موجودہ دور کی سیاست یہ نہیں بتاتی کہ پٹیل نے ہندوؤں سے کہا تھا کہ ’’یہ ہمارا فرض ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں سوچیں اور محسوس کریں کہ اُن کی جگہ ہم ہوتے تو ہم اُن سے کیسے طرز عمل کی اُمید کرتے۔‘‘
EPAPER
Updated: December 04, 2022, 11:22 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
موجودہ دور کی سیاست یہ نہیں بتاتی کہ پٹیل نے ہندوؤں سے کہا تھا کہ ’’یہ ہمارا فرض ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں سوچیں اور محسوس کریں کہ اُن کی جگہ ہم ہوتے تو ہم اُن سے کیسے طرز عمل کی اُمید کرتے۔‘‘
ہم ایک بار پھر انتخابی ماحول میں ہیں اور ہمارے ملک میں یہ ماحول برقرار ہی رہتا ہے۔ اب چونکہ ایک بار پھر وہی ماحول ہمارے آس پاس ہے اس لئے نہرو بمقابلہ پٹیل کا تنازع لو َٹ آیا ہے۔ چند ہفتے پہلے مرکزی وزیر داخلہ کا ایک بیان ایک اخبار میں شائع ہوا ۔ اس کی سرخی تھی کہ ’’اگر پٹیل کو ہندوستان کا پہلا وزیر اعظم بنایا گیا ہوتا تو بیشتر مسائل جن سے ہم جوجھتے رہتے ہیں، کبھی نہ پیدا ہوتے۔‘‘ یہ بیان (امیت) شاہ کے نام کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ ایسے بیانات کی وجہ سے ملک میں ایسی نسل پیدا ہورہی ہے جو سمجھتی ہے کہ پٹیل اور بوس الگ تھے اور کانگریس الگ۔ نئی نسل یہ بھی سمجھتی ہے کہ مذکورہ دو لیڈران وہ تھے جو کانگریس سے نفرت کرتے تھے۔ مگر نئی نسل کے ذہنوں میں بھری جانے والی غلط باتوں کی بحث میں نہ اُلجھتے ہوئے آئیے امیت شاہ کے بیان کو تاریخی حقائق میں سمجھنے کی کوشش کریں۔ کیا یہ سمجھنا درست ہے کہ نہرو کے بجائے سردار پٹیل کو ہندوستان کا اولین وزیر اعظم بنایا گیا ہوتا تو حالات قطعاً مختلف ہوتے؟
اس سلسلے میں تین مفروضات پائے جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ولبھ بھائی پٹیل کو نہرو کا وزیر اعظم بنایا جانا پسند نہیں تھا اور وہ اس کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔ دوسرا مفروضہ یہ کہ نہرو کو وزیر اعظم بنانے کی ضد کرکے مہاتما گاندھی نے اہل گجرات کو نیچا دکھایا۔ تیسرا مفروضہ یہ کہ اگر پٹیل نے ابتدائی دور میں آزاد ہندوستان کی قیادت کی ہوتی تو حالات مختلف ہوتے۔ آخر الذکر مفروضہ کو پھیلانے والے کبھی یہ نہیں بتاتے کہ حالات مختلف ہوتے تو کس طرح ہوتے، کون سی باتیں ہوجاتیں جو نہیں ہوئیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اگر پٹیل کو وزیر اعظم بنایا گیا ہوتا تو وہ پاکستان کا مسئلہ حل کردیتے جس کے سبب کشمیر کا مسئلہ باقی نہ رہتا۔ یہ مفروضہ پوری طرح غلط ہے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ اسلام آباد کے سبب ہے نہ کہ سری نگر کے سبب۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ مفاہمت کے موڑ تک پہنچ سکتے تھے (جو کہ ۱۹۷۲ء میں شملہ معاہدہ کے تحت ممکن بھی ہوچکا تھا) اس کے باوجود کشمیر کا مسئلہ برقرار ہوتا۔ بنیادی سطح پر پٹیل صاحب کی قیادت کا سوال پوری طرح بے فائدہ ہے کیونکہ دسمبر ۱۹۵۰ء میں جب سردار پٹیل کا انتقال ہوا تھا تب تک ملک کے اولین پارلیمانی انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ اگر پارلیمانی انتخابات ہوچکے ہوتے اور پٹیل وزیر اعظم بن جاتے تب بھی وہ ملک کے معاملات و مسائل کے حل کیلئے ہمارے درمیان زیادہ عرصہ تک نہ رہ پاتے۔ وہ اُس وقت ۷۵؍ سال کے تھے۔ نہرو اُن سے ۱۵؍ سال چھوٹے تھے۔ یہ ایک بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پٹیل اُس وقت کی پیش رو نسل سے تعلق رکھتے تھے جس میں اُن کی معاصر شخصیات گاندھی اور جناح کی تھی۔ گاندھی اور جناح کی طرح پٹیل بھی آزادی کے بعد کے برسوں میں پرلوک سدھارے۔ سب سے پہلے، جنوری ۱۹۴۸ء میں گاندھی جی کا دیہانت ہوا اور پھر اسی سال ستمبر میں جناح کا انتقال ہوا۔
