• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ساکشی کے آنسو

Updated: December 23, 2023, 1:31 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ساکشی ملک نے اب کبھی ریسلنگ کے مقابلوں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فیصلہ ہی نہیں کیا، پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے اعلان بھی کردیا ہے۔پریس کانفرنس کے دوران وہ رو پڑیں ۔

Sakshi Malik. Photo: INN
ساکشی ملک ۔تصویر: آئی این این

ساکشی ملک نے اب کبھی ریسلنگ کے مقابلوں  میں  حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ فیصلہ ہی نہیں  کیا، پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے اعلان بھی کردیا ہے۔پریس کانفرنس کے دوران وہ رو پڑیں ۔ممکن ہے کچھ بدزبان قسم کے لوگ اسے ڈھونگ کہیں ، ڈراما کہیں  اور اُن کے آنسوؤں  کو مگر مچھ کے آنسو قرار دیں ، جیساکہ اُن کے احتجاج کے دوران الزامات عائد کئے گئے تھے، مگر ہر وہ شخص جو حساس دل رکھتا ہے، جو دردمند ہے اور جو حقیقی آنسو اور دکھاوے کے آنسو میں  فرق کرسکتا ہے، اِس خاتون پہلوان کے ایک ایک آنسو کی قیمت جانتا ہے۔ ساکشی اور اُس کے ساتھیوں  نے ریسلنگ فیڈریشن کے اُس وقت کے صدر برج بھوشن شرن سنگھ پر الزام عائد کیا تھا کہ اُنہوں  نے اُن کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ برج بھوشن کو برخاست کیا جائے۔ نہیں  کیا گیا۔ صاف نظر آیا کہ اِس شخص کو بچایا جارہا تھا۔ بچا بھی لیا گیا۔ اُسے کافی عرصہ تک تو ریسلنگ فیڈریشن کی صدارت سے ہٹایا نہیں  گیا اور رُکن پارلیمان تو وہ اب بھی ہے۔کہنے کی ضرورت نہیں  کہ اِس وقت ملک کے ایک سو چالیس کروڑ عوام ایسے سیاسی ماحول میں  جی رہے ہیں  جس میں  راہل گاندھی کی پارلیمانی رُکنیت منسوخ کردی جاتی ہے، مہوا موئترا کی سنی نہیں  جاتی اور پھر اُن کی رُکنیت بھی ختم کردی جاتی ہے مگر دانش علی کو گالیاں  دینے والے ساتھی رکن پارلیمان کی سرزنش ہوتی ہے نہ ہی معطلی، اسی طرح لکھیم پور تشددواقعہ کی بنیاد پر اجے مشرا ٹینی کو وزارت سے ہٹایا نہیں  جاتا۔یہ ماحول ملک کے مفاد میں  ہرگز نہیں  ہے۔ 
 یاد رہنا چاہئے کہ برج بھوشن پر جو الزامات تھے وہ نہایت سنگین قسم کے تھے۔ اُنہیں  معطل کرکے انکوائری جیسی انکوائری لازمی تھی۔ ایک بچی (جس کے والدین کو شاید سمجھا بجھا لیا گیا تھا) نابالغ تھی اس لئے ’’پوسکو‘‘جیسے سخت قانون کا اطلاق بھی لازم تھا مگر برج بھوشن کا کچھ نہیں  ہوا۔ اب ایک ایسے شخص کو کشتی فیڈریشن کی صدارت ملی ہے جو برج بھوشن ہی کا دست راست بتایا جاتا ہے۔ اسی لئے خاتون پہلوانوں  کو خوف ہے کہ حالات جو ں  کے توں  رہیں  گے اور خدانخواستہ اُن کا استحصال جاری رہے گا۔ ایک طرف ان لڑکیوں  کا خوف ہے تو دوسری طرف برج بھوشن ہے جو خود کو فاتح سمجھ رہا ہے۔ اُس کے خیال میں  اُسنے اپنا ’’دبدبہ‘‘ ثابت کردیا ہے۔ بلاشبہ یہ نام نہاد دبدبہ ثابت ہوا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ایک اور بات ثابت ہوگئی کہ ہمارے ملک میں  خواتین کے احترام اور اُن کے تحفظ کے نعرے تو لگائے جاتے ہیں ، دعوے بھی کئے جاتے ہیں  مگر اُن کی سنی نہیں  جاتی۔ اگر سنی جاتی تو ساکشی کو اعتماد میں  لیا جاتا، اُسے منالیا جاتا اور اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور کیا جاتا۔ اسی کے ساتھ برج بھوشن کے خلاف ہر ممکن کارروائی کی جاتی تاکہ ملک بھر میں  یہ پیغام عام ہو کہ خواتین پر ظلم و زیادتی کرنے والوں  کو بخشا نہیں  جائیگا خواہ وہ کوئی ہو، کتنا ہی با اثر ہو۔
 یہ ایسا معاملہ تھا کہ جس میں  جتنی سختی برتی جاتی، عوام کو دیا جانے والا پیغام اُتنا ہی واضح ہوتا۔ اس سے خواتین کا اعتماد بحال ہوتا۔ اُن میں  یہ احساس پختہ ہوتا کہ قانون بھی ہمارے ساتھ ہے اور نفاذ قانون کے ذمہ داران بھی۔ دبدبہ کسی فرد کا نہیں ، قانون کا ہونا چاہئے۔ چونکہ قانون کا دبدبہ نہیں  ہے اس لئے افراد کا دبدبہ خود کو منوا رہا ہے۔ افراد کے دبدبہ ہی کی وجہ سے ساکشی کے آنسو نکلے!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK