کی مخلوقات کو مختلف اُونچے درجات پر فائز کر دیا جس کے وہ مخلوق ہونے کے ناطے ہرگز مستحق نہیں تھے۔ اس بندر بانٹ اور ناانصافی نے ان کے معاشروں میں، انسان کی شکل میں، لاتعداد دیوتا کھڑے کر دیئے۔ مندروں اور معبدوں کے دیوتا پجاری، زمین کے دیوتا زمین دار، کارخانوں اور صنعتوں کے دیوتا صنعت کار اور کارخانہ دار، تجارت کے دیوتا تاجر، فوجوں کے دیوتا فوجی جرنیل اور ان سب پر حکمران دیوتا ملک کا حاکم وقت جو بعض وقت الوہیت اور ربوبیت کے دعوے کرنے سے بھی نہیں جھجکتا تھا جیسا کہ فرعون کا حال تھا جس نے اعلان کیا:’’میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ (النازعات :۲۴) اور کہا:’’ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو ضرور (گرفتار کر کے) قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔‘‘ (الشعراء:۲۹)  ایک دوسرے مقام پر آتا ہے:’’اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جانتا۔ ‘‘(القصص :۳۸)  اس طرح عقیدے میں شرک نے ان کے معاشروں میں لاتعداد چھوٹے بڑے الٰہ اور ارباب پیدا کردیئے تھے جو عام لوگوں پر بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے اور ان کو اپنی خواہشوں کی چکیوں میں پوری بے دردی اور بے رحمی سے پیسا کرتے تھے۔ اس پر بھی ان کی خواہشات کی تسکین نہیں ہوتی تھی تو وہ پڑوسی قوموں پر چڑھ دوڑتے، ان کو زیر کرتے، ان کو اور ان کے ملک کو اپنا معیارِ زندگی اُونچا کرنے اور اُونچا رکھنے کی خاطر اور اپنی قوم و ملک کو  دنیا کے درجۂ اوّل کا ملک بنانے اور بنائے رکھنے کے لئے دوسری کمزور قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑتے ۔ وہ ان کو محض اس لئے فقر وفاقہ اور پریشانی اور مصائب کا شکار کرتے کہ وہ سب سے زیادہ فوجی، مالی، اقتصادی اور اجتماعی قوت کے مالک بنے رہیں۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بت پرستی کے شرک کے ساتھ مال، اولاد اور علم کی کثرت سے پیدا ہونے والے شرک کا بھی ذکر کر دیا جائے۔ یہ بھی اتنا ہی شرک ہے جتنا کہ بت پرستی کا شرک ہے اور اس کے نتائج اور عواقب بھی اتنے ہی خطرناک ہیں جتنے کہ بت پرستانہ شرک کے نتائج اور عواقب خطرناک ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK