• Thu, 02 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’تاریخ آپ کو ایک قابل وزیر اعظم کے طور پر یاد رکھے گی‘‘

Updated: December 29, 2024, 3:07 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

محمد فیصل نامی فیس بک اکاونٹ سے لکھا گیا کہ’’آہ ڈاکٹر منموہن سنگھ! کاش ملک کے پاس آپ کا کوئی نعم البدل ہوتا۔ ‘‘

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

محمود رام پوری کاایک مشہور شعر ہے کہ’’موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس/یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کیلئے‘‘ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی رحلت پر ایسا ہی کچھ منظرہے۔ کیا اپنے کیا پرائے، کیا حامی کیا مخالفین، سبھی ان کی رحلت پر غمزدہ ہیں۔ سوشل میڈیا کو بھی اس نابغہ روزگار شخصیت کے دنیا سے اٹھ جانے کا ملال ہے۔ 
اسماعیل وفا نامی صارف نے اپنی فیس بک پوسٹ میں یوں خراج عقیدت پیش کیا ’’ملک کے دوسرے ’ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر‘ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک کی معیشت کو اس وقت نئی راہ پر ڈالا جس وقت لندن اسکول آف اکنامکس کے سابق ڈائریکٹر ایل کے جھا نے وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ منموہن سنگھ جی کی اصلاحات نے معیشت میں نئی روح پھونک دی تھی۔ ۱۹۹۱ء میں ان کا پیش کردہ بجٹ جدید ہندوستانی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔ ‘‘پرشانت قنوجیا نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ’’ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کے دور میں آپ فلمیں بناسکتے تھے، ان کیخلاف رپورٹ لکھ سکتے تھے، ان کا مذاق اڑاسکتے تھے، ان پر کھل کر تنقید کرسکتے تھے۔ (ان کی مدت کار میں ) ہندوستان میں لوگوں کو جمہوری اقدار کا احساس ہوتا تھا۔ دلی خراج عقیدت۔ ‘‘ 
محمد فیصل نامی فیس بک اکاونٹ سے لکھا گیا کہ’’آہ ڈاکٹر منموہن سنگھ! کاش ملک کے پاس آپ کا کوئی نعم البدل ہوتا۔ ‘‘ ندیم عبداللہ فیت والا نے اپنی فیس بک وال پر منموہن سنگھ کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے ایمانداری سے یقین ہے کہ تاریخ مجھ پر میڈیا یا اس معاملے میں حزب اختلاف جماعتوں سے زیادہ مہربان ہوگی۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے یہ الفاظ اُن کے درد اور اُن کے ساتھ کی گئی نا انصافی كو بیان کرتے ہیں۔ گو کہ وہ حادثاتی طور پر وزیر اعظم بنے لیکن یقین مانئے کہ وہ’۵۶‘ انچ کا سینہ رکھنے والے وزیر اعظم سے کہیں زیادہ طاقتور اور قابل تھے۔ اُن کے دور میں لئے گئے تین عظیم فیصلے: رائٹ ٹو انفارمیشن، منریگا اور رائٹ ٹو ایجوکیشن۔ آج بھی کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہیں ... تاریخ آپ کو ایک ایماندار، بہادر اور قابل وزیر اعظم کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔ الوداع منموہن سنگھ جی۔ ‘‘
ایڈوکیٹ پرنئے اجمیرا نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ’’ کیوں کسی کی اہمیت کا احساس ا س کے جانے کے بعد ہوتا ہے؟ شاید اسی لئے ڈاکٹر منموہن سنگھ جی نے اپنی آخری پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ تاریخ میرے ساتھ زیادہ مہربان ہوگی.. آج ملک کو انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ معافی بھی مانگنی چاہئے۔ ‘‘سینئر صحافی شکیل اختر نے منموہن حکومت کے دور کو یاد کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ’’سارے سفارتخانوں، وزیر اعظم اور وزراء کے گھروں کا سامان زیادہ تر خان مارکیٹ ہی سے جاتا ہے۔ یہ منموہن سنگھ کے وزیراعظم بننے کے کچھ دنوں کے بعد کی بات ہے، مارکیٹ کا مشہور مٹن فروش بولا ہم تو برباد ہوگئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو کہنے لگا واجپائی صاحب کے یہاں اتنا بڑا بڑا آرڈر جاتا تھا مگر یہ نئے وزیراعظم نہ کھاتے ہیں اور نہ کھلاتے ہیں۔ کچھ جاتا ہی نہیں ہے۔ سی پی ڈبلیو ڈی کے افسر بھی پریشان تھے۔ پی ایم ہاؤس کے سامان میں کچھ خرابی آجاتی تھی تو وہ بدلنے کی بات کرتے مگر منموہن سنگھ کہتے تھے کہ کیا یہ ٹھیک نہیں ہوسکتا؟ سرکاری محکموں کو مرمت کے بجائے نیا سامان خریدنے میں زیادہ دلچسپی کیوں ہوتی ہے؟ سنگھ صاحب اسی کو ٹھیک کرواکر کام چلانے کی بات کرتے۔ اور ان کی اہلیہ ان سے بھی (ایک ہاتھ) آگے تھیں وہ مرمت کا پیسہ پیشگی دینے لگی تھیں۔ افسروں کو لینا پڑتا تھا۔ وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ بہت بااصول تھے۔ سادگی، شرافت اور سرکاری تام جھام سے انہیں کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ درحقیقت منموہن سنگھ ایک عالم تھے، ریاکاری سے انہیں کوئی مطلب نہیں تھا۔ ‘‘
ڈاکٹر مونیکا سنگھ نے سنگھ صاحب کی کالی پیلی ٹیکسی سے اترتے وقت کی ایک پرانی تصویر کو کیپشن دیا کہ’’زمانہ نہ کرسکا اس کے قد کا اندازہ /وہ آسمان تھا مگر سرجھکاکے چلتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب جیسا اب پھر کوئی نہ ہوگا۔ ‘‘ سیاسی مبصر آدیش راول نے لکھا کہ’’ ڈاکٹر منموہن سنگھ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کمزور وزیراعظم تھے، پھر بھی وہ پریس کانفرنس کرتے تھے۔ پھر بھی نیوکلیئرڈیل کی۔ پھر بھی ٹوجی معاملے میں بڑے کاروباریوں کو جانچ کیلئے سی بی آئی دفتر بلوایا۔ پھر بھی ملک کو غذا، تعلیم، معلومات، منریگا کا حق دیا، جو کام نہ کرسکے وہ یہ تھا کہ ان سب کی تشہیر نہیں کی۔ ‘‘ابھینو پانڈے نے لکھا کہ’’ کم بول کر زیادہ کام کرنے والے لیڈر کے طور پر یاد رکھے جائیں گے ڈاکٹر منموہن سنگھ صاحب۔ ‘‘
سچن گپتایوپی نامی صحافی نے لکھا کہ’’ بطور وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی آخری پریس کانفرنس ۳؍ جنوری۲۰۱۴ءکو ہوئی تھی جو ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک چلی۔ بہت تیکھے سوال ان سے کئے گئے تھے، سوال پوچھنے کی دوسری باری میری تھی، میں نے بدعنوانی اور ان کی شبیہ کے متعلق استفسار کیا لیکن وہ نہ ناراض ہوئے، نہ ہی جواب کو ٹالا۔ مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ ان کے مخالفین انہیں مَون(خاموش) کیوں کہتے تھے؟ جبکہ پوری مدت کار میں سب سے زیادہ سوالات کا سامنا انہوں نے ہی کیا اور کبھی جواب دینے سے نہیں بچے۔ ‘‘
سابق بیوروکریٹ اور بی جے پی کے یوپی حکومت کے ریاستی وزیر اسیم ارون نے لکھا کہ’’ میں ۲۰۰۴ء سے لگ بھگ تین سال ان کا باڈی گارڈ رہا، ایس پی جی میں پی ایم کی سیکوریٹی کا سب سے اندرونی گھیرا ہوتا ہے کلوز پروٹیکشن ٹیم، جس کی قیادت کرنے کا موقع مجھے ملا۔ اے آئی جی سی پی ٹی وہ شخص ہوتا ہے جو وزیر اعظم سے کبھی دور نہیں رہ سکتا۔ اگر کہیں ایک ہی باڈی گارڈ رہ سکتا ہے تو ساتھ یہ بندہ ہوتا ہے۔ ایسے میں ان کے ساتھ ان کے سائے کی طرح رہنے کی ذمہ داری میری تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی اپنی ایک ہی کار تھی ماروتی۸۰۰؍، جو پی ایم ہاؤس میں چمچاتی کالی بی ایم ڈبلیو کے عقب میں کھڑی رہتی تھی۔ منموہن سنگھ جی بار بار کہتے تھے کہ اسیم مجھے اس کار(بی ایم ڈبلیو) میں چلنا پسند نہیں، میری گڈّی تو یہ (ماروتی) ہے۔ میں سمجھاتا کہ سر یہ گاڑی آپ کی حفاظت کیلئے ہے۔ اس کے سیکورٹی فیچرز ایسے ہیں جس کیلئے ایس پی جی نے اسے لیا ہے لیکن جب جب قافلہ ماروتی کے سامنے سے نکلتا تو وہ ہمیشہ نظر بھر کر اسے دیکھتے، جیسے عزم دہرارہے ہوں کہ میں مڈل کلاس شخص ہوں اور عام آدمی کی فکر کرنا میرا کام ہے۔ کروڑوں کی گاڑی پی ایم کی ہے، میری تو یہ ماروتی ہے۔ ‘‘
قارئین یہ چند تاثرات ہیں جنہیں ہم سمیٹ لائے ہیں، ایسے ہی ان گنت پیغامات ہیں۔ جاتے جاتے اتنا ہی کہیں گے، مٹھی بھر نے جسے’ مون‘ کہا، اب دنیا اسے کہہ رہی ہے من موہنا!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK