ادھر کچھ دنوں سے نفرت کا بازار گرم کرنے کی مذموم کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ مساجد کے خلاف اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
EPAPER
Updated: December 17, 2024, 4:58 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
ادھر کچھ دنوں سے نفرت کا بازار گرم کرنے کی مذموم کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ مساجد کے خلاف اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
کسان، ایک بار پھر شمبھوبارڈر پر ڈٹ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس تعلق سے کئی طرح کے تبصرے کئے جارہے ہیں۔ سُربھی مراڈیا نے سندھو بارڈر کی ویڈیو پوسٹ کیا اور لکھا کہ’’کسان دہلی آرہے ہیں تو سندھو بارڈر پر انتظامیہ نے سیکوریٹی بڑھادی ہے، ملک کے کسانوں کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جارہاہے۔ اتنی سیکوریٹی ہندچین سرحد پر بڑھائی گئی ہو تی تو چین ہماری زمین نہیں چھینتا‘‘ رمن دیپ سنگھ مان نےپوسٹ کیا کہ ’’ریلائنس مال میں باجرا ۱۹۸؍روپے کلو، اس طرح ایک کوئنٹل کی قیمت ہوئی۱۹؍ ہزار ۸۰۰؍سوروپے۔ اگر ایم ایس پی پر خرید رہے ہو تو کسان کو ملیں گے۲۴۰۰؍ روپے فی کوئنٹل۔ آپ لوگ ۱۹؍ ہزار ۸۰۰؍ روپے کوئنٹل باجرا ہنس کر خرید رہے ہو لیکن اسی باجرا کے کسانوں کو ۲۴۰۰؍ روپے کوئنٹل ملے، اس کیلئے ایم ایس پی گیارنٹی قانون کے آندولن کے خلاف ہو، سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ دنیش پروہت نے لکھا کہ ’’ملک کے کسان ایک بار پھر سڑکوں پر ہیں۔ وہ حکومت کے سامنے اپنی بات پیش کرنا چاہتے ہیں، سرکار سے اپنی محنت کا حق مانگنا چاہتے ہیں۔ کسانوں کو روکنے کیلئے بیریکیڈ لگائے گئے، آنسو گیس کے گولے داغے گئے، بے قصور کسانوں پر لاٹھیاں برسائی گئیں۔ ‘‘
ادھر کچھ دنوں سے نفرت کا بازار گرم کرنے کی مذموم کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ مساجد کے خلاف اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ انصارعمران ایس آر نے ایکس پر لکھا کہ ’’لیجئے سنبھل، بدایوں اور اجمیر کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ ہندتواکے نفرتی جموروں نے جونپور کی ۱۴؍ویں صدی کی اٹالا مسجد کوبھی مندر کہتے ہوئے عدالت میں عرضداشت دائر کردی ہے۔ برسراقتدار کی سرپرستی میں ایک ایسا کھیل کھیلا جارہا ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برباد کردے گا۔ ‘‘ صحافی سُکیش رنجن نے لکھا کہ’’اب اجمیر شریف۔ جب اخباروں کے صفحہ اول پر ہر روز مسجد کے نیچے شیولنگ ڈھونڈنے کی خبریں آنے لگیں تو یہ تشویشناک(بات) ہے۔ ‘‘
یاسر شاہ نے ’ہندو سینا‘ کے ایک اشتعال انگیز مکتوب کا عکس شیئر کرتے ہوئے برہم انداز میں لکھا کہ’’اجمیر شریف کے بعد اب دہلی کی جامع مسجد۔ کھودو کھودو، پورا ملک کھود ڈالو‘‘ کھودنے سے یاد آیا کہ اس معاملے پر معروف صحافی رویش کمار کی ایک ویڈیو رپورٹ بڑی پسند کی جاری ہے، جسے یوتھ اگینسٹ ہیٹ نےشیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’سنبھل جامع مسجد کے نیچے مندر ہے، اجمیر شریف کے نیچے مندر ہے، ۱۶؍ لاکھ مندر ہونے کے باوجود آج جگہ جگہ پر مندر تلاش کئے جارہے ہیں۔ رویش کمار کے مطابق یہ کام بہت دھیما چل رہاہے۔ کیوں نہ سبھی ۱۴۰؍کروڑ ہندوستانی پھاؤڑا، کدال لے کر پورے ملک کی زمین میں مندر کھوجنے میں لگ جائیں ؟ جب سبھی اس کام میں لگ جائیں گے تو یہ تعداد تیزی سے بڑھے گی، ہوسکتا ہے کہ کھدائی میں لوگوں کو پیٹرول، ڈیزل یا سونے کی کان مل جائے۔ ‘‘
اس ہفتے نفرت اور جھوٹ کے سوداگروں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ لگا ہے۔ یہ معاملہ ۲۰۲۱ء میں رونما ہوا تھا۔ اندور میں ایک غریب چوڑی فروش کو نفرتی چنٹوؤں نے جھوٹے کیس میں پھنسادیا تھا۔ عدالت نے اس غریب کو باعزت بری کردیا ہے۔ اس پر آکانشا ٹھاکر نے لکھا کہ ’’۲۰۲۱ء میں اندور میں تسلیم چُوڑی والے کی پٹائی کی تصویر آپ کو یاد ہوگی۔ فرضی آدھار کارڈ رکھنے اور پوکسو ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا۔ تسلیم چار مہینے جیل میں بھی رہے۔ آج کورٹ نے تسلیم کو سبھی الزامات سے بری کردیا۔ پولیس کوئی الزام کورٹ میں ثابت نہیں کرپائی۔ ‘‘ وائس آف آپریسڈ نامی اکاؤنٹ سے تبصرہ کیا گیا کہ’’تین سال بعد عدالت نے تسلیم کو باعزت بردی کردیا گیا، لیکن تسلیم کا جو وقت برباد ہوا اسے کون لوٹائے گا؟اور ان غنڈوں پر کب کارروائی ہوگی جنہوں نے تسلیم کو مارا پیٹا اور گالیاں دیں۔ ‘‘
یش بھارتی نے لکھا کہ ’’مسلم ہونے کے نام پر بی جے پی سرکار نے اندور میں چُوڑی فروش تسلیم کو جیل بھیج دیا، چار مہینے جیل میں رہنے کے بعد عدالت سے ضمانت مل گئی۔ الزام لگایاگیا فرضی آدھار کارڈ رکھنے کا، پوکسو ایکٹ(لڑکی سے چھیڑچھاڑکا)اور دیگر۔ لیکن ۲۰۲۱ء سے لے کر اب تک اندور پولیس کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرپائی، جس کے باعث تسلیم سبھی الزامات سے بری ہوگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ پولیس نے کس کے دباؤ میں کام کیا اور جھوٹ پھیلانے والے لوگوں کو سزا ہوگی؟ مسلم ہونے کے نام پر جن ملزمین نے ماحول خراب کیا ان پر کارروائی کون کرے گا؟‘‘
سہاسنی کلا نے بی بی سی نیوز ہندی کی خبر شیئر کرتے ہوئے سوال قائم کیا کہ’’ان لوگوں کیا سزا ہوگی جنہوں نے یہ من گھڑت سازش رچی؟ یہی لوگ مسئلے کی جڑ ہیں، مائے ہانرز‘‘ انور حسین نے لکھا کہ ’’اب ہونا تو یہ چاہئے کہ جس نے بھی یہ دفعات لگوائیں اب اس کے خلاف ہتک عزت کا کیس ہونا چاہئے، تب جاکر یہ سب بند ہوگا۔ تسلیم کو چاہئے کہ وہ وکیل سے ڈِیل کرلے اور ہتک عزت کا مقدمہ داخل کردے۔ وکیل سے کہہ دے کہ اسی فیصد آپ کا اور بیس فیصد میرا، جب تک یہ نہیں ہوگا تب تک ایسے معاملات رکنے والے نہیں ہیں۔ ‘‘ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد بھی تسلیم عرف بھورانے ایک رپورٹر سے بات چیت میں یہ کہا کہ’’ملک کے آئین پر میرا بھروسہ ہے، اور میرے ساتھ جس نے جو بھی کیا ہے میں انہیں معاف کرتا ہوں۔ ‘‘
جاتے جاتے کچھ ہلکی پھلکی بات ہوجائے۔ ٹیم انڈیاکے اسٹار بالر محمد سراج جوحال ہی میں ’ڈی ایس پی‘بھی بن چکے ہیں، کے نام ایڈیلیڈ ٹیسٹ کے پہلے دن ایک انوکھا ریکارڈ درج ہوتے ہوتے رہ گیا۔ ہوا یوں کہ ان کی ایک گیند کو اسپیڈ میٹر نے ۶ء۱۸۱؍ کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتاربتادیا۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سوشل میڈیا پر پھیل گئی۔ لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں کہ یہ کیسا’میاں میجک‘ ہوگیا۔ شعیب اختر، شان ٹیٹ، اسٹارک جیسے ’دُھرندر‘ جو نہ کرسکے وہ ڈی ایس پی صاحب نے کردکھایا۔ پھر میچ انتظامیہ نے تصحیح کی کہ تکنیکی خرابی کے سبب ایسا ہوا۔ لیکن سوشل میڈیا کے شگوفے باز کہاں نچلا بیٹھنے والے ہیں۔ وہ ’ڈی ایس پی‘ صاحب پر مِیم اور مزاحیہ تبصرے کرکے انہیں اسی رفتار سے ٹرول کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