شرد پوارکو آپ جانتے ہیں۔ عمر ۷۸؍ سال۔ گزشتہ کم و بیش دس سال سے سرطان جیسے موذی مرض سے نبرد آزما۔ اس کے باوجود سرگرم۔ انتخابی سیاست سے کنارہ کش مگر عملی سیاست میں چاق و چوبند
EPAPER
Updated: December 11, 2019, 11:21 PM IST
|
Editorial
شرد پوارکو آپ جانتے ہیں۔ عمر ۷۸؍ سال۔ گزشتہ کم و بیش دس سال سے سرطان جیسے موذی مرض سے نبرد آزما۔ اس کے باوجود سرگرم۔ انتخابی سیاست سے کنارہ کش مگر عملی سیاست میں چاق و چوبند کافی دھماچوکڑی مچی، کئی اُتار چڑھاؤ آئے، شدید رسہ کشی جاری رہی، میٹنگوں پر میٹنگیں ہوئیں، حکومت بنی بھی اور استعفےٰ دینے پر مجبور بھی ہوئی، وغیرہ، یہ تمام سرگرمیاں اس وقت ہر خاص و عام کے ذہن میں تازہ ہیں مگر یہ دیکھ کر راحت بھی ہورہی ہے کہ اونٹ کو جس کروٹ بیٹھنا تھا، وہ بیٹھ چکا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی طے ہوچکا کہ ’’شیو سینا۔ این سی پی۔ کانگریس‘‘ کے مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت عنقریب تشکیل پاجائیگی۔ غور کیا جائے تو اب تک کی تگ و دو اَور رسہ کشی کے وسیع پس منظر سے صرف ایک چہرا اُبھرتا ہے جس نے آندھی کے خلاف چراغ جلا کر خود کو منوالیا ہے۔ وہ چہرا شرد پوار کا ہے۔ عنقریب مہا وِکاس اگھاڑی کی جو حکومت قائم ہوگی اس کے قیام کا سہرا اگر کسی کے سر بندھتا ہے تو یقیناً وہ این سی پی کے صدر شرد پوار ہی ہوں گے ۔
شرد پوارکو آپ جانتے ہیں۔ عمر ۷۸؍ سال۔ گزشتہ کم و بیش دس سال سے سرطان جیسے موذی مرض سے نبرد آزما۔ اس کے باوجود سرگرم۔ انتخابی سیاست سے کنارہ کش مگر عملی سیاست میں چاق و چوبند۔ مہاراشٹر اسمبلی کی انتخابی مہم کے دوران کئی اہم اور ممتاز لیڈروں کا داغ مفارقت دینا اس کے باوجود ہمت نہ ہارنا اور یہ ثابت کرنا کہ وہ چاہے اُدئے راجے بھوسلے ہوں یا وجے سنگھ موہتے پاٹل، پدم سنگھ پاٹل ہوں یا مدھوکر پیچڈ، سچن اہیر ہوں یا گنیش نائک، ریاستی سیاست میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے والے یہ اور ایسے دیگر لیڈران شرد پوار سے ہیں، شرد پوار ان سے نہیں۔ الیکشن سے کچھ پہلے ای ڈی سے بھی نہ ڈرنا، یہ کہہ کہ آپ کیوں زحمت کرتے ہیں مَیں خود آپ کے دفتر آرہا ہوں ای ڈی کو اپنا پروگرام تبدیل کرنے پر مجبور کرنا، انتخابی کمان کو مضبوطی سے تھامنا، پوری ریاست کا دورہ کرنا، اپنے کیڈر میں نیا جوش پیدا کرنا،موسلا دھار بارش میں بھی ڈٹے رہنا، مسلسل محنت سے ۵۴؍ سیٹیں حاصل کرنا، غیر بی جے پی حکومت کے قیام کیلئے دن رات ایک کردینا، ایک طرف شیو سینا کو اعتماد میں لینا اور دوسری طرف کانگریس کو ہموار کرنا، حکومت سازی کی تیاریوں کو حتمی شکل دینا، اس دوران بھتیجے اجیت پوار کی بغاوت کے باوجود نہ گھبرانا، پارٹی کو نئے سرے سے جوڑنا، چند ایک کو چھوڑ کر سب کو اپنے ساتھ لانا، سیاسی مصلحتوں کے تحت اجیت پوار کو این سی پی کے خیمے میں واپس لانا، ’’یہ مہاراشٹر ہے گوا نہیں‘‘ کہنا اور کرکے دکھانا، اور ان تمام کاوشوں کے ذریعہ اپنی پوزیشن پہلے سے زیادہ مستحکم کرنا، یہ سب صرف ایک شخص کا کارنامہ ہے۔
شرد پوار کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور ان کالموں میں ماضی میں کیا گیا ہے، مگر چند باتیں جو بالائی سطور میں بیان کی گئیں اور چند وہ جن کا ذکر آگے آئیگا کا اعتراف نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ اُن کی ایک خاص قسم کی سیاست ہی کے سبب یہ کہا جارہا تھا کہ بی جے پی سے این سی پی کی ساز باز ہوچکی ہے اور جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ ڈراما ہے۔ ہم نے اس کالم میں لکھا تھا کہ یہ ڈراما نہیں لگتا۔ شرد پوار نے اپنے تعلق سے کی جانے والی قیاس آرائیوںسے انکار بھی کیا اور اُنہیں غلط بھی ثابت کیا۔ یہ بھی سمجھا دیا کہ میڈیا بھلے ہی امیت شاہ کو چانکیہ کہے مگر، بالخصوص مہاراشٹر کی سیاست میں اگر کوئی چانکیہ ہے تو وہ پوار ہی ہیں۔
این سی پی صدر نے یہ بھی ثابت کردیا کہ بی جے پی کو ناقابل تسخیر سمجھنا غلط ہے۔ اُن کی گزشتہ چند ماہ کی شبانہ روز جدوجہد کا ثمرہ یہ ہے کہ پورے اعتماد کے ساتھ ’’میں پھر آؤں گا‘‘ کہنے والے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس کو استعفےٰ دینا پڑا ہے۔ایسے دور میں جب متعدد پارٹیوں کی سیاست پر خوف کی پرچھائیاں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں، شرد پوار نے بے خوفی کی سیاست کو ترجیح دی اور کامیابی حاصل کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ یہاں وہاں دوڑنے کے بجائے عوام تک پہنچنے کی کوشش کیجئے، پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