• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

تو کیا چھٹنی ضروری ہے؟

Updated: January 18, 2023, 12:17 AM IST | Mumbai

ء ۲۰۲۳کے ابتدائی پندرہ دن سال کے باقیماندہ تین سو پینسٹھ دنوں کے تعلق سے فکرمند کرنے والے ہیں۔

As of January, ninety-one tech companies of the country have said good-bye to twenty-four thousand employees.
جنوری تک ملک کی اکیانوے ٹیک کمپنیاںچوبیس ہزار ملازمین کو خدا حافظ کہہ چکی ہیں۔

 ۲۰۲۳ء کے ابتدائی پندرہ دن سال کے باقیماندہ تین سو پینسٹھ دنوں کے تعلق سے فکرمند کرنے والے ہیں۔ خدا خیر کرے! صورت حال یہ ہے کہ یکم سے پندرہ جنوری تک ملک کی اکیانوے ٹیک کمپنیاںچوبیس ہزار ملازمین کو خدا حافظ کہہ چکی ہیں۔ یہ صرف ہندوستان میں ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ملازمتوں سے برطرفی کا سلسلہ گزشتہ سال بھی جاری تھا چنانچہ وقتاً فوقتاً خبریں آتی رہیں کہ میٹا (فیس بُک)، امیزون، علی بابا، ٹویٹراور فورڈ جیسی کمپنیوں نے بہت سے ملازمین کو برطرف کردیا ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۲ء میں چند بڑی کمپنیوں نے، جو عالمی سطح پر مشہور ہیں اور جن کا دائرۂ عمل بہت سے ملکوں میں پھیلا ہوا ہے، کئی کئی ہزار ملازمین کو چھٹی دی ہے۔ ہندوستان میں کئی اسٹارٹ اَپ کمپنیوں نے بھی چھٹنی کی ہے۔ دو روز قبل ایک اسٹارٹ اپ، جس کا نام شیئر چیٹ ہے، ۵۰۰؍ ملازمین کو ’’جہاں بھی رہئے خوش رہئے‘‘ جیسا پیغام دیا ہے۔
  اس کمپنی نے بڑی شائستگی کے ساتھ اپنے اُن ملازمین کو، جنہیں برطرف کیا جانا ہے، ایک خط روانہ کیا جس میں لکھا تھا کہ ’’آج ہم ایک مشکل قدم اُٹھانے جارہے ہیں جس کے تحت ہمیں اپنے باصلاحیت ملازمین میں سے ۲۰؍ فیصد کے ساتھ اپنا رشتہ منقطع کرنا ہوگا تاکہ موجودہ غیر یقینی معاشی ماحول میں کمپنی کی مالی صحت اور اس کے دوام کو یقینی بناسکیں۔ یہ نوبت اس لئے آئی کہ ہم نے ۲۰۲۱ء میں بازار کی صورتحال دیکھ کر عالمی مالی کیفیت کو ٹھیک سے آنکا نہیں تھا کہ آئندہ کیا ہوگا۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ غلطی کمپنیوں کی تھی جس کی سزا ملازمین کو مل رہی ہے۔ ‘‘
 اکنامک ٹائمس (ای ٹی ٹیک) کے مطابق ملازموں کی چھٹنی ابھی جاری رہے گی کیونکہ ہماری (اخبار ِمذکور کی) اطلاعات کے مطابق بڑی انٹرنیٹ فرمیں اپنے اخراجات کی تحدید کیلئے مزید برخاستگیوں کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ صرف ہندوستان میں ٹیک کمپنیوں نے گزشتہ دو سال کے دوران ۳۰؍ ہزار لوگوں کو کام سے نکالا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کمپنیوں نے کووڈ کے دَور (۲۰۱۹ء تا ۲۰۲۱ء) میں بڑی تعداد میں بھرتیاں کی تھیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان بھرتیوں کے بعد، کم از کم، پانچ بڑی کمپنیوں (فیس بک، ایپل، امیزون، نیٹ فلکس اور گوگل) نے اپنے ملازمین کی تعداد میں ۸۰؍ فیصد کا اضافہ کیا تھا۔ کووڈ کا دور ختم ہونے کے بعد بیشتر چیزیں معمول پر آگئیں اوراب یہ کمپنیاں محسوس کررہی ہیں کہ اُتنا منافع نہیں کمایا جاسکتا جتنا کہ کووڈ کے دور میں کمالیا گیا اس لئے بہتر ہے کہ اپنی مالیات بالخصوص اخراجات کو قابو میں رکھا جائے۔
  دوسرا سبب یہ ہے کہ بہت سی ٹیک کمپنیوں نے ’’مارے خوش گمانی کے‘‘ بڑے پیمانے پر نئی تقرریاں کی تھیں۔ ان میں سے چند نے جب محسوس کیا کہ ملازمین کی تنخواہوں کا بڑا خرچ کمپنی کی مالیات پر بوجھ ہوگا تب اُنہوں نے چھٹنی کا فیصلہ کیا۔ اس کی وجہ سے دیکھا دیکھی ہونے لگی اور دیگر نے بھی (جن کی مالیات مستحکم تھیں) ملازمین کو نکالنا شروع کردیا۔ انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی ’’نقل نویسی‘‘ ہے۔ ایک نے جو کیا دوسرے اس کی نقل کرنے لگے۔ ٹیک کمپنیوں کے ذریعہ چھٹنی کا یہی بڑا سبب ہے۔
 اگر عالمی معاشی سست رفتاری اور ہندوستانی معاشی زبوں حالی اسی طرح برقرار رہی اور دیگر شعبہ جات بھی وہی کرنے لگے جو ٹیک کمپنیاں کررہی ہیں تو جو صورت حال پیدا ہوگی اس کا تصور ہی خوفزدہ کرنے والا ہے۔  n

job Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK