رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔
EPAPER
Updated: April 11, 2023, 10:33 AM IST | Maulana Muhammadullah Khalili Qasmi | Mumbai
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔
(گزشتہ سے پیوستہ): رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی سب سے اہم فضیلت وخصوصیت یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی رات پائی جاتی ہے جوہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے اور اسی رات کو قرآن مجید جیسا انمول تحفہ دنیائے انسانیت کو ملا۔ اللہ سبحانہ ‘و تعالیٰ نے اس رات کی فضیلت میں پوری سورة نازل فرمائی جس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ اس سورۃ میں ارشاد ہوا: ”ہم نے قرآن کریم کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبریل) اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لئے اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔“ (سورة القدر) ایک دوسری آیت میں اس کو مبارک رات کہا گیا ہے، ارشاد ہے: ” قسم ہے اس کتاب کی جو حق کو واضح کرنے والی ہے۔ ہم نے اسے ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے۔ “ (سورة الدخان:۲)
چنانچہ شب قدر کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں (یعنی کم و بیش تراسی سال) کی عبادت سے زیادہ ہے۔ نیز، اسی رات اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو یکبارگی لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر نازل فرمایا جو اس کے بعد نبوت کی۲۳؍ سالہ مدت میں حسب ضرورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا۔ انہی آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس رات کو ملائکہ نزول کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سال بھر کے تقدیر کے فیصلے فرشتوں کے حوالے فرمادیتے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے وقت پر ان کی تکمیل کرتے رہیں۔ اس رات میں فرشتوں کا نزول بھی رحمت و برکت کا سبب ہوتا ہے۔
لیلة القدر کامطلب ہے قدر اور تعظیم والی رات یعنی ان خصوصیتوں اور فضیلتوں کی بنا پر یہ قدر والی رات ہے۔ یا پھر یہ معنی ہے کہ جو بھی اس رات بیدار ہوکر عبادت کرے گا وہ قدروشان والا ہوگا ۔ تواللہ تعالیٰ نے اس رات کی جلالت ومنزلت اورمقام ومربتہ کی بنا پراس کانام لیلة القدر رکھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس رات کی بہت قدر ومنزلت ہے۔ شب قدر کی فضیلت بے شمار آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مہینہ (رمضان کا) تم کو ملا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ جو اس سے محروم رہا گویا وہ تمام خیر سے محروم رہا، اور اس کی خیر و برکت سے کوئی محروم ہی بے بہرہ رہ سکتا ہے۔“ (سنن ابن ماجہ، معجم الکبیر للطبرانی)
مسلمانوں کو ترغیب و تاکید ہے کہ وہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مبارک رات کی تلاش کے لئے اعتکاف فرماتے تھے اور رمضان کے آخری عشرہ میں پوری پوری رات عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سید الرسل اور محبوب رب العالمین تھی، وہ اللہ کے نزدیک مقبول اور بخشے بخشائے تھے،اس کے باوجود اللہ کی رضا کی تلاش میں آپ اتنی جدوجہد فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے ہم بہت زیادہ محتاج ہیں۔ لہٰذا، ہمیں اس رات کی تلاش و جستجو کرنا چاہئے اور آخری عشرہ کی راتوں کو ذکر و عبادت میں گزارنا چاہئے۔
اس رات کو رمضان بالخصوص آخری عشرہ میں تلاش کرنا مستحب ہے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری) ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، باقی نو رہ جائیں تو ان میں، باقی سات رہ جائیں توان میں اور باقی پانچ رہ جائیں تو ان میں۔ ( صحیح بخاری) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسولؐ اکرم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ اس سوال کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا: اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عني (اے اللہ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے، لہٰذا مجھے معاف کردے ) ۔ (سنن ترمذی ، مسند احمد ، سنن ابن ماجہ وغیرہ)
حضرات محدثین و علماء فرماتے ہیں کہ شب قدر سے متعلق روایات کثرت سے مروی ہیں اور ان کے مجموعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے، اور طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں مصلحت و حکمت سے شب قدر کو مخفی رکھا ہے ۔اس کو مخفی رکھنے میں شاید ہماری طلب اور ذوق ِجستجو کا امتحان مقصود ہے۔ اگر کوئی شخص خلوصِ نیت اورصدقِ دل سے کوشش کرے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ،تو ان شاء اللہ وہ محروم نہیں رہے گا۔