سوشل میڈیا کیلئے گزرا ہوا ہفتہ ایک بار پھر ’کونٹنیٹ‘ سے بھرپور ثابت ہوا ہے۔ اس کی بھٹی ’انتخابات‘ کے’ایندھن‘ سے خوب دہک رہی ہے۔
EPAPER
Updated: May 05, 2024, 3:54 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
سوشل میڈیا کیلئے گزرا ہوا ہفتہ ایک بار پھر ’کونٹنیٹ‘ سے بھرپور ثابت ہوا ہے۔ اس کی بھٹی ’انتخابات‘ کے’ایندھن‘ سے خوب دہک رہی ہے۔
سوشل میڈیا کیلئے گزرا ہوا ہفتہ ایک بار پھر ’کونٹنیٹ‘ سے بھرپور ثابت ہوا ہے۔ اس کی بھٹی ’انتخابات‘ کے’ایندھن‘ سے خوب دہک رہی ہے۔ یہ کہنے میں ہرگز مبالغہ نہیں کہ ان دنوں نیٹیزنس کی انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہیں کیونکہ انہیں تجزیوں اور تبصروں کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک موضوعات مل رہے ہیں۔ انتخابی گہماگہمی، سیاسی بیان بازی اور میڈیا بائٹس سے یہ چمن لالہ زار ہے۔ آئی پی ایل مقابلوں کی اٹھا پٹخ بھی اس کا لہو گرمائے ہوئے ہے۔ دیش، دنیا کے حال چال پر بھی اسے بہت کچھ کہنے سننے کا موقع مل رہا ہے۔
چلئے اس تمہید کو یہیں سمیٹتے ہیں۔ موضوعات کا پٹارہ کھل گیا ہے۔ سب سے پہلے ’گلگوٹیئن‘ کا کارنامہ سنتے ہیں۔ گریٹر نوئیڈا کی اس نجی یونیورسٹی کے طلبہ زندہ باد مردہ باد کرتے ہوئےدہلی کی سڑک پر اُتر آئے۔ کہنے کو یہ کانگریس کے خلاف احتجاج کو نکلے تھے لیکن احتجاج کیوں کررہے اس کی انہیں بالکل خبر نہ تھی۔ آج تک کے آشوتوش نامی صحافی نے ان سے کچھ سوالات کئے جن پر ان کے آئیں بائیں شائیں جوابات نے انہیں ’ مِیم مٹیریئل‘ بنادیا۔ نیہا سنگھ راٹھور نے طنز کیا کہ’’گلگوٹیا یونیورسٹی والوں نے انجانے میں کل دیش پر بہت بڑا احسان کردیا۔ انہوں نے ملک میں ہوئے عقل گھوٹالے کو میڈیا کے سامنے اجاگر کردیا۔ ملک کا نوجوان کتنا فکر مند اور بیدارمغز شہری بن گیا ہے یہ بتانے کیلئے پورا ملک گلگوٹیا والوں کا قرضدار رہے گا۔ ‘‘ داراب فاروقی نے لکھا کہ’’ اگر میں گلگوٹیا کے طلبہ کے والدین میں سے ایک ہوتا تو بہت پریشان ہوتا۔ وہ سادہ ہندی اور انگریزی نہیں پڑھ پاتے۔ وہ واضح طور پر ایک جملہ بھی نہیں کہہ سکتے۔ میرے دس سال کے بیٹے کی اظہار خیال کی صلاحیت ان یونیورسٹی کے طلبہ سے بہتر ہے۔ یہ فکرمندی کی بات ہے۔ ‘‘ پرشانت بھوشن نے لکھا کہ ’’کل نوئیڈا کی گلگوٹیا یونیورسٹی سے کچھ طلبہ کو کانگریس کیخلاف احتجاج کرنے کو بھیجا گیا، ان کی کتنی سمجھ ہے، کتنا پڑھ پاتے ہیں، آپ خود دیکھ لیجئے۔ اصل میں انہوں نے وہاٹس ایپ یونیورسٹی سے پڑھائی کی ہے۔ ‘‘
کرناٹک کا سیکس اسکینڈل بھی نیٹینزنس کیلئے ’چنتا کا وشے‘رہا۔ کلیدی ملزم پرجول ریونّا کے ملک سے فرار ہونے پر لوگوں نے سوالات قائم کئے۔ ریونّا جنتادل سیکولر کے لیڈر اور لوک سبھا امیدوار ہیں۔ اس معاملے پر لوگوں نے بی جے پی پر بھی تنقید کی کہ اسے اپنی حلیف پارٹی کے لیڈر کے کرتوتوں کا علم نہیں تھا۔ الکا لامبا نے لکھا کہ ’’وزیراعظم مودی میں ہمت ہے تو بھگوڑے رکن پارلیمان ریونّا کو بیرون ملک سے پکڑکر لائیں۔ ‘‘ اتل چورسیا نے حکومت نواز خاتون صحافیوں کی مذکورہ معاملے پر خاموشی پر سوال کیا کہ’’ان اینکراؤں نے اپنا دھرم ایمان بیچ رکھا ہے۔ اسے پرکھنے کا ایک ذریعہ ریونّا سیکس اسکینڈل بھی ہوسکتا ہے۔ یہ مہیلائیں دراصل مہیلاؤں کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ کوئی شو نہیں۔ ‘‘نِودیتا شانڈیلیا نے لکھا کہ ’’پرجول ریونّا اپرادھی ہے، اسے پناہ اور ٹکٹ دینے والی پارٹی اپرادھی اور اسکے اپرادھوں پر پردہ ڈالنے والا میڈیا بھی اپرادھی ہے. حساب سب کا ہونا چاہئے۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : میرے ایک ووٹ سے بہت فرق پڑے گا
ایسٹرا زنیکا کے اپنی کورونا ویکسین(کووی شیلڈ) کے متعلق سائیڈ افیکٹ کے اعتراف سے کھلبلی مچ گئی ہے۔ اس پر ہنگامہ مچا ہوا ہے۔ منیشا چوبے نے لکھا کہ’’ چندہ دو، دھندہ لو، باون کروڑ کا چندہ ویکسین بنانے والی کمپنی سے لیا گیا۔ آج پورا ملک دہشت میں ہے، اس خبر کے آنے کے بعد۔ لوگ ڈرے ہوئے ہیں کہ پتہ نہیں کب کیا ہوجائے۔ ہمارے صاحب کو اس پر پورے دیش کو بیان دینا چاہئے۔ ‘‘اشوک کمار پانڈے نے طنز کا نشتر یوں لگایا کہ’’ویکسین کا کریڈٹ صاحب کا، اور سائیڈ ایفیکٹس کے ذمہ دار نہرو جی۔ بات ختم۔ ‘‘
الیکشن میں ’ مسلمان‘ مدعا تو نہیں لیکن’ مُدّا‘ بنادئیے گئے ہیں۔ اپوزیشن ان کا نام لینے سے خائف ہے اور برسراقتدار کی بیان بازی ان کے بغیر ادھوری نظر آرہی ہے۔ اس حوالے سے پارتھ ایم این نے لکھا کہ’’ ووٹ جہاد۔ خواتین و حضرات دنیا کی بڑی جمہوریت کے وزیراعظم یہ پیش کررہے ہیں۔ ہر دن پستی کی ایک نئی حد۔ ‘‘ کاروان نامی صارف نے وزیراعظم کے ووٹ جہاد والی ایکس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے تلخ سوال کیا کہ ’’الیکشن کمیشن کو تو انہیں انعام دینا چاہئے جو کہہ رہے ہیں جائیے اور ووٹ دیجیے۔ ووٹ دینے جائیں = ووٹ جہاد۔ اس میں غلط کیا ہے۔ وزیراعظم ہمیشہ مسلمانوں کو کیوں نشانہ بناتے ہیں ؟ وہ ہمیشہ مسلمانوں کو استعمال کرکے کیوں ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں ؟‘‘
قارئین کرام! آپ نے خبر پڑھی ہوگی کہ بنارس میں وزیراعظم کے سامنے ایک ممکری آرٹسٹ نے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ ان صاحب کا نام شیام رنگیلا ہے جو وزیراعظم کی آواز و انداز کی ہوبہو نقل اتارتے ہیں۔ اسی نسبت سے وہ شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ابتداء میں اس اعلان کو ہر کسی نے مذاق سمجھا لیکن شیام نے کہہ دیا کہ وہ سنجیدہ ہیں۔ شاکر علی نامی صارف نے اس پر چٹکی کاٹی کہ ’’ملک کو کامیڈی پسند ہے تو شیام رنگیلا میں کیا برائی ہے۔ ‘‘ انیل چودھری نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ ’’یہ ہیں کامیڈین شیام رنگیلا، جو مودی جی کی ممکری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کہیں سورت اور اندر جیسا وارانسی میں نہ ہوجائے کہ کوئی امیدوار الیکشن لڑنا ہی نہ چاہے، اسلئے انہوں نے خود ہی مودی جی کے مقابل الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ‘‘ لوگ کہہ رہے کہ شیام جیت نہیں سکتے لیکن الیکشن میں رنگ بھر دیا ہے۔ ہمیں اس بات پر عرفان صدیقی کا شعر یاد آگیا ’’رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ /کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے۔ ‘‘
سوشل میڈیا پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کیلئے ٹیم انڈیا کے اعلان پر بھی کافی بحثیں ہوئیں۔ رنکو سنگھ، رتوراج گائیکواڑ اور کے ایل راہل کے چاہنے والوں نے ناراضگی ظاہر کی کہ انہیں کیوں نظرانداز کیا گیا۔ جو کھلاڑی منتخب ہوئے ان کے فارم میں نہ ہونے پر بھی اندیشوں کا اظہار کیا گیا۔ آئی پی ایل میں آرسی بی کے تقریباً باہر ہوتے ہوتے اس کے کھلاڑیوں کے رنگ میں آجانے پر بھی سوال قائم کئے گئے۔ خیر، ہمارے پاس موضوعات کے پٹارے میں اور بھی بہت کچھ ہے، لیکن اس ہفتے کیلئے بس اتنا ہی۔ پرسوں یعنی ۷؍ مئی کو تیسرے مرحلے کی پولنگ ہونی ہے اگر آپ بھی ایسے حلقے میں ہیں تو اپنی ’انگلی‘ کی طاقت دکھانے کیلئے تیار رہیں۔