Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’ دھارمک استھل بھی سہم کر اپنے آپ کو ڈھک لیتے ہیں‘‘

Updated: March 16, 2025, 2:26 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

ہولی کے موقع پر مختلف شہروں میں مساجد کو ترپال سے ڈھانک دئیے جانے اور مساجد کے سامنے شرانگیزیوں پر بہتوں نے اظہار تشویش کیا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اس ہفتے ہولی اور رمضان کی فضول بحث کا رنگ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی چڑھا ہوا تھا۔ نفرتی چنٹوؤں نے زمین پر اور ٹرولز نے سوشل میڈیا کے ذریعہ کھل کھیلنے کی پوری کوشش کی۔ یہی سب تھا کہ ایکس فیڈ، فیس بک وال، انسٹا فیڈ جدھر نظریں دوڑائیں کہیں نہ کہیں نفرت بھرا معاملہ طبیعت کو بےزار کررہا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر حساس دل اس بڑھتی نفرت انگیزی کو محسوس کررہا ہے۔ ہولی کے موقع پر مختلف شہروں میں مساجد کو ترپال سے ڈھانک دئیے جانے اور مساجد کے سامنے شرانگیزیوں پر بہتوں نے اظہار تشویش کیا۔ 
ایجوکیٹر اور موٹیویشنل اسپیکر وجیندر چوہان نے ترپال سے ڈھکی ہوئی چند مساجد کی تصاویر کیساتھ لکھا کہ ’’ ہال آف شیم! اگر آپ ملک کی اس حالت زار پر شرمسار نہیں تو آپ ہی اس شرمندگی کی وجہ ہیں۔ ‘‘شرون گرگ نے لکھا کہ ’’دھرم جب آنکھوں پر پٹیاں چڑھا لیتا ہے تو دھارمک استھل بھی سہم کر اپنے آپ کو ڈھک لیتے ہیں۔ ‘‘ کرشنا کانت نے پر تشویش و تنبیہی انداز میں لکھا کہ ’’ سیکڑوں سال کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ جب ہندو تہوار کے دوران مسلم عبادتگاہوں کو ڈھانپا جارہا ہے۔ مغل دور میں یا برٹش راج میں ایسا ہوا ہومجھے علم نہیں۔ اس سے دنیا بھر میں ہندوؤں کی بدنامی تو ہوگی ہی، یہ ہندوستانی تہذیب کے خلاف ہے، یہ آئین کے خلاف ہے، یہ جمہوریت کے خلاف ہے اور یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ میں یہ مرتے دم تک نہیں بھول سکتا کہ ہماری ہولی کی چوپال میں شبراتی چچا ڈھول بجاتے تھے۔ ایسا کیا ہوا کہ ہر شہر میں غیر ہندو دھرم استھل برداشت نہیں ہوسکتے۔ یہ طالبان اور آئی ایس ایس جیسا ہے۔ سماج یہی چاہتا ہے تو یہی سہی، لیکن اس سے ہم دنیا میں منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس دیش میں ایسی سرکار ہے جو کسی کام کی نہیں۔ جس سے معمول کا انتظام بھی سنبھالا نہیں جا سکتا۔ ایسی ناکارہ سرکار سماج کو تہس نہس کرتی ہے۔ آج وہی ہورہا ہے۔ ‘‘
مہاراشٹر کے راجا پور میں شمگا ہولی کے دوران جو افسوسناک معاملہ پیش آیا، وہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہا۔ ذاکر علی تیاگی نے راجا پور معاملے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’مہاراشٹر کے رتناگری میں ہولی اتسو کے نام پر سڑک پر اتری بھیڑ مسجد کا گیٹ توڑکر اندر گھسی اور مسجد کی دیواروں اور نمازیوں پر گلال پھینکا، جس وقت یہ ہوا، اُس وقت مسجد میں تراویح کی نماز ادا کی جارہی تھی...‘‘ اس پوسٹ کے ذیل میں گیانیندر اوستھی نے تبصرہ کیا کہ’’ اخلاقی، مذہبی، روحانی، سیاسی، سماجی نامردی کی یہ ایک مثال ہے۔ گہری احساس کمتری سے پر، نفرت سے تیار بھیڑ ہے یہ۔ یہ ہندوستان کی جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے۔ یہ ہندوؤں کے تہواروں، دھرم کا متشدد، سازشی اور زہریلی سیاست کے ذریعہ اغواء ہے۔ ‘‘ 
ڈاکٹر مکیش کمار نے اس معاملے پر لکھا کہ’’یہ پاگلوں کی بھیڑ ہے۔ یہ ہندو ملیٹنٹس کے ذریعے پیدا کردہ پاگل پن سے متاثرہ لوگ ہیں، جنہیں سماج سے مطلب ہے، نہ دیش سے۔ درحقیقت یہ دیش دروہیوں کی بھیڑ ہے۔ اس سے بڑا دیش دروہ کیا ہوسکتا ہے کہ آپ دوسرے مذہب کی عبادتگاہوں کو نشانہ بناکر ملک کو دنیا بھر میں بدنام کریں۔ یہ ہندو مذہب کے رکشک نہیں بلکہ اسے داغدار کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ ہندتواوادی پارٹیوں کے ہتھیار ہیں۔ مودی، یوگی، شاہ دیش کو اس مقام پر لے آئے ہیں، جہاں کھلم کھلا یہ سب ہورہا ہے اور پولیس و سرکار منہ بند کرکے بیٹھی ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی نہیں لگتا کہ عدالتیں کام کررہی ہیں۔ ملک میں قانون کا راج ختم ہوچکا ہے۔ ‘‘
ایسا نہیں کہ ہر طرف نفرت ہی سر ابھاررہی ہے۔ کچھ معاملات ایسے بھی سامنے آئے جو روح کو سکون دینے والے ہیں۔ اشوینی سونی نے لکھنو کے ٹھاکر گنج کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا جس میں نماز جمعہ ادا کرکے اپنے اپنے گھر جانے والوں کا ہولی کھیلنے والے ہندو بھائی ہاتھ ملاکر استقبال کررہے ہیں۔ اس دوران کسی نے کسی پر گلال نہیں پھینکا۔ سونی نے لکھا کہ ہندو مسلم اتحاد کے ایسے مناظر میڈیا کے گدھوں سے برداشت نہیں ہوں گے، نہ ہی نفرتی عناصر سے (ایسے مناظر نے) اتحاد میں دراڑ کیلئے غلط بیانی کرنے والے غیر سماجی عناصر کے ارادوں کو ناکام کردیا۔ ‘‘
ہما ناز نے اسی طرح کا ایک ویڈیو ایکس پر شیئر کیا اور لکھا کہ ’’آج کی سب سے خوبصورت تصویر، یہ ویڈیو جامع مسجد سیلم پور کی ہے، جہاں نمازیوں پر ہندو بھائیوں نے پھول برساکر ہولی منائی۔ یہ تصویر سکون دیتی ہے دلوں کو، کتنی بھی نفرت پھیلا لو لوگوں میں، دلوں میں محبت تھی محبت رہے گی۔ ‘‘سماجوادی پرہاری اکاؤنٹ سے ویرار ایسٹ کا ایک ویڈیو شیئر کیا گیا جس میں لوگ بکرے کے گوشت کیلئے قطار بند نظر آرہے ہیں۔ لکھا گیا کہ ’’بھائی چارا آن ٹاپ - نفرتیوں کا پروپگنڈا فلاپ۔ حلال اور جھٹکا کے نام پر نفرت پھیلا رہے، سرکار کے منتری کو جنتا نے کرارا جواب دیا ہے۔ جالی دار ٹوپی پہن کر مٹن بیچ رہے مسلمان کی دکان پر ہندو بھائیوں کی بھاری بھیڑ۔ ‘‘
اس ہفتے کے وائرل ویڈیوز میں ایک ویڈیو ایسا بھی رہا جو آنکھوں کو سکون اور دلوں کو محبت کا پیغام دے رہا تھا۔ اس میں مسافر بردار ٹیمپو کی پچھلی نشستوں پر ایک کرتا ٹوپی پہنے چچا اور بھگوے لباس میں ملبوس ایک شخص خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دئیے۔ اسے محمد یحییٰ خان نے اپنی فیس بک وال پر شیئر کرکے کیپشن دیا کہ سلامت رہے دوستانہ ہمارا۔ پنیت کمار سنگھ نے ایک ویڈیو شیئر کی اور لکھا کہ’’ایک مسلمان کو نماز کیلئے تاخیر ہورہی تھی، تو ایک ہندو بھائی نے اس کی مدد کی۔ اس ملک کی خوبصورتی نریش سچدیو جیسے لوگوں سے ہے، انوج چودھری سے نہیں، ہندو مسلم اتحاد زندہ باد۔ ‘‘اس ہفتے کیلئے بس اتنا ہی، جاتے جاتے عرفان صدیقی کا یہ پیغام سنا جائے ’’ نفرت کے خزانے میں کچھ بھی تو نہیں باقی / تھوڑا سا گزارے کے لئے پیار بچائیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK