کرناٹک سرکار کے فیصلے کو ہائی کورٹ کے ذریعہ درست ٹھہرانے کی کوشش نے اقلیتوں کو مایوس کیا ہے،ایسے ناسازگار ماحول میں بھی کچھ آوازیں مسلمانوں کے حق میں بلند ہوئی ہیں، زیر نظر کالم میں انقلاب نے انہی حالات کا جائزہ لیا ہے
EPAPER
Updated: March 22, 2022, 2:49 PM IST | Inquilab Desk | Mumbai
کرناٹک سرکار کے فیصلے کو ہائی کورٹ کے ذریعہ درست ٹھہرانے کی کوشش نے اقلیتوں کو مایوس کیا ہے،ایسے ناسازگار ماحول میں بھی کچھ آوازیں مسلمانوں کے حق میں بلند ہوئی ہیں، زیر نظر کالم میں انقلاب نے انہی حالات کا جائزہ لیا ہے
وقفے وقفے سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت جو ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت بھی ہے، کے حوصلوں کوتوڑنے کی منظم سازشیں اور کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن اکثر و بیشتر ان کی کوششوں کو برادران وطن ہی میں موجود اُس طبقے نے ناکام بنایا ہے جنہیں ہم سیکولر کہتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے تو یہ کہ ناحق کو ناحق کہنے او ر اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کا دائرہ ہرگزرتے دن کے ساتھ سکڑتا جارہا ہے اور ان کی تعداد محدود ہوتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود اٹھنے والی یہ سیکولر آوازیں مایوس مسلمانوں کو حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں حجاب کے بہانے مسلمانوں کو پریشان کرنے، ان کے تشخص پر حملہ کرنے اور ان کی انا کو مجروح کرنےکی جن کوششوں کا آغاز کرناٹک سے ہوا تھا، اس کا دائرہ ملک گیر ہوتا جا رہا ہے۔ وطن عزیز میں مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنےکی جو سازش فرقہ پرستوں نے رچی ہے، اس میں اب اسے حکومتوں کے ساتھ ہی عدالتوں کا بھی تعاون ملتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ عدالتیں ، اسلامی احکامات کی تشریح کررہی ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق کررہی ہیںاوراسے ہی حتمی قرار دینے کی ضد بھی کررہی ہیں۔ یقینی طور پر ان کوششوں کا مقصدمسلمانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا اور انہیں مایوسی کے دلدل میں دھکیلنا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی مسلمانوں کی آواز میں آواز ملاتا ہے اور اس آواز کو توانائی فراہم کرتا ہے، ان کی داد رسی کرتا ہے تو اس طرح کی کوششیں اندھیری رات میں ایک چراغ کی مانند محسوس ہوتی ہیں۔ یہ اس بات کا احساس دلاتی ہیںکہ تھوڑی سی کوششوں سے ان چراغوں سے نئے چراغ بھی روشن کئے جا سکتے ہیں جو اِن اندھیروں کا سینہ چیرنے میں ممدو معاون ثابت ہوںگے۔ اسلامی احکامات کی من مانی تشریح کرکے کرناٹک ہائی کورٹ نے کرناٹک حکومت کے جس فرمان کو درست ٹھہرایا ہے، اس کے خلاف سیکولر طبقے نے بھی آواز بلند کی ہے اور اس تعلق سے سوال کیا ہے؟حقوق انسانی کیلئے کام کرنے والے مراٹھی کے بے باک صحافی نکھل واگلے نے تین دہائیوں کے واقعات کو تین سطروں میں بیان کرتے ہوئے حکومت و عدالت کے پورے منشا کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ فیصلہ آنے کے بعد انہوں نے ایک ٹویٹ کیا تھا کہ ’’ اگر بابری مسجد سے لے کر حجاب تک عدالتوں کے ہندوتوادی فیصلوں پر غور کریںگے تو آپ کو اس میں کچھ بھی حیرت کی بات نہیں محسوس ہوگی۔‘‘ عدالت و حکومت کے اس سوال کے جواب میں کہ ’’تعلیم ضروری ہے یا حجاب؟‘‘ یہ سوال سیکولر طبقے ہی نے کیا ہے کہ ’’تعلیم ضروری ہے یا ڈریس کوڈ؟‘‘اسی طرح حجاب پر طومار باندھنے کی منشا پر بھی برادران وطن کے اسی طبقے کی جانب سے سوال کیا گیا ہے کہ حجاب پہننے سے بھلا کسی کو کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ اور یہ کہ اس طرح کی کوئی کوشش فرد کی آزادی پر ایک حملہ ہے۔ مشہور صحافی شیام میرا سنگھ نے اس پر فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے ٹویٹ کیا تھا کہ ’’کرناٹک ہائی کورٹ نے اسکولوں میں حجاب پہننے کی اجازت دینے سے منع کردیا ہے۔ عزت مآب عدالت کا احترام کرتے ہوئے میں اس فیصلے پر اعتراض کرنا چاہتا ہوں۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ دراصل ذاتی پسند کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ ‘‘