اس میں شک نہیں کہ تاریخ ہمارے سامنے کئی لیڈروں کی مثال پیش کرتی ہے (مثلاً نرسمہا راؤ) کہ جب اُنہیں اقتدار حاصل ہوا تو اُن میں نئی توانائی پیدا ہوگئی اور پھر وہ کئی سال جئے۔ ہنری کسنجر نے بھی اقتدار سے نئی توانائی کے حصول کی بات کہی تھی لیکن سردار پٹیل کا اچانک انتقال نہیں ہوا بلکہ وہ تسلسل کے ساتھ بیمار رہے تب کہیں جاکر اُن کے داغ مفارقت دے جانے کا واقعہ رونما ہوا۔ مارچ ۱۹۴۸ء میں یعنی حصول آزادی کے سات ماہ اور مہاتما گاندھی کے انتقال کے دو ماہ بعد ہی پٹیل صاحب رخصت ہوگئے۔اس کا مطلب یہ کہ اگر بحیثیت وزیر اعظم اُنہیں ترجیح دی گئی ہوتی تب بھی اُنہیں ملک کی قیادت کیلئے زیادہ وقت نہ ملتا۔
پٹیل کا سب سے بڑا کارنامہ اُن ریاستوں کو ملک میں شامل کرنا تھا جہاں راجے مہاراجوں کی حکومت تھی (پرنسلی اسٹیٹس)۔ اُن کی انہی خدمات کے پیش نظر نرمدا ڈیم کے سامنے جو ’’مجسمۂ اتحاد‘‘ (اسٹیچو آف یونٹی) کو سردار پٹیل سے موسوم کیا گیا ہے۔ راجوں اور مہاراجوں کی ان ریاستوں کو ہندوستان میں ضم کرنے کا بہت سا کام آزادی سے پہلے ہوچکا تھا۔ جوناگڑھ، حیدرآباد اور جموں کشمیر ہی باقی رہ گئی تھیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ پٹیل نے اپنے دور حیات میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے اُن میں سے بیشتر وہ تھے جو آزادی سے پہلے انجام پاچکے تھے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈران ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ پٹیل کے ساتھ ناانصافی ہوئی اور اگر اُنہیں پہلا وزیر اعظم بنایا جاتا تو حالات مختلف ہوتے؟ یہ جملہ یا ایسے جملے اُس آرزومندی کا سبب ہیں کہ اگر پٹیل کو موقع دیا گیا ہوتا تو آزاد ہندوستان میں ابتداء ہی سے ہندوتوا ہوگا اور مسلم مخالف قوم پرستی کے جذبات مستحکم ہوچکے ہوتے۔پٹیل کا نام بار بار لینے والے دراصل اپنے نظریات کو مضبوطی عطا کرنے یا قابل قبول بنانے کیلئے پٹیل کے نام کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح وہ پٹیل کے نظریات کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ ’’سردار پٹیل اینڈ اِنڈین مسلمس‘‘ میں ڈاکٹر رفیق زکریا نے پٹیل کے سیکولر نظریات کے کئی پہلوؤں سے اُجاگر کیا ہے۔ اُس وقت کی قانون ساز اسمبلی میں پٹیل نے ہندوؤں سے کہا تھا کہ ’’یہ ہمارا فرض ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں سوچیں اور یہ محسوس کریں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو اُن سے کس طرح کے طرز عمل کی اُمید کرتے۔‘‘ ڈاکٹر زکریا نے لکھا ہے کہ اقلیتوں کو ادارے قائم کرنے اور اُن کا انتظام و انصرام سنبھالنے کا حق دلوانے میں اہم کردار پٹیل نے ادا کیا تھا۔
اس میں شک نہیں کہ تقسیم کے بعد مسلمانوں کے تعلق سے پٹیل کا ذہن صاف نہیں تھا مگر اُنہوں نے اپنے جذبات کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اُس وقت کی قانون ساز اسمبلی میں پٹیل نے مسلمانوں کو یہ موقع دینے کی سفارش کی تھی کہ وہ علاحدہ رائے دہی (Separate Electorate)کا مطالبہ خود واپس لے لیں۔ دراصل یہ مطالبہ سکھوں کا تھا مگر پٹیل جانتے تھے کہ بعد میں یہی مطالبہ مسلمانوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ پٹیل کی اس فراخدلی کو موجودہ دور کے بی جے پی لیڈرا ن نہیں سمجھنا چاہتے۔
مہاتما گاندھی نے پٹیل کے بارے میں کہا تھا: ’’میں سردار کو جانتا ہوں۔ ہندو مسلم اور دیگر معاملات میں اُن کا طرز فکر میرے اور جواہر کے طرز فکر سے جدا ہے مگر اسے مسلم مخالف نظریہ قرار دینا سچائی سےمنہ موڑنے جیسا ہوگا۔ سردار کا دل اتنا بڑا ہے کہ سب کو اپنے اندر سمو سکے۔‘‘سردار پٹیل کے بارے میں گاندھی جی کا یہ نظریہ اور احساس بالکل درست تھا اور آج جبکہ الگ قسم کا پروپیگنڈہ چلایا جارہا ہے ہمیں اصل پٹیل کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہئے۔n