• Wed, 27 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

نیپال سے لے کر سری لنکا تک ہماری خارجہ پالیسی پر سنگین سوالات

Updated: September 30, 2024, 5:17 PM IST | Arvind Mohan | Mumbai

مشترکہ تاریخ، ثقافت، ہوا، پانی، بارش، سردی اور گرمی کا اشتراک کرنے والے پڑوسیوں سے کیسے رشتے رکھنے چاہئیں، یہ سیکھنا ہو تو نہیں معلوم کہ کہاں جانا چاہئے لیکن اگر آپ تمام پڑوسیوں سے دشمنی کرنا چاہتے ہیں تو آپ مودی سرکار سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

S. Jaishankar Minister of External Affairs of India with Prime Minister Narendra Modi. Photo: INN
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر۔ تصویر: آئی این این

یہ سچ ہے کہ سری لنکا کے صدارتی انتخابات میں بائیں بازو اور انتہا پسندی کے نام پر ہندوستان کے خلاف آگ اگلنے والے’ انورا دسانائیکے‘کی جیت کے امکانات واضح ہوتے ہی ہندوستانی حکومت نے انہیں دہلی آنے کی دعوت دے دی تھی۔ اس کے بعد وزیر خارجہ جے شنکر سمیت دیگر اہم شخصیات نے ان کے ساتھ بات چیت کی تھی۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ اس گفتگو کی وجہ سے ان کا رویہ بدل گیا ہے۔ بہرحال یہ بھی ایک سچائی ہے کہ دوران انتخابات انہوں نے اپنے پرانے تیوروں میں تبدیلی دکھائی تھی اور کچھ نئی باتیں کیں تھیں۔ 
 سری لنکا کے بدترین معاشی بحران کے دوران۲۰۲۰ء میں ہندوستان نے جو مالی مدد فراہم کی تھی، اس کی وجہ سے سری لنکا کے لوگوں میں ہندوستان کے تئیں سوچ میں تبدیلی آئی تھی۔ دراصل چین کی طرح ہندوستان نے سری لنکا کی مدد کے نام پراس کے کسی بھی فوجی بندرگاہ پر قبضہ نہیں کیا۔ یہ ایک پہلو ضرور ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انتخابی دنوں میں ’انورا‘ نے چین کی حمایت کرنے اورہندوستان کی حمایت یافتہ اسکیموں کی مخالفت جاری رکھی تھی۔ اڈانی گروپ اب بھی وہاں ایک بڑے سولر پاور پروجیکٹ پر کام کر رہا ہے۔ انورا کی آمد سے اُس پروجیکٹ کیلئے بھلے ہی کوئی خطرہ نہ ہو لیکن بہت سے شکوک ضرور پیدا ہو گئے ہیں۔ انورا شروع ہی سے اس پاور پروجیکٹ کے معاہدے کو منسوخ کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ 
 جیسا کہ معلوم ہے، انورا کی جیت کا امکان کافی عرصے سے لگ رہا تھا۔ ۲؍ اہم پارٹیوں کی حکومتوں کی ناکامی کے بعد سری لنکا ئی عوام کمیونسٹ پارٹی کو کامیاب کرانے کے موڈ میں تھے جو ہمیشہ حاشئے پر رہی تھی۔ انورا کی عوام پر مبنی سیاست اور معاشی پالیسیاں عوام کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔ اسی دوران انورا اور ان کی پارٹی نے کمیونسٹ لبادہ بھی اتار پھینکا تھا۔ اب وہ صرف بائیں بازو کے سیاسی نظریات کی بات کرتے ہیں، لیکن چین سے ان کی محبت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد بھی انہوں نے جو بدلا ہوا رویہ دکھایا ہے، اس میں ہندوستان سے دشمنی کا نہیں ہے لیکن چین سے دوستی کا ضرور ہے۔ 
 یہ قابل ذکر ہے کہ سری لنکا کی تمام بندرگاہوں کے کام میں ہندوستان کی مدد کارآمد رہی ہے اور اسی وجہ سے پچھلی حکومت نے اڈانی گروپ اور امریکی حکومت انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن کے ساتھ مل کر ۵۵ء۳؍ کروڑ ڈالر کا ترقیاتی پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ انورا اسے بھی بند کرنے کی دھمکی دیتے رہے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ جب اس معاہدے پر دستخط ہونے والے تھے، نئی دہلی میں تعینات سری لنکا کے ایک سفارت کار نے یہ خبر اُڑائی تھی کہ اڈانی گروپ کو اس میں شامل کرنے کیلئے دباؤ بنایا گیا تھا، اسلئے انھیں فوری طور پر دہلی سے واپس بلا لیا گیا تھا۔ 
  اب سب کی نظریں اس جانب ہیں کہ اڈانی پروجیکٹ کے حوالے سے وہ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ویسے وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے دی جانے والی مشروط امداد پر بھی نظر ثانی کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ 
 اب یہ الگ بات ہے کہ انورا نے ابھی صدارتی انتخاب جیتا ہے۔ سری لنکا کے گورننس سسٹم کے مطابق پارلیمنٹ کا انتخاب اور وزیر اعظم کا کردار بھی اہم ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ تحلیل کر کے نئے انتخابات کا آغاز کر دیا ہے لیکن پھر بھی ان کی نیشنل پیپلز پارٹی آسانی سے انتخابات جیتنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجود یہ سچ ہے کہ اب سری لنکا میں حکومت نئی ہوگی اور انورا یقیناً سب سے زیادہ موثر ثابت ہوں گے۔ اس میں ماضی کے تجربات اور جغرافیائی مجبوریوں کی وجہ سے وہ اپنا ہندوستان مخالف رویہ کسی حد تک کم کر سکتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہونی چاہئے کہ یہ چین کی طرف جھکاؤ والی حکومت ہو گی۔ 
 سری لنکا سے بھی زیادہ گہرے تعلقات رکھنے والے ملک نیپال میں اقتدار کی تبدیلی بھی چین کیلئے زیادہ سازگار ہے۔ ہندوستان سے رشتے خراب کرنے میں کافی وسیع تجربہ رکھنے والے’ کے پی اولی‘ کی قیادت میں وہاں تشکیل پائی ہے۔ ویسے اس کیلئے نیپال ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ اس کے تئیں ہندوستان کی مسلسل پالیسیوں کی وجہ سے، وہ ہم سے دور ہوتا چلا گیا ہے۔ گزشتہ ۴؍ برسوں سے ہندوستانی فوج میں گورکھا فوجیوں کی بھرتی رُکی ہوئی ہے، حالانکہ وہ ہماری فوج کا ایک ’اٹوٹ انگ‘ تصور کئے جاتے ہیں۔ فوج کے ہزاروں اہلکار اور ریٹائرڈ فوجیوں اور ان کے اہل خانہ ہندوستان اور نیپال کے تعلقات کی جڑیں نچلی سطح پر مضبوط کرتے ہیں۔ 
 کہانی صرف نیپال اور سری لنکا کی نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے ساتھ کشیدگی اس سطح پر ہے کہ دُمکا میں اڈانی گروپ کا پاور پلانٹ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا ہے کہ وہ اپنی بجلی کہاں فروخت کرے؟ بنگلہ دیش کی نئی حکومت اس کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے پر نظر ثانی کرنے کی بات کر رہی ہے۔ ان باتوں کو سلجھانے کے بجائے ہمارے وزیر داخلہ سمیت بی جے پی کے تمام چھوٹے بڑے لیڈر جھارکھنڈ میں الیکشن جیتنے کیلئے بنگلہ دیشی دراندازی کی اتنی باتیں کر رہے ہیں کہ کسی بھی باوقار ملک کا برہم ہوجانا فطری ہے۔ یہی وجہ ہےکہ بنگلہ دیش نےبھی اس پر اعتراض کیا ہے۔ جھارکھنڈ کے قیام کے بعد سے اب تک بی جے پی ہی سب سے زیادہ عرصے تک حکومت میں رہی ہے، لیکن انتخابات میں ہندو مسلم پولرائزیشن کرنے کیلئے پوری بی جے پی تیزی سے دراندازی کا مسئلہ اٹھا رہی ہے۔ بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے ابھی تک کوئی ہندوستان مخالف قدم نہیں اٹھایا ہے لیکن ہماری حکومت نے شیخ حسینہ سے ایسی محبت کا مظاہرہ کیا ہے کہ جماعت اسلامی جیسے پاکستان کے حامی گروپوں کو بھی تقویت ملی ہے۔ 
 بیگم خالدہ ضیاء بھی اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ کل کیا ہوگا لیکن یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ کل، آج سے زیادہ ہندوستان مخالف ہوائیں چلیں گی۔ ہمارے لیڈران دنیا کے مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ 
  بی جے پی کے حامی مالدیپ کے’ پٹری پر آجانے‘ کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ اب اگر مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک میں ہندوستان مخالف حکومت برسراقتدار آتی ہے، جو پوری طرح سے ہندوستان سے گھرا ہوا ہے، تو اسے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا اور دوستانہ کوششیں کرنے کے بجائے دھمکیوں کے ذریعے مسئلہ حل کرنا دانشمندی نہیں ہوگی۔ نئی حکومت کے ساتھ اختلافات آپ نے منی پور کے قبائلی تنازع کو الجھا دیا ہے اور اسے حل کرنے کیلئے ابھی تک کوئی بامعنی کوشش نہیں کی گئی لیکن میانمار پر الزام لگانے کا شور مچایا جا رہا ہے۔ یہ دوسرے ملک کو دشمن بنانے کی تیاری ہے۔ 
 اب اگر ہم شمار کریں کہ افغانستان میں ماضی کی کوششوں کو کس طرح ناکام بنایا گیا اور پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا رہا ہے تو حکومت کی پوری خارجہ پالیسی ہی سوالوں کی زد میں آجائے گی۔ اس کھسر پھسر پر گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ ہمیں سندھ ندی کے پانی کی تقسیم کے معاہدے پر نظر ثانی کرنی ہوگی کیونکہ تینوں بڑے شمالی دریاؤں کا۷۵؍ فیصد حصہ پاکستان کو مل رہا ہے اور اب ہمیں یہ نقصان برداشت کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ مشترکہ تاریخ، ثقافت، ہوا، پانی، بارش، سردی اور گرمی کا اشتراک کرنے والے پڑوسیوں سے کیسے رشتے رکھنے چاہئیں، یہ سیکھنا ہو تو نہیں معلوم کہ کہاں جانا چاہئے لیکن اگر آپ تمام پڑوسیوں سے دشمنی کرنا چاہتے ہیں تو آپ مودی حکومت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK