مہاراشٹر الیکشن کے نتائج پر سوشل میڈیا پر بھی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ایک جانب مہاوکاس اگھاڑی کے حامی نتائج کو ناقابل یقین گردان رہے ہیں، وہیں دوسری جانب مہایوتی نواز خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 01, 2024, 4:17 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
مہاراشٹر الیکشن کے نتائج پر سوشل میڈیا پر بھی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ایک جانب مہاوکاس اگھاڑی کے حامی نتائج کو ناقابل یقین گردان رہے ہیں، وہیں دوسری جانب مہایوتی نواز خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔
مہاراشٹر الیکشن کے نتائج پر سوشل میڈیا پر بھی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ایک جانب مہاوکاس اگھاڑی کے حامی نتائج کو ناقابل یقین گردان رہے ہیں، وہیں دوسری جانب مہایوتی نواز خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔ غیر جانبدار حلقوں کی جانب سے کئی طرح کے سوالات بھی قائم کئے جارہے ہیں اور انتخابی حکمت عملی بھی زیر بحث ہیں ۔ حنیف پوانے نامی صارف نے ایکس پر لکھا کہ’’مہاوکاس اگھاڑی میں کوئی اسٹار کیمپینر نہیں تھا، سیٹوں کی تقسیم پر ابہام نے انہیں نقصان پہنچایا، ان کی تشہیری مہم بھی اڈانی امبانی کے گردگھومتی رہی، جو عوام کو متاثر نہیں کرسکی۔ ‘‘
امن شرما نے طنز کیا کہ’’ کہاں تو وزیراعلیٰ کے عہدہ کیلئے آپس میں لڑرہے تھے، اب تو اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی ملنا مشکل ہے۔ ’منیش مڈگل‘ نے تمسخر اڑایا کہ’’مہاراشٹر میں مہا وکاس اگھاڑی کا نام مہا وکاس پچھاڑی ہونا چاہئے، اپوزیشن میں بیٹھنے کے لائق بھی نہیں بچ پائے۔ ‘‘ مہا وکاس اگھاڑی کی ہار پر اشوک کمار پانڈے نے تبصرہ کیا کہ’’ کاغذی شیروں کے بھروسے جنگ نہیں جیتی جاتی ہے، لچر تنظیم، اوپر سے نیچے تک گھمنڈ، اور نااہل افراد کے حوالے ذمہ داریاں سونپنا جب تک بند نہیں ہوگا، یہ سب ہوتا رہے گا۔ ‘‘اس بار بھی کئی سینئر لیڈر اس الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے ہیں اس پر راجندر پاٹل نے لکھا کہ ’’کانگریس کے سینئر لیڈر بالا صاحب تھورات کا ہارنا سب سے بڑا دھچکا ہے۔ آج کے نتائج تو مہاوکاس اگھاڑی کے ساتھ ساتھ مہا یوتی کیلئے بھی سمجھ سے پرے ہیں ۔ ‘‘ اچیوت بھالے راؤ نے بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’مہاوکاس اگھاڑی کو مہاراشٹر کے عوام نے بھرپور ووٹ دئیے ہیں، عوام کا قصور نہیں ہے۔ باقی بدعنوانیاں، ہیرپھیر کیسے ہوئی اس پر غور کرنا چاہئے۔ ‘‘
مزے کی بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں کئی نامور چہروں نے قسمت آزمائی کی اور مقبولیت و شہرت کے باوجود وہ رائے دہندگان کو رجھانے میں ناکام رہے۔ اس ضمن میں نول کانت سنہا نے فلم اداکار اعجاز خان کی مثال دے کر لکھا کہ’’ یہ ہیں ایکٹر اعجاز خان، انسٹا گرام پر اُن کے۵ء۶؍ملین فالوورز ہیں، چندرشیکھر آزاد راون نے انہیں ورسوا سے امیدوار بنایا، انہیں محض۱۵۵؍ووٹ ملے ہیں، جمہوریت زندہ باد۔ ‘‘ہر انتخابی نتائج کی طرح اس بار بھی راہل گاندھی ٹرولز کے نشانے پر ہیں ۔ انہیں مہاراشٹر کی ہار کا ذمہ دار قراردیا جارہا ہے۔ ادھو ٹھاکرے اور شردپوار پر بھی طنز و تشنیع کے تیر چلائے جارہے ہیں ۔
قارئین کرام، جھارکھنڈ کے اسمبلی الیکشن کے نتائج پر بھی کافی کچھ لکھا جارہا ہے۔ بیشتر نے ہیمنت سورین کی پزیرائی کی۔ ابھینو پانڈے نے ریاست کے وزیراعلیٰ سورین کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ ’’ناقابل خطا نشانہ، پہلے بی جے پی سے اقتدار چھینا، پھر دوبارہ اس ستہ کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ جیل سے لوٹنے کے بعد بڑھی ہوئی طاقت کے ساتھ پے درپے سرکار بناکر تاریخ رقم کردی، ہیمنت سورین بندے میں دم ہے۔ ‘‘ تنویر شیخ نے لکھا کہ ’’ شمالی ہند میں ہیمنت سورین اپوزیشن کے بڑے لیڈر ہیں، انہوں نے نتائج سے یہ ثابت کردیا ہے۔ ‘‘آدتیہ نے لکھا کہ’’ ہیمنت سورین تو جھارکھنڈ کے اکلویہ ثابت ہوئے۔ ‘‘ دیپک اپادھیائے نے ہیمنت سورین کی اہلیہ کلپنا سورین کے متعلق لکھا کہ’’ جھارکھنڈ الیکشن میں جس طرح کلپنا سورین نے پارٹی کو سنبھالا اور محنت کی وہ قابل ستائش ہے۔ ہیمنت سورین کے جیل جانے کے بعد بھی انہوں نے جھارکھنڈ مکتی مورچہ کو مضبوطی سے آگے بڑھایا۔ ‘‘شاداب نے لکھا کہ’’جہاں ہیمنت سورین نے جھارکھنڈ میں ہندتوا کا مقابلہ سماجی انصاف کے موضوع کو درمیان میں رکھ کر کامیاب سے مقابلہ کیا، وہیں دوسری جانب مہا وکاس اگھاڑی بنٹیں گے تو کٹیں گے جیسے نیریٹیو سے نمٹنے میں پوری طرح ناکام رہے، ایم وی اے کا رویہ سماجی انصاف کے تئیں ڈھلمل تھا۔ ‘‘آئی ایم نیہا نائنٹی ایٹ نے لکھا کہ’’ کانگریس کی ہار کا سبب وہی ہے جو ہیمنت سورین کی جیت کا ہے۔ نوٹ کوئی ای وی ایم کا نام نہیں لے گا۔ ‘‘
انتخابی نتائج کی بازگشت میں دیگر عنوانات دب کر رہ گئے۔ قابل ذکر ہے کہ دو دن تک اڈانی کا امریکہ میں بدعنوانی کا معاملہ ٹرینڈ میں رہا۔ اس پر اشوک لالسوت نے لکھا کہ’’ پہلے تو مجھے یقین نہیں ہوا، لیکن یہ سچ ہے۔ گوتم اڈانی پر امریکہ میں بدعنوانی اور رشوت کا الزام لگا ہے اور یہاں ہندوستانی بازار میں اڈانی کے شیئرز گررہے ہیں ۔ ‘‘ سُکٹا بومبل نامی صارف نے اڈانی کے ترجمان کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے طنزاً لکھا کہ’’ چلو چلو صبح ہوگئی، ہندوستانی پرچم لگاکر جواب دینے کی باری آگئی۔ ‘‘
بھکتوں کا ایک حلقہ دعویٰ کررہا تھا کہ اڈانی معاملے کو گاہے بگاہے اٹھاکر ہندوستانی شیئر بازار کو متاثر کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ اس ضمن میں راج دیپ سردیسائی نے پوسٹ کیا کہ’’اگر وہاٹس ایپ یونیورسٹی اور دائیں بازو کے آئی ٹی سیل کے دعوؤں پر یقین کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جارج سوروس، حکومت ہند اور امریکی سرکار سے زیادہ طاقتور ہیں، ساتھیو حقائق کو دیکھیں ....‘‘ دی لیور ڈاک نے رام دیو اور اڈانی سے متعلق دو مختلف خبروں کے تراشے شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ ہیلتھ کیئر فراڈ، بزنس فراڈ، انڈیا، چین نہیں بن سکتا۔ لیکن چین بھی ہندوستان نہیں بن سکتا۔ ایک دہائی کے آتم نربھر بھارت نے کیا کچھ کردیا ہے ہمارے پیارے وطن کے ساتھ۔ ‘‘اے کے سنگھ نے کارٹونسٹ ستیش آچاریہ کا بنایا گیا خاکہ ’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’صدر نے بھری پارلیمان میں اڈانی کے پروجیکٹ رد کئے، ایوان نے تالیاں بجاکر فیصلے کا استقبال کیا، کئی اراکین پارلیمان خوشی سے جھوم اٹھے، سب مسرور تھے، پرجوش تھے. نوٹ: یہ سب کینیا کی پارلیمنٹ میں ہوا، بھارت کی سنسد میں نہیں ۔ ‘‘شردسری گھوش نے ایک تصویر شیئر کی جس میں درجن بھر افراد ’وی سپورٹ اڈانی‘ کا بینر اٹھائے کھڑے ہیں ۔ گھوش نے لکھا کہ’’ یہ ہیں کم آئی کیو والے اندھ بھکت، جو اپنے ہی ہم وطن کاروباری کے ہاتھوں لوٹے جارہے ہیں، لیکن پھر بھی اس کی ہی حمایت کررہے ہیں، اسلئے میں کہتا ہوں کہ تعلیم ہر ایک کیلئے کتنی ضروری ہے۔ ‘‘