یہ سوال دراصل اس آڈیو کلپ کا ہے، جس میں مبینہ طور پر شندے حامیوں نے کنال کامرا کو فون پر دھمکایا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کالر نے جب کنال کو دھمکایا کہ کدھر ہے تو بتا تو کنال نے جھٹ کہا تمل ناڈو آجا۔ جو کالر کنال پر غرارہا تھا وہ جواب پاکر کنفیوز ہوگیا۔
’’نیا بھارت‘‘ نے ’’نئے بھارت‘‘ کو ’’آہت‘‘ کردیا ہے۔ نتیجہ آپ سب دیکھ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ’’بوال‘‘ مچا ہوا ہے۔ ہفتے بھر سے ’’تھانے کی رکشا‘‘، ’’ہم ہوں گے کنگال ایک دن‘‘ اور ’’آپ کا ٹیکس کا پیسہ ہورہا ہے ہوا ہوائی‘‘ جیسے پیروڈی گانے گنگنائے جا رہے ہیں۔ ’’یہ کوئی چائے ہے‘‘اور ’’تمل ناڈو کیسے پہنچے گا بھائی‘‘جیسے میمز (memes) ایکس، فیس بک پر ہر دوسرے تیسرے پوسٹ میں نظر آرہے ہیں۔ کاؤ مما نامی اکاؤنٹ نے ایسی ہی ایک اے آئی تصویر کو کیپشن دیا کہ تمل ناڈو میں کیسے پہنچے گا بھائی؟ اس تصویر میں زعفرانی پٹکا کندھوں پر ڈالے کچھ لوگ نظر آرہے ہیں جنہیں بھکت /سیاسی کارکن دکھایا گیا ہے۔ یہ سوال دراصل اس آڈیو کلپ کا ہے، جس میں مبینہ طور پر شندے حامیوں نے کنال کامرا کو فون پر دھمکایا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کالر نے جب کنال کو دھمکایا کہ کدھر ہے تو بتا تو کنال نے جھٹ کہا تمل ناڈو آجا۔ جو کالر کنال پر غرارہا تھا وہ جواب پاکر کنفیوز ہوگیا۔ اس نے پھر مذکورہ سوال کیا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا ہے۔ مورتی نین نے لکھا کہ ’’جب لطیفے سے سرکار ہِل جائے اور بھکت بوکھلا جائیں تو سمجھ لوکہ کامیڈین نے سچ بول دیا۔ ‘‘
ایک اسٹینڈاپ کامیڈی کے ویڈیو پر ہنگامہ دیکھ کر منوج اروڑہ نے لکھا کہ ’’جسپال بھٹی صحیح دور میں پیدا ہوئے تھے۔ ‘‘ ڈاکٹر مکیش کمار یوں برہم ہوئے کہ ’’کنال کامرا کا ویڈیو شندے سینکوں کو اتنا چبھ گیا ہے کہ ہوٹل میں جاکر توڑپھوڑ کردی۔ اس نے ایسا کیا کہا کہ آپ ابل پڑے؟ جو بات پورا مہاراشٹر جانتا ہے، ملک جانتا ہے، سپریم کورٹ کہہ چکا ہے۔ وہی تو کہا اس نے۔ اب مہاراشٹر میں سرکار آپ کی ہے تو غنڈہ گردی پر اتر آئے۔ ‘‘
انڈین جیمس نامی صارف نے ایکس پر لکھا کہ’’ہندوستان واحد ملک ہے جہاں بے روزگاری، بلند شرح کے ٹیکس، خواتین کی سلامتی، لاء اینڈ آرڈر، مہنگائی، ریل بحران، روڈ سیفٹی پر غم و غصہ نہیں پھوٹتا۔ لیکن فلموں، کامیڈی شو اور اے آئی کے جوابات پر لوگ برہم ہوجاتے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر جین ۲۱؍ نامی صارف نے یوں چٹکی لی کہ ’’شیوسینا کارکنوں کے حملے کا مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ انہیں سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ انہوں نے ریکارڈ شدہ ویڈیو دیکھا ہے، اور جب وہ ہیبیٹیٹ پہنچے تو کنال کامرا وہاں نہیں تھے۔ ان کارکنوں میں سے ایک بولا’’ ایسے کیسے نہیں ہے؟ ابھی یہیں تھا، ویڈیو پر دیکھا ہم نے۔ ‘‘
کارتکیہ بترا نے لکھا کہ ’’دو سو سیٹوں سے زائد لاکر بھی اتنا غیر محفوظ پن؟ ایسا کیوں ہے دیویندر فرنویس جی؟ یہ احمقانہ اور ناقابل نظرانداز معاملہ ہے۔ کیا سیاستدانوں سے یہ سب برداشت کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی؟ کوئی اگر سیاستدانوں کے ایک دوسرے پر کسے جانے والے طعنوں اور تحقیر آمیز بیانات کی گنتی پر آجائے تو؟‘‘
ڈاکٹر جین نے راہل کنال کی تصویر کیساتھ یہ بھی لکھا کہ’’ انہوں نے ہیبیٹیٹ میں توڑپھوڑ کی، جہاں کنال کامرا نے پرفارم کیا تھا۔ یہ مہاشئے کھلی دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ اگلی بار بھی یہ سب بلاخوف دہرائیں گے۔ یہ ہے مہاراشٹر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال جہاں مجرم محفوظ ہیں اور کامیڈین و عام شہری غیر محفوظ ہیں۔ ‘‘
تنموئے او ایف سی نے ہیبیٹیٹ میں ہونیوالی توڑپھوڑ کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے وزیراعظم مودی کے بیان ’’تنقید جمہوریت کی روح ہے۔ ‘‘کا حوالہ دیا اور طنز کیا کہ ’’اب شندے سینا، وزیراعظم مودی کو بتارہی ہے کہ مدر آف ڈیموکریسی میں میک ان انڈیا کے تحت تنقید کو کیسے برداشت کرنا ہے۔ ‘‘ ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے لکھا کہ’’سپریم کورٹ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے ناگپور تشدد کے ملزم کے گھر پر بلڈوزر چلادیا گیا، صرف الزام لگاکر بلڈوزر چلانا غیردستوری عمل ہے۔ اگر کارروائی کرنی ہی ہے تو عدالت میں ثبوت دکھا کر سزا دلواتے، ان کے گھر والوں کی کیا غلطی تھی۔ شندے سینا کے غنڈوں کو کنال کے چٹکلوں سے اتنی تکلیف ہوئی کہ ایک کامیڈی کلب میں توڑپھوڑ کردی۔ کیا فرنویس ان غنڈوں کے گھر پر بھی بلڈوزر چلائیں گے؟ ہمارے نبیؐ کی شان میں گستاخی اور شرانگیزی کرنے والے بابا کے گھر پر بلڈوزر نہیں چلتا کیونکہ وہ سنسکاری ہے۔ حالانکہ اس نے جو کہا وہ جرم تھا۔ لیکن ایک چٹکلے سے اتنی تکلیف ہے کہ بی ایم سی سے لے کر وزیر اعلیٰ تک سب کنال کامرا پر ٹوٹ پڑے۔ ‘‘
قابل ذکر ہے کہ کنال کے’’نیا بھارت‘‘کو جہاں ایک کروڑ سے زائد ویووز اور ۷؍ لاکھ سے زائد لائیکس مل چکے ہیں وہیں ناظرین روپیہ، ڈالر، پاؤنڈ سمیت دیگر کرنسیوں میں بھی داد سے نواز رہے ہیں۔ اس تعلق سے جتیش (کی یو ٹک مائنڈ۹۹) نے کنال کامرا کے متنازع ویڈیو کے کمنٹ سیکشن کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’غیر حقیقی! یوٹیوب پر کنال کامرا کو دنیا بھر سے بڑے پیمانے پر مالی تعاون مل رہا ہے۔ کامرا نے وہ تلخ سچ کہا جسے کہنے کی ہمت کم لوگ ہی دکھاتے ہیں۔ یہ بھی دھیان رہے کہ کامرا نے اسٹینڈ اپ کامیڈی میں تقریبا چار پانچ سال بعد واپسی کی ہے۔ ‘‘ منیش سنگھ نے کنال کے ویڈیو کے اختتام پر دئیے جانے والے پیغام کی طرف توجہ دلائی جو اوشو کا قول ہے ’’جہاں خوف دم توڑدے، زندگی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ ‘‘ یہ سوچ کنال کامرا کے طرزعمل میں بھی نظر آرہی ہے۔ دھمکی اور قانونی چارہ جوئی کے اقدامات کے باوجود نہ وہ ڈرے ہیں، اور نہ پیچھے ہٹے ہیں۔ ایک کارٹونسٹ نے اسی صورتحال کا خاکہ کھینچا ہے جس میں کنال پشپا کے کردار میں کہتے ہیں فلاور نہیں فائر ہے۔
جاتے جاتے یوسف احمد انصاری کا یہ آئینہ دکھاتا ہوا سوال پڑھئے جو میرٹھ اور سنبھل پولیس کے عید کی نماز چھت اور سڑک پر نہ پڑھنے کےانتباہ کے پس منظر میں پوچھا گیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ وہ کون سا قانون ہے بھارت کا، جس کے تحت سرکار انتظامیہ ایک بھارتیہ شہری کو اپنے مکان، یا کسی نجی ملکیت کے آنگن، چھت، بیڈروم یا برآمدے وغیرہ میں عبادت/پوجا پاٹھ کرنے سے روک سکتے ہیں ؟‘‘