• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

کسان آندولن اورشاہین باغ تحریک میں مماثلت

Updated: February 09, 2021, 1:35 PM IST | Hassan Kamal

جمہوریت میں حاکم کی مرضی سے زیادہ عوام کی مرضی مقدم ہوتی ہے اور اگر عوام کی مرضی یہی ہے کہ انہیں یہ قوانین درکار نہیں ہیں تو حاکم ان پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتا۔

Picture.Picture :INN
علامتی تصویر۔ تصویر :آئی این این

آزادی کے بعد یوں تو ملک میں ان گنت احتجاجی تحریکیں اٹھیں ، لا تعداد آندولن ہوئے، لیکن شاہین باغ کا احتجاج اپنے قسم کا پہلا احتجاج تھا جس نے ہندوستانی آئین، ترنگے پرچم اور عدم تشدد کو اپنے احتجاج کی بنیاد بنا لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہین باغ کی حمایت میں ملک کے اندر غیرمتوقع طور پر زبرست حمایت ملی اور غیر مسلموں کی حمایت میں بھی روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔ حالانکہ احتجاج کا بنیادی تعلق مسلمانوں سے تھا۔ یہ تحریک سی اے اے، این آرسی اوراین پی آرجیسے سیاہ قوانین کے خلاف کھڑی ہوئی تھی۔ بین الاقوامی پیمانے پر بھی اس تحریک کو پذیرائی ملی۔سب سے پہلے امریکہ میں بین الاقوامی مذہبی آزادی کے نگہدار ادارے نے ا ن قوانین کوہندوستان میں مسلم اقلیت کے خلاف مذہبی عصبیت اور منافرت کا نتیجہ قرار دیاتھا۔ پھر امریکی ایڈمنسٹریشن  کی خارجہ کمیٹی نے ان کی مذمت کی۔ پھر یورپی یونین اور برطانیہ میں پارلیمانوں نے ان قوانین کے خلاف تجاویز منظو کیں۔ بالآخر ان ہی امیت شاہ کو، جو کہتے تھے کہ دنیا کی کوئی طاقت ان قوانین  کے نفاذ کو روک نہیں سکتی، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کو یہ تحریری یقین دہانی دینی پڑی کہ ان قوانین کو فی الحال معطل کیا جا رہا ہے۔ 
 کسانوںکے ہاتھوں میں ترنگا ہے اور ۲۶ ؍جنوری سے پہلے اس میں تشدد کا دور دور تک شائبہ نہیں تھا۔ پھر جوتشدد ہوا بھی ،  وہ کسانوں کی طرف سے نہیں شروع ہوا تھا۔ سب سے پہلے تشدد کا مظاہرہ ہریانہ سرکار نے کیا تھا، جب دہلی کی طرف بڑھتے ہوئے کسانوں کو واٹر کینن کی بوچھار اور لاٹھیوں کی بارش سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ دونوںتحریکوں میں کئی اور مماثلتیں بھی دیکھی گئی ہیں۔ شاہین باغ میں بھی بی جے پی اور آرایس ایس نے ایک مسلح نوجوان کو بھیج کر اس سے فائرنگ کرائی تھی تاکہ احتجاج کرنے والے مشتعل ہو جائیں اور نزدیک کھڑی ہوئی پولیس کو ان پر ٹوٹ پڑنے کا بہانہ مل جائے۔ حالانکہ صاف دیکھا جا رہا تھا کہ وہ نوجوان  پولیس کی حفاظت میں بھیجا گیا تھا۔کسانوں میں بھی کئی بار اشتعال انگیز ارادوں کے تحت غنڈے بھیجے گئے، لیکن کسان بھی مشتعل نہیں ہوئے۔
 دراصل رنجن گوگوئی کی بنچ سے بابری مسجد کیس کا فیصلہ اپنے حق میں حاصل کر لینے یاپھر ریاست جموں کشمیر کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت بدل دینے کے بعد بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو یقین کامل ہو گیا تھاکہ اب کم از کم شمالی ہندوستان کامڈل کلاس ہندو ذات پات کی تفرق بھول کر ایک آہنی دیوار کی طرح اس کے پیچھے کھڑا ہو چکاہے اورمودی سرکار کا ہر قدم پرساتھ دے گا۔  
