Inquilab Logo Happiest Places to Work

شب ِ قدر:ایسا نہ ہو کہ فضیلت والی رات میں بھی ہم محروم رہ جائیں !

Updated: March 21, 2025, 12:57 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

اس رات کی فضیلت وعظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورہ خاص اس رات کے بارے میں نازل فرمائی۔

The door of divine mercy is open and the ocean of God`s boundless blessings is surging, and it is time to spread out our hands in prayer before our Lord. Photo: INN.
رحمت ربانی کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور خدا کی نعمت بے کراں کا سمندر موجیں مار رہا ہے اور یہ وقت ہے کہ اپنے آقا کے سامنے دست دعا پھیلا دیا جائے۔ تصویر: آئی این این۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کو یکسانیت کے اُصول پر پیدا نہیں فرمایاہے ؛ بلکہ مختلف جہتوں سے ان میں تفاوت اور ایک دوسرے پر فضیلت قائم رکھی ہے، جیسے مادی دنیا میں ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک طرف شیر اور ہاتھی جیسے طاقتور جانور ہیں اور دوسری طرف ہرن اور بکری جیسے نازک اور ناتواں حیوانات، یا ایک طرف پہاڑ کی صلابت ہے اور دوسری طرف زمین کا بچھاؤ اور اس کی چاک دامانی کی صلاحیت۔ اللہ تعالیٰ نے روحانی نظام بھی اسی انداز پر رکھا ہے کہ ان میں بھی ایک دوسرے پر فضیلت و برتری قائم رکھی گئی ہے، یہ فضیلت شخصیات میں بھی ہے۔ انسانیت کے سب سے مقدس گروہ انبیاء کرام ہیں لیکن انبیاء کے درمیان بھی تفاوتِ درجات موجود ہے: ’’یہ پیغمبر (جو ہم وقتاً فوقتاً بھیجتے رہے ہیں ) ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ‘‘ (البقرۃ: ۲۵۳)۔ یہ فرق اعمال میں بھی ہے۔ عبادتیں بہت سی ہیں، مگر ان سب میں اجر و ثواب برابر نہیں، یہ فرق مقامات میں بھی ہے کہ یوں تو روایتوں میں زمین کا سب سے بہتر ٹکڑا اس حصہ کو قرار دیا گیا جس پر مسجدیں تعمیر کی گئی ہوں : خیر بقاع الأرض المساجد (مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر: ۹۱۱۹) لیکن مسجدوں میں مسجد حرام، مسجد نبویؐ اور مسجد اقصیٰ کو جو درجہ و مقام حاصل ہے وہ دوسری مسجدوں کو حاصل نہیں ۔ 
مقام و مرتبہ کا یہ فرق زمانہ و اوقات میں بھی ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ تمام مہینوں میں افضل ہے، خود رسول اللہ ﷺ نے اس مہینہ کو عظیم اور مبارک مہینہ قرار دیا ہے : ’’شہر عظیم شہر مبارک‘‘(شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: ۳۶۰۸، صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر : ۱۸۸۷)پھر ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کے دن کو خاص فضیلت حاصل ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کو تمام دنوں کا سردار قرار دیا ہے: سید الأیام یوم الجمعۃ (مسند أحمد، حدیث نمبر: ۱۵۵۸۷) اورسال بھر کے دنوں میں سب سے افضل یوم عرفہ (۹؍ ذو الحجہ) کو قرار دیا گیا ہے کہ یہ دن حج کے رکن اعظم کے ادا کرنے کا اور دُعاء کی قبولیت کا ہے۔ اسی طرح راتوں میں بھی کچھ راتوں کو خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ معتبر حدیثوں سے پانچ راتوں کا خصوصی مقام و مرتبہ معلوم ہوتا ہے، شب عرفہ یعنی ۹؍ ذی الحجہ کی رات، عید الفطر اور عید الاضحی کی رات، شب برأت یعنی پندرہویں شعبان کی رات اور شب قدر؛ تاہم اس میں اختلاف نہیں کہ ان راتوں میں بھی شب قدر کو خصوصی فضیلت حاصل ہے اور کیوں نہ ہو کہ جس کتاب سے قیامت تک انسانیت کی فلاح و نجات متعلق ہے اور جو اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی کتاب ہدایت کا سب سے آخری اور مکمل ایڈیشن ہے یعنی قرآن مجید، وہ اسی رات میں انسانیت کی طرف بھیجی گئی: ’’ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ ‘‘ (سورۃ القدر: ۱)
اس رات کی فضیلت وعظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورہ خاص اس رات کے بارے میں نازل فرمائی، ارشاد نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام جو انبیاء پر وحی لے کر اترا کرتے تھے وہ فرشتوں کے جلو میں اسی شب زمین پر تشریف لاتے ہیں اور اللہ کے جو بندے کھڑے یا بیٹھے، خدا کی بارگاہ میں مشغول عبادت ہوتے ہیں، اور اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، ان کیلئے دُعائے رحمت فرماتے ہیں : …یصلون علی کل عبد قائم أو قاعد یذکر اللّٰه عز وجل (شعب الایمان للبیہقی: ۳؍۳۴۳، حدیث نمبر : ۳۷۱۷) بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ فرشتے ذکر کرنے اور نماز پڑھنے والوں کو سلام بھی فرماتے ہیں، ان سے مصافحہ بھی کرتے ہیں اور ان کی دُعاؤں پر آمین کہتے ہیں۔ (فضائل الاوقات للبیہقی، ص: ۲۵۱)
خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’یہ رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے ‘‘ (القدر: ۳) یعنی اس رات میں جو عبادت کی جائے گی، وہ اجر و ثواب کے اعتبار سے ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت سے بھی بڑھ کر ہوگی۔ ہزار مہینے سے مراد بے حساب اجر و ثواب ہے۔ عربی زبان میں چوں کہ زیادہ سے زیادہ ہزار ہی کا عدد ہے، غالباً اسی لئے قرآن مجید میں ہزار کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، ورنہ اس سے بھی بڑھ کر اس رات کا درجہ ہے ؛ چنانچہ فرمادیا گیا کہ ہزار مہینوں سے اس رات کی عبادت کا اجر بڑھا ہوا ہے، کس قدر بڑھاہوا ہوگا، یہ پروردگار عالم کی عطاء و بخشش پر ہے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : جو شخص شب قدر میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ عبادت کے لئے کھڑا ہوگا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردئیے جائینگے۔ 
(صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب قیام لیلۃ القدر من الایمان، حدیث نمبر : ۳۴)
جہاں اس رات میں عبادت کا اجر بڑھ جاتا ہے، وہیں یہ رات دعا کی قبولیت اوراجابت کی بھی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس رات پروردگار عالم خود اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے: کیا تم میں سے کوئی مغفرت کا طلبگار ہے کہ میں اس کی خطاؤں کو معاف کردوں ؟ ہے کوئی روزی کا طلبگار کہ میں اس کو روزی عطا کروں ؟ ہے کوئی کسی مصیبت میں مبتلا شخص کہ میں اس کی اس مصیبت کو دُور فرمادوں ؟ اللہ کی طرف سے یہ ندائے رحمت صبح تک ہوتی رہتی ہے۔ ہر وہ جو اس آواز پر لبیک کہتا ہے، اس کی دعا مقبول ہوجاتی ہے؛ اس لئے یہ راتیں خاص طور پر اپنے پروردگار سے مانگنے اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ہیں اسی لئے جب اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپؐ سے دریافت کیا کہ اگر شب قدر مل جائے تو ہمیں کیا پڑھنا چاہئے ؟ تو آپؐ نے ایک مختصر مگر جامع دُعا سکھائی: اللّٰہم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی(مسند احمد، حدیث نمبر : ۲۵۴۲۳) یعنی : ’’خداوندا ! بے شک آپ بہت معاف فرمانے والے ہیں ، آپ معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں ؛ اس لئے میری خطائیں بھی معاف فرمادیجئے۔ ‘‘ 
اگر چہ اس دُعا کے الفاظ مختصر ہیں لیکن اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ نہایت اہم دُعا ہے؛ کیوں کہ ایک خطا کار غلام کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی اور عافیت کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا آقا اسے معاف کردے۔ اس لئے یوں تو ماہ مبارک اور اس کے اخیر عشرہ میں ہر طرح کی دُعا کا اہتمام کرنا چاہئے لیکن یہ دُعا خاص طور پر کرنی چاہئے۔ 
نعمت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، یہ اسی کے لئے کار آمد ہے جو اس سے فائدہ اُٹھاسکے، اس سے زیادہ محروم اور کم نصیب کون ہوسکتا ہے جس پر نعمتوں کی بارش ہو اور اس کا دامن خالی رہ جائے؛ اسی لئے آپ ﷺ نے رمضان المبارک کی آمد پر اپنے رفقاء سے فرمایا کہ ایک ایسا مہینہ تم پر آچکا ہے جس میں ایک ایسی رات بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس کی برکتوں سے محروم رہ گیا، وہ گویا تمام ہی بھلائیوں سے محروم ہے اور جو شخص حقیقتاً محروم ہو، وہی اس رات کے خیر سے محروم رہ سکتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، حدیث نمبر: ۱۶۳۴)
ان محروموں میں یقیناً وہ لوگ شامل ہیں، جو اِن مبارک اوقات کو اللہ کی بندگی اور ذکر میں لگانے کی بجائے خرید و فروخت، ہوٹلوں میں ذائقہ چشی، بازاروں میں ادھر سے اُدھر کی دوڑ دھوپ اور بے فائدہ کاموں میں گزار دیتے ہیں، اور اس میں وہ بدنصیب بھی شامل ہیں، جن کیلئے آج کی اس رات میں بھی دُعا کی قبولیت اور مغفرت کا دروازہ بند رہتا ہے۔ 
آپؐ کے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’چار افراد وہ ہیں جن کی دُعا اس مبارک و مسعود شب میں بھی دروازۂ رحمت سے واپس کردی جاتی ہے اور خدائے رحیم و کریم کا قلم عفو اُن کو اپنے سائے سے محروم رکھتا ہے، اول وہ شخص جو عادتاً شراب پیتا ہو، دوئم: اپنے والدین کا نافرمان، سوئم: رشتوں کو توڑ دینے والا اور چوتھے: کینہ پرور‘‘ (فضائل الاوقات للبیہقی، ص: ۲۹۱) آہ ! کیسے کم نصیب اوربدقسمت ہیں یہ لوگ کہ خدا کی نعمت بے کراں کا سمندر موجیں مار رہا ہے، مگر اس کا قطرہ قطرہ ان گناہ گاروں اور نافرمانوں سے گریزاں ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ رحمت ربانی کا دروازہ کھلا ہوا ہے، ہر بادہ خوار قدر شناس کے لئے موقع ہے کہ وہ داخل ہو، جام عشق کے گھونٹ پیئے اور صہبائے محبت کا لطف اُٹھائے؛ لیکن ضروری ہے کہ ہاتھ میں وفا کا دامن ہو، محبوب کی محبت اور ساقی رحیم کی اُلفت سے اس کا دل معمور ہو اور عمل سے اس کی تصدیق ہو، ایک صوفی شاعر کے بقول : 
درِ مے خانہ وا ہے سب کیلئے
شرط لیکن وفا ہے سب کیلئے 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK