رواں سال اکتوبر میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے لوگوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔
EPAPER
Updated: December 26, 2024, 3:00 PM IST | Mumbai
رواں سال اکتوبر میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے لوگوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔
رواں سال اکتوبر میں آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ چندرا بابو نائیڈو اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ نے لوگوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ اس وقت میڈیا نے دونوں وزرائے اعلیٰ پر خوب تنقیدیں کی تھیں اور آبادی کے نقصانات گنوائے تھے لیکن اب آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہندو جوڑوں سے تین بچے پیدا کرنے کی اپیل کی ہے۔اس سے قبل کئی ہندوتوا وادی لیڈروں نے بھی مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کا ہوا کھڑے کرتے ہوئے پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔آیئے دیکھتے ہیںبھاگوت کے بیان پردیگر زبانوں کے اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔
موہن بھاگوت آخر چاہتے کیا ہیں؟
مراٹھی اخبار ’لوک مت‘ اپنے ۳؍ دسمبر کے اداریےمیں لکھتا ہے کہ ’’ہندوستان میں ۲ء۱؍ فیصد کی شرح تولید کو خطرے کی علامت قرار دیتے ہوئےآر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ اس شرح کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔کم از کم تین بچوں پر موہن بھاگوت کے اصرار نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہےجبکہ مرکزی حکومت آبادی پر قابو پانے کیلئے مختلف تدابیر اختیار کررہی ہے۔ایسے میں حکومت سے نظریاتی تعلق رکھنے والے سنگھ کے سربراہ کا تین بچے پیدا کرنے کا اصرار یقیناً ایک تضاد سمجھا جائے گا۔بھاگوت کے بیان کے بعد حکمراں جماعت کے ترجمانوں کی جانب سے ٹی وی چینلوں کے مباحثے میں اس تضاد کو چھپانے پر جو ہنگامہ ہوا وہ کسی تفریح سے کم نہیں تھا۔چینلز اس بیان پر بحث کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ دونوں فریق حق پر ہیں۔حکومت آبادی پر قابو پانا چاہتی ہے جبکہ سنگھ پریوار کے لیڈروں کو آبادی کی شرح پیدائش میں اضافہ مقصود ہے۔یہاں یہ تفصیل اہم ہے کہ کس کی آبادی میں اضافے کو روکنا ہے اور کس کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔اگرچہ کوئی بھی اس بارے میں کھل کر بات نہیں کرتا،لیکن سب جانتے ہیں۔دراصل حکومت اور سنگھ جیسی تنظیمیں بھی یہی بحث چاہتی ہیں۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے اعداد وشمار کے مطابق ملک کی اوسط آبادی کی شرح تولید۲ء۱؍ ہے لیکن اکثریتی آبادی کا تناسب کم ہے اور اقلیتوں کا اوسط تناسب کچھ زیادہ ہے۔ آبادی میں اضافے یا کمی کے پیچھے سائنسی، سماجی اور مذہبی وجوہات ہیں۔ناخواندگی اور غربت جیسی سماجی وجوہات کی وجہ سے غریب طبقہ بچے کو خدا کا تحفہ سمجھتے ہیں۔کچھ مذاہب مانع حمل ادویات کے استعمال کی ممانعت کرتے ہیں۔ بہرحال موہن بھاگوت کا آبادی سے متعلق دیئے گئے بیان کا کوئی نہ کوئی عالمی تناظر ضرور ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں شرح پیدائش کم ہورہی ہیں۔ کروشیا، جارجیا، بلغاریہ، پولینڈ، یونان کے ساتھ ساتھ اس میں جاپان اور جنوبی کوریا جیسے اقتصادی سپر پاور بھی شامل ہیں۔تازہ ترین اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ جنوبی کوریا کی شرح تولید اس وقت محض اعشاریہ ۷۸؍ فیصد ہے۔یعنی ۱۰۰؍ جوڑوں میں سے صرف۷۸؍ بچے پیدا ہورہے ہیں۔ نتیجے کے طور پر کوریا کی آبادی تیزی سے کم ہورہی ہے۔اسلئے موجودہ صدی کے آخر تک جنوبی کوریا کی آبادی موجودہ آبادی کی ایک تہائی پر پہنچ جائے گی اور اس بات کا خطرہ بھی ہے کہ یہ پہلا ملک ہوگا جو مٹ جائے گا۔
اکثریتی طبقہ ایسے کسی بیان کا نوٹس نہیں لیتا۔
مراٹھی اخبار’آپلے مہانگر‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ ’’آر ایس ایس اور اس سے منسلک ہندوتواوادی تنظیمیں ہمیشہ ملک میں ہندوؤں کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں۔اس تشویش کا اظہار اکثر وبیشتر مختلف موقعوں پر ان کے دیئے گئے بیانات سے ہوتا ہے۔وشو ہندو پریشد کے سابق صدر اشوک سنگھل نے ہندوؤں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کی تھی جس کے بعد دوسرے ہندوتوا لیڈروں نے بھی اس کی وکالت کی تھی اور اب آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا ہےکہ لوگوں کے کم از کم تین بچے ہونا چاہئیںلیکن ابھی تک ہندوؤں نے ایسی کسی اپیل کا زیادہ نوٹس نہیں لیا ہے کیونکہ بچے پیدا کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا بازار سے کچھ چیزیں خریدنا۔ بچوں کی صحیح طریقے سے پرورش کرنا،انہیں اچھی تعلیم دینا بہت ضروری ہے تاکہ وہ مستقبل میں اچھے شہری بن سکیں۔اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ غلط راستہ اور سماج مخالف سرگرمیوں کا حصہ بن سکتے ہیںلہٰذا حالیہ دنوں میں لوگ کم بچے پیدا کرنے اور انہیں بہتر تعلیم دینے کا رجحان رکھتے ہیں۔آج ہمارے ملک میں پکڑے جانے والے زیادہ تر سماج دشمن عناصر ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ پیدا ہونے والے بچوں کو مناسب تعلیم نہیں مل پا رہی ہیں۔موہن بھاگوت کا کہنا ہے کہ ملک میں ہندوؤں کی آبادی گھٹتی جا رہی ہے دوسری طرف مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کا مذہب انہیں خاندانی منصوبہ بندی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بہت سارے ہندوتوا لیڈروں نے خوف جتایا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو ہمارا کیا ہو گا؟اس طرح کے اندیشوں کا اظہار کرتے ہوئے سرسنگھ چالک نے بالواسطہ طور پر ہندوؤں سے آبادی بڑھانے کی اپیل کی ہے۔آبادی میں اضافہ واقعی ایک بہت بڑا عالمی پیچیدہ مسئلہ ہے۔آبادی کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ مستقبل میں دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کا پیٹ بھرنا زمین کیلئے مشکل ہوجائے گا۔خدشہ ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی پر لڑی جائے گی کیونکہ پوری دنیا میں پانی کی زبردست قلت ہوجائے گی اورلوگوں کو پانی مہیا کرنا دشوار ہوجائے گا۔
اسرائیلی حملوں کا اثر، بیت لحم میں کرسمس کی روایتی دھوم ندارد
بھاگوت کا بیان کسی بھی طرح قابل قبول نہیں
ہندی اخبار’ دو بجے دوپہر‘ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ ` ملک کی مختلف جماعتوں کے سیاستداں اور مذہبی لیڈران اپنے فوری مفادات کی تکمیل کیلئے اپنے ٹارگٹ گروپس کی آبادی بڑھانے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ تباہ حال شہری خدمات اور محدود وسائل ہونے کے باوجود آبادی میں اضافے کا مطالبہ کرنا قطعی منطقی نہیں ہےلیکن اس باوجود مذہبی اور فرقہ وارانہ گروہوں کے لیڈران آبادی بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس متنازع معاملے کی حالیہ بحث ایک بار پھر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے تبصروں کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح کم ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جس معاشرے کی شرح افزائش۲ء۱؍ سے نیچے ہے، ان کو ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اکثریتی طبقے کو ہم دو ہمارے دو میں ایک بچے کا اضافہ کرنا ہوگایعنی ہر جوڑے کو تین بچے پیدا کرنے ہوں گے۔قابل ذکر ہے کہ راجستھان اسمبلی انتخابات کے دوران ایک انتخابی ریلی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک مخصوص برادری کی آبادی سے متعلق تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس بات پر تشویش ظاہر کی تھی کہ زیادہ آبادی والا طبقہ آبادی کے توازن کو بگاڑ رہا ہے۔ دوسری جانب اس متنازع تقریر کے چند ہفتے بعد وزیراعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار میں تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ۱۹۵۰ء سے۲۰۱۵ء کے درمیان اکثریتی برادری کی آبادی میں ۷ء۸۲؍فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ ملک کی اقلیتی برادری کی آبادی میں۴۳؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔دراصل انہی اعداد وشمار کے ذریعہ مستقبل میں اکثریتی طبقہ کے سامنے آنے والے چیلنجز کو پیش کیا گیا ہے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے لیڈران اپنی اپنی سہولت کے مطابق آبادی کی پالیسی کے حوالے سے جو دلائل دے رہے ہیں، انہیں ماہرین معاشیات کے ہدف آبادی کے تصوراتی ویژن کے پیش نظر متضاد ہی کہا جاسکتا ہے۔