 چنانچہ جب تین زرعی قوانین کے خلاف پنجاب میں ایجی ٹیشن شروع ہوا تو احتجاج کرنے والوں کی ۹۰ ؍فیصد تعدادسکھوں پر مبنی تھی۔ مودی سرکار اور اس کے مشیروں کو اطمینان تھا کہ انہیں تو بہ آسانی یہ کہہ کر دبا دیا جائے گا کہ انہیں  تو ایک غیر ملکی فورم ’’سکھ فار جٹس‘‘ نے بہکایا ہے ، جو کینیڈا اور امریکہ سے خالصتان تحریک چلا رہی ہے۔ لیکن بہت جلد ان میں ہریانہ کے کسان بھی شامل ہو گئے۔ سرکاری مشیروں نے پھر یقین دلایا کہ پنجاب کے احتجاجی سکھ جاٹ ہیں اور ہریانہ کے کسان ہندو جاٹ ہیں۔ یہ جاٹ برادری کی ایکتا ہے، لیکن یہ ایکتا بہت دور نہیں جا سکے گی، کیونکہ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں میں پانی کی تقسیم پر بہت سخت جھگڑا ہے۔ اس لئے سرکار اپنے موقف پر اڑی رہی۔ لیکن جلد ہی یہ معلوم ہوگیاکہ احتجاج تو بڑھتا جا رہا ہے اور اس میں جاٹوں کے علاوہ گوجر اور ٹھاکر بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں ۔یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ یہ مشیر کون ہیں۔ یہ مشیر وہ جوائنٹ سکریٹریز ہیں جنہیں کارپوریٹس سے ادھار لے کر وزیر اعظم کے دفتر میں آئی اے ایس افسروں کے سروں پر بٹھا دیا گیا ہے ۔ ان ہی مشیروں نے یہ تین زرعی قوانین بھی وضع کئے ہیں۔ 
مشیروں نے ایک بار پھر مودی سرکار کو یقین دلایا کہ جب تک اترپردیش کے جاٹ آندولن میں شامل نہیں ہوتے تب تک گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔اس بار یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے بھی مودی کو یقین دلایا کہ راکیش ٹکیت کی قیادت میں صرف چند سو مغربی یو پی کے کسان دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور راکیش ٹکیت تو ’’میرا آدمی‘‘ ہے۔ ۲۶؍ جنوری کے منصوبہ بند تماشے کے بعد مشیروں نے مشورہ دیا کہ بس بلا تاخیر کسانوں پر ہلّہ بول دیا جائے۔بہر حال یہ طے ہوا تھا کہ چونکہ ٹکیت پر بھی دیش دروہی کا مقدمہ دائر کیا جاچکا ہے ، اس لئے وہ گرفتاری دے دیں گے اور آندولن کے لئے گودی میڈیا خبر پھیلا دے گا کہ آندولن میں پھوٹ پڑ گئی ہے۔ باقی کسان لیڈروں میں مردنی دوڑ جائے گی اور سارا کھیل ختم ہو جائے گا۔ لیکن بس ایک چوک ہو گئی۔مثل مشہور ہے کہ سیانا کوّا ہی فضلہ کھاتا ہے۔ آدتیہ ناتھ کے ایک ایم ایل اے نریندر گوجر ایک بھیڑ لے کر ٹکیت کے ساتھ بیٹھے ہوئے کسانوں پر چڑھ دوڑے۔ ٹکیت کو سب منظور تھا، یہ منظور نہیں تھا کہ کسی بی جے پی ایم ایل اے کی بھیڑ ان کے ساتھیوں کو مارے پیٹے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ ایک عرصہ تک مثالوں کے طورپر یاد کیا جائے گا۔
 شاہین باغ اور کسان آندولن میں چند اور واضح مماثلات دکھائی دیتی ہیں۔  ٹائم میگزین نے تحریک میں شامل ایک معمر خاتون بلقیس بیگم کو دنیا کی سو سب سے زیادہ با اثر خواتین کی فہرست میں شامل کر لیا تھا۔ کسان آندولن بھی عالمی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ نوجوان بھی  ہندوستانی کسانوں سے اظہار ہمدردی کر رہا ہے۔ پاپ سنگر ریحانہ اور موسم بچائو تحریک کی کارکن گریٹاتھنبرگ اس کی مثالیں ہیں۔ گریٹا تھنبرگ سویڈن کی شہری ہیں۔ ان کی عمر صرف اٹھارہ سال ہے۔ انہیں نوبیل پرائز سے بھی نوازا گیا۔  بین الاقوامی دبائو کے سبب ہی مودی سرکار کو سی اے اے قانون کو معطل کرنا پڑا تھا اور دنیا کے دبائو کی وجہ ہی سے مودی سرکار کو زرعی قوانین بھی واپس لینا پڑیں گے۔ یوں بھی ان قوانین کے نفاذ کو اٹھارہ ماہ تک کے لئے ملتوی کیا جا چکا ہے۔ اب تو امریکی ایڈمنسٹریشن کی طرف سے بھی یہ اشارے کئے جا رہے ہیں کہ مودی سرکارکو ان زرعی قوانین سے خواہ کتنی ہی محبت ہو، لیکن اسے کسانوں سے مذاکرات کرنا ہی ہوں گے۔ دوسری طرف مودی سرکار کو یہ ڈر لگ رہا ہے کہ اگر ان زرعی قوانین کو واپس لے لیا گیا تو کہیں ۳۷۰ ؍کی واپسی کا ترانہ بھی نہ چھڑ جائے۔  یقیناًاس کا بھی قوی امکان ہے۔ لیکن جمہوریت کا مطلب وہ حکومت ہوتی ہے جو عوام کی عوام کے لئے اور عوام کے ذریعہ بنائی گئی ہو۔ جمہوریت میں حاکم کی مرضی سے زیادہ عوام کی مرضی مقدم ہوتی ہے اور اگر عوام کی مرضی یہی ہے کہ انہیں یہ قوانین درکار نہیں ہیں تو حاکم ان پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK