• Thu, 21 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فلک بوس عمارتیں چھتوں کے ساتھ ہی روزگار بھی فراہم کرتی ہیں

Updated: October 26, 2024, 10:19 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

ممبئیکی اپنی کئی پہچان ہے اور اس کی ہر پہچان کافی مستحکم ہے۔کچھ اسے ملک کی معاشی راجدھانی کہتے ہیں تو کچھ اسے منی ہندوستان قرار دیتے ہیں اورکچھ اسے عروس البلاد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

As for Mumbai, it is said that its population is moving upwards rather than downwards. Photo: INN
ممبئی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ اس کی آبادی اِدھر اُدھر نہیں بلکہ اوپر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تصویر: آئی این این

ممبئیکی اپنی کئی پہچان ہے اور اس کی ہر پہچان کافی مستحکم ہے۔کچھ اسے ملک کی معاشی راجدھانی کہتے ہیں تو کچھ اسے منی ہندوستان قرار دیتے ہیں اورکچھ اسے عروس البلاد کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہندوستان کی اس سب سے بڑی اور گھنی آبادی والے شہر کو ایک طبقہ جہاںکنکریٹ کا جنگل کہتا ہے وہیں ایک بڑا طبقہ ممبئی کو اس حوالے سے یاد کرتا ہے کہ یہاں کوئی محنت کش بھوکا نہیں سوتا..... یقیناً یہ بہت بڑی بات ہے۔
ممبئی کی آبادی تقریباً ڈھائی کروڑ ہے جو دنیا کی کئی ملکوں کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ یہاں کی آبادی جہاں سری لنکا، شام اور تائیوان جیسے ممالک سے زیادہ ہے، وہیںتیونیشیا، کیوبا، سوڈان اور یونان جیسے ملکوں سے دُگنی اور سوئزرلینڈ، اسرائیل اور آسٹریا جیسے ملکوں سے تین گنا زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ۳۰؍ برسوں میں ممبئی کی آبادی میں ۱۰۰؍ فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے۔ ۱۹۹۱ء کی مردم شماری کے مطابق ممبئی کی آبادی ایک کروڑ کے آس پاس تھی۔ ماہرین کاخیال ہے کہ اس آبادی میںاس سے کہیں زیادہ اضافہ ہوتا، اگر اس کے بڑھنے کی گنجائش ہوتی۔ یہاں گنجائش سے مراد ممبئی کی وسعت اور اس کا رقبہ ہے۔ 
ٍعام طور پر جب کسی شہر کی آبادی بڑھتی ہے تو اس کا رقبہ پھیلنے لگتا ہے۔وہ شہر، نہ صرف مضافات کی تمام بستیوں کو اپنے حدود میں سمیٹ لیتا ہے بلکہ اس کے آگے بھی نئی بستیاں آباد کرتا ہے ۔ممبئی کی پریشانی یہ ہے کہ یہاںکسی طرف پھیلنے کی گنجائش نہیں ہے، اسلئے ممبئی کے تعلق سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کی آبادی اِدھر اُدھر نہیں بلکہ اوپر کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مطلب یہ کہ ممبئی کی آبادی اب کثیر منزلہ عمارتوں کی وجہ سے بڑھ رہی ہے یعنی اُسی رقبے میں آبادی سمٹ رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ گھنی آبادی کے لحاظ سے ممبئی کو بین الاقوامی سطح پر دوسرا مقام حاصل ہے جہاں فی مربع کلو میٹر۲۸؍ہزار۱۹۶؍ افراد بستے ہیں۔ اس فہرست میں بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ کو پہلی پوزیشن حاصل ہے جہاں کی آبادی ۴۴؍ہزار ۵۰۰؍ فی مربع کلومیٹر ہے جبکہ دنیا کی اوسط آبادی۱۵؍ افراد فی کلو میٹرہے ۔ اس آبادی کو سمیٹنے کیلئے ممبئی میں بلند بالا عمارتوں کی شدید ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ اگر یہ کہاجائے کہ ممبئی کی بلند بالا عمارتیں، آسائش سے زیادہ یہاں کی مجبوری ہیں تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔
 روٹی، کپڑا اور مکان انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں لیکن ان ضروریات کی تکمیل کیلئے ایک اور اہم ضرورت ہے جس کی وجہ سے آج پوری دنیا پریشان ہے۔ وہ ہے ملازمت اور روزگار۔ ممبئی کی بلند بالا عمارتوں سے انسان کی ان میں سے ۲؍ اہم بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے۔ جی ہاں! ممبئی کی یہ اونچی اونچی عمارتیں جہاں اپنے شہریوں کو چھت فراہم کرتی ہیں وہیں یہ روزگار بھی مہیا کراتی ہیں۔ 
مضافاتی ممبئی کے ترقی پزیر علاقےتلوجہ میں تعمیرات کے شعبے سے بہت دنوں تک وابستہ رہنے والے ’الجبل گروپ‘ کے مالک ابوذر خان ان دنوں بھیونڈی میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ ایک چھوٹا موٹامکان بھی تعمیر ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے کئی ماہ تک کیلئے درجنوں افراد کے روزگارکا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔‘‘ ظاہر سی بات ہے کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ بے روزگاری کے عفریت نے پورے ملک کو اپنے شکنجے میں کس رکھا ہے، ممبئی اور مضافات کی بلند بالا عمارتیںایک بڑی تعداد کیلئے روزی روٹی کا سبب بنی ہوئی ہیں۔
یک اندازے کے مطابق ممبئی کے غیرمنظم شعبوں میں سب سے زیادہ روزگار کنسٹرکشن ہی کے میدان سے نکلتے ہیں۔ایک کثیر منزلہ عمارت کا تعمیراتی کام شروع ہوتا ہے تو اس کی تیاری کے آغاز سے اس میں مکینوں کے آجانے تک مزدوروں کے ساتھ ہی دیگر شعبوں سے بہت سارے افراد کی ضرورت پڑتی ہے جن میں آرکٹیکٹ، انجینئر، ڈیولپر ، کنٹریکٹر ، وائر مین، پلمبر، پینٹر ، مٹیریل سپلائر ، ڈرائیور اورمزدور اہم ہیں۔ ایک عمارت کی تعمیر سے کتنے مزدوروں کا مسئلہ حل ہوتا ہے،اس تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے ابوذرخان بتاتے ہیں کہ ’’۲؍ ہزار میٹر کے رقبے پر تعمیر ہونے والی ۲۱؍ منزلہ عمارت کے ایک پروجیکٹ کیلئے کم از کم ۴ سال تک ۲۰۰؍ افراد برسرِروزگار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کچھ اور لوگوں کی روزی روٹی اس زیر تعمیر عمارت سے جڑی ہوتی ہے ، جیسے جہاں سے ہم ٹائلس لاتے ہیں، ریتی، سیمنٹ اور کھڑکی دروازے کا سامان منگاتے ہیں یا عمارت میں لگنے والی اشیاء کی خریداری کرتے ہیں۔‘‘

 

کسی بھی نئی عمارت میں ایک اہم کام ’وائرنگ‘ کا بھی ہوتاہے۔ نوجوان شاعر شہزاد احمد شہزادؔ اسی شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کثیر منزلہ عمارت کی تیاری کے پہلے ہی مرحلے سے وائرنگ کا کام شروع ہوجاتا ہے اور یہ سلسلہ مکان کے ’گھر‘ میں تبدیل ہونے تک جاری رہتا ہے۔ اگر بہت محتاط انداز میں بات کریں تو بھی ایک کثیر منزلہ عمارت میں کم سے کم ۱۰؍ وائر مین مستقل طور پر مصروف رہتے ہیں اور جوں جوں گھر کے کام میں تیزی آتی ہے، توں توں اسٹاف کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔
چونکہ یہ کام مستقل نہیں چلتا، اسلئے ان کی ملازمت بھی مستقل نہیں ہوتی لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کے لوگ بے روزگار بھی نہیں ہوتے۔ ایک کام مکمل ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہوجاتا ہے۔ عمارت کا تعمیراتی کام مکمل ہوتے ہی اس کی تزئین کا کام شروع ہوجاتا ہے، جن میں سے ایک پلاسٹر آف پیرس یعنی پی او پی ہوتا ہے۔ نوی ممبئی میں پی او پی کے کاروبار سے وابستہ اکرم شیخ بتاتے ہیں کہ’’ہم ۵؍افراد کاایک گروپ ہے۔ہم کانٹریکٹ پر کام لیتے ہیں اور تمام ساتھی مل کراسے پورا کرتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ پوری بلڈنگ کا کام تنہا کسی کنٹریکٹر کو ملے۔ عام طور پر ایک ایک فلیٹ کا کام ہمیں ملتا ہے۔اس طرح ہم ایک فلیٹ کا کام ایک ہفتےمیں کرلیتے ہیں اور کبھی زیادہ کام رہا تو ۱۲؍ سے ۱۵؍ دن تک لگ جاتےہیں ، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ ہمارے پاس کام نہ ہو۔ ایک کام ختم ہونے سے پہلے ہی دوسرا کام مل جاتا ہے اورکبھی کبھار تو ایک ساتھ کئی کام مل جاتے ہیں جنہیں ہم لے ہی نہیں پاتے۔‘‘

 

ممبئی اور اطراف کی بات کریں تو ان دنوں بڑے پیمانے پر تعمیراتی کام ہورہے ہیں۔کچھ پروجیکٹ دھیمے دھیمے تو کچھ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ چل رہے ہیں۔اس کی وجہ سے ان دنوں اس شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں اور ہنرمندوں کی قلت پائی جارہی ہے۔ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تعمیراتی شعبے سے وابستہ ماہرین کا ان دنوں کافی ڈیمانڈ ہے۔ شیوپرکاش ایک لیبر کانٹریکٹر ہیں۔ یہ اترپردیش سے ممبئی آئے ہیں اور یہاں مکانات کی تعمیر کیلئے بلڈرس کو مزدور فراہم کرتے ہیں۔ ان کا یہی کہنا ہے کہ ’’ان دنوں ہر طبقے کا رجحان وہائٹ کالر جاب کی طرف ہے، اسلئےنئے لوگ اس شعبے میں کم آتے ہیں، اس کی وجہ سے تھوڑی دقت ہوتی ہے، ورنہ سچائی یہ ہے کہ ایک مزدور جتنا اس شعبے میں کما لیتا ہے، اتنا کسی اور شعبے میں مزدوری کرکے کمانا بہت مشکل ہے۔‘‘ مطلب صاف ہے کہ ممبئی کیلئے رقبہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر یہاں آبادی بڑھے گی تو آسمان چھونے والی عمارتیں بھی تعمیر ہوںگی اور جب یہ عمارتیں تعمیر ہوںگی تو بہت سارے افراد کا روزگار کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK