قربانی محض رسم نہیں، اس کی تاریخ بالخصوص واقعہ ٔ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کیجئے اور اس بنیاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے قربانی کیجئے تو اس کی معنویت بڑھ جاتی ہے
EPAPER
Updated: June 17, 2024, 12:37 AM IST | Mumbai
قربانی محض رسم نہیں، اس کی تاریخ بالخصوص واقعہ ٔ ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کیجئے اور اس بنیاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے قربانی کیجئے تو اس کی معنویت بڑھ جاتی ہے
قربانی ایک مختصر لفظ ہے لیکن انسانی زندگی میں اس کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ اس کی ضرورت انسان کو اپنی زندگی کے مختلف مقامات پر اور مختلف انداز میں پڑتی ہے۔ ساتھ ہی ہر قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ انسان جو اپنی زندگی میں مختلف مسائل میں الجھا ہوتاہے، اسے قدم قدم پر قربانی دینی پڑتی ہے اوراس کے پیچھے اس کا کوئی نہ کوئی مقصدچھپا ہوتا ہے اور مقصد جتنا عظیم ہوتا ہے قربانی بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہے۔ مثلاً انسانی زندگی کا مقصد اطاعت الٰہی ہے جو تقرب الٰہی اور کیفیت تقوی کے بغیرممکن نہیں اور یہ تقرب الٰہی،کیفیت تقویٰ کے بغیرحاصل نہیں ہوتی لہٰذا اطاعت کیلئے قربانی ضروری ہے۔ کلام پاک میں فرمایا گیا ہے (ترجمہ) کہ ’’نہ ان (قربانی کے جانوروں) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ ہی خون۔ مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج:۳۷)
اس آیت کریمہ سے یہ واضح ہے کہ اللہ کو مقصودان جانوروںکا خون یا ان کاگوشت نہیں ہے بلکہ وہ اپنے بندوںکا تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ خدا پر کس قدر یقین رکھتے ہیں؟ اس کے احکام کی کس قدر پابندی کرتے ہیں اور کس طرح وقت ِ ضرورت قربانی پیش کرنے کو تیار رہتے ہیں؟ تقویٰ کی صفت اللہ کو بے حد محبوب ہے، اسی صفت سے انسان نیک اعمال کو ترجیح دے کر انہیں اختیار کرتا ہے۔ اگرکوئی شخص کسی عمل کو تقویٰ کی صفت کے ساتھ انجام دیتا ہے تو وہ خالص اللہ کیلئے ہوتا ہے۔ اس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کو ہی روزے جیسی اہم ترین عبادت کا مقصد قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ترجمہ: ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں (قربانی) قبول کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ مائدہ:۲۷)
عیدالاضحی کا مقصد بھی جذبۂ قربانی کو بیدار کرنا اور اپنی عزیز سے عزیز تر چیز کو حکم ربانی کے مطابق قربان یا وقف کرنا ہے۔ رضاء الٰہی کے حصول میں قربان کرنے کا حوصلہ پیداکرنا ہی قربانی ہے۔ اس سے ان کو یہ سبق ملتا ہے کہ انسان زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی خواہشات پر رب کائنات کی مرضیات کو ترجیح دے۔ یہ دراصل انسان کی عملی زندگی کا ایک امتحان ہے، جس سے اس کے اندر نکھار اورحسن پیدا ہوتا ہے۔ عربی کے ایک مقولہ کا مفہوم ہے کہ جوشخص جس قدر آزمائش سے دوچارہوگا اور اس میں وہ خداکے احکام کو ترجیح دے گا وہ شخص اسی قدر اللہ کا محبوب اوراس کا عزیز تربندہ ہوگا۔ قربانی خداکے تقرب کا ذریعہ ہے جو قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے۔ قرآن کہتاہے، ترجمہ:’’ہرامت کیلئے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کردیا ہے تاکہ (اس امت کے) لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔‘‘ (سورۃ الحج:۳۴)
اسے سنت ابراہیمی سے بھی تعبیرکیاجاتاہے۔ صحابہ ؓ نے نبیؐ سے پوچھا، یا رسول اللہ ؐ! یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘ (ترمذی،ابن ماجہ)
قربانی کے مفہوم کو ہم حضرت ابراہیم ؑ کی بے مثال اور قابل رشک زندگی سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک شخص کو جس سے جتنی محبت اور لگاؤ ہوتا ہے، وہ اسی طرح اپنے محبوب کا امتحان بھی لیتاہے۔اس کرہ ٔارضی پر رونما ہونے والے تاریخی واقعات پر ہم نگاہ ڈالیں تو ہمیں بے شمار عاشقوں کے عشق کی رنگینیاں، دلفریباں اور جلوہ سامانیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ عقیدت و محبت اور الفت و مودت کی انگنت کہانیاں سننے کو ملتی ہیں اور عشق کے جنون میں ڈوبے تخت و تاج اور مال و اسباب لٹا دینے والے پتھروں، چٹانوں سے دودھ کی نہریں جاری کرنے میں اپنی تمام ترجدوجہد صرف کردینے والے عشق کے شہنشاہوں کی ہزاروں داستانیں تاریخ میں ملتی ہیں مگرفدائیت و للہیت، استقامت وثبات قدمی، ابتلا و آزمائش سے لبریز، دل سوز، سبق آموز اور ناقابل فراموش داستان جو خلیل اللہ کی ہے اور جو ایثاروقربانی، اطاعت ربانی اور مشیت خداوندی کی تعمیل کے جذبہ کی کارفرمائی، اس عاشق الٰہی میں ملتی ہے، دیگر عشاق کائنات اس سے بالکل خالی وعاری ہیں۔
اس عاشق نے اپنے محبوب کی تلاش میں حسین کائنات اورا س کی اور گل ا فشانیوں کو چھان مارا ۔ اس تلاش و جستجو میں اچانک اس کی نگاہ ایک تاریک شب کی سیاہ چادرمیں لپٹے ہوئے، ایک ستارے پرپڑی تو فرحت و انبساط سے اس کا حسین چہرہ کھل اٹھا۔ اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس کی زبان پر ’’ہذاربی‘‘ کے کلمات آگئے۔ مگرجوں ہی ستارہ اس کی نگاہ سے اوجھل ہوا فوراً اس کی زبان حرکت میں آئی اور صاف طور پر اس نے ’’لااحب الافلین‘‘ کہہ کر بے زاری کا اظہار کیا، اس کے بعد اس نے روشن چاند دیکھا تو ’’ ہذاربی ‘‘ (یہ میرارب ہے) کہہ کرپکاراٹھا، لیکن جب وہ بادلوں کی اوٹ میں چلا گیا تو اس نے اس کو بھی خدا ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد جیسے ہی روشن صبح نے انگڑائی لیتے ہوئے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی تو ایک چمکتا دمکتا آفتاب اپنی تابناکی کے ساتھ رونما ہوا، اس کے اس انداز اور بڑے پن کو دیکھ کر وہ ان الفاظ میںگویاہوئے’’ہذاربی ہذا اکبر‘‘۔ یہ میرا رب ہے ، یہ بہت بڑا ہے۔ مگریہ کیا سورج بھی غروب ہوگیا۔ یہ دیکھا تو اس نے اس سے بھی بے زاری ظاہر کردی اور اعلان کردیا کہ یہ میرا رب نہیں ہوسکتا۔
بالآخر اس عاشق نے اپنے خالق و مالک کو ڈھونڈ لیا اور کہا کہ میرا رب تو وہ ہے جس نے سورج، چاند، ستارے اور کائنات کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے اور دنیا کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ جب اس نے اپنے موحد ہونے (خدا کو ایک ماننے والا) کا اعلان کیا تو سارے لوگ اس کے خلاف ہوگئے۔ اب اللہ کی طرف سے آزمائشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر جگہ آپ اپنی قربانی پیش کرتے چلے گئے چنانچہ بت پرست گھرانے کا ہوتے ہوئے، بت شکن ہونے کے سبب انہیں بادشاہ وقت نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالا گیا۔ مگر ہوا یہ کہ جو آگ شعلہ اگل رہی تھی وہ آپ کیلئے گلشن رحمت بن گئی، پھر اللہ نے بڑھاپے کی عمر میں آپ کو ایک نیک اور بردبار اولاد عطا کی لیکن پھر اس کے معاملہ میں بھی آزمائش کی۔ اسے اولاً توغیرذی ذرع وادی میں چھوڑ دینے کا حکم ہوا۔ جب اس آزمائش میں بھی آپ کامیاب ہوگئے اور یہ لڑکا جب دوڑنے کھیلنے کی عمر کو پہنچا تو اس کو بھی راہ خدا میں قربان کرنے کا حکم ہوا۔ قرآن کریم نے کچھ اس انداز سے اس کا نقشہ کھینچا ہے، ترجمہ: ’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمرکو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا کہ بیٹا مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب توبتا تیرا کیاخیال ہے؟، اس نے کہا ’’ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کرڈالیے۔ آپ ان شاء اللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔‘‘ (سورۂ الصافات:۱۰۲)
آپ ؑاپنے جذبات و خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اس عظیم قربانی کی انجام دہی کیلئے بھی تیارہوگئے۔ بچے کو ذبح کرنے کیلئے لٹایا اور گردن پر چھری پھیرنے کیلئے کمربستہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب بندے کی اطاعت کا یہ جذبہ بے حد پسند آیا۔ اس نے فرمایا، ترجمہ:
’’آخر کو جب ان دونوں نے سرتسلیم خم کردیا اور ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا، اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم، تو نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی۔‘‘ (سورۃ الصافات:۱۰۳۔۱۰۶)
مگر اللہ کا مقصد تو اس جذبۂ اطاعت کو دیکھنا تھا۔ بچے کی قربانی مقصود نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیہ میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا۔ اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کیلئے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیم پر، ہم نیکی کرنے والوں کوایسی ہی جزا دیتے ہیں۔‘‘ سورۃ الصافات:۱۰۷۔۱۱۰)
اگر غور کیا جائے تو اللہ کی طرف سے آج بھی مختلف مواقع پر قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے۔ مگرانسان اسے نظرانداز کر دیتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ ایسی ہی قربانی سے ہمارے نبی حضرت ابرہیم کو خلیل اللہ کا خطاب ملا تھا۔ جب تک قرآن کی تلاوت کی جاتی رہے گی تب تک لوگ ان پر سلام بھیجتے رہیں گے اور جب بھی عیدالاضحی کا تاریخی دن آئے گا لوگ ان کی تاریخ کو دُہرائیںگے۔اس لیے جو لوگ اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اپنی زندگی کا مقصد جانتے ہیں، وہ اطاعت الٰہی کیلئے تقرب الٰہی کی راہ اپنائیں اور اس راہ میں قربانی دینے پر تیار رہیں کیوںکہ آج بھی:
آگ ہے، اولادِ ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھرکسی کا امتحان مقصود ہےn