• Sun, 12 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

سوشل میڈیا راؤنڈاپ: ’’جیوتی با پھلے، ساوتری بائی اور فاطمہ شیخ ہمارے ہیرو ہیں‘‘

Updated: January 12, 2025, 6:20 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

پچھلے دنوں بی جی ٹی سیریز میں ٹیم انڈیا کی خواری کے سوشل میڈیا پر بڑے چرچے رہے۔ دل جلے مداح تو اپنا آپا ہی کھوبیٹھے۔ کنگاروؤں کے مقابل ہندوستانی شیروں کے بھیگی بلی بن جانے پر انہوں نے خوب پھپھولے پھوڑے۔

Jyoti Ba Phule. Photo: INN
جیوتی با پھلے۔ تصویر: آئی این این

پچھلے دنوں بی جی ٹی سیریز میں ٹیم انڈیا کی خواری کے سوشل میڈیا پر بڑے چرچے رہے۔ دل جلے مداح تو اپنا آپا ہی کھوبیٹھے۔ کنگاروؤں کے مقابل ہندوستانی شیروں کے بھیگی بلی بن جانے پر انہوں نے خوب پھپھولے پھوڑے۔ کوچ گمبھیر، کپتان روہت اور اسٹار بلے باز وراٹ کو خوب کھری کھوٹی سنائی گئی۔ انہیں ہی کیا سب کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اک واحد بمراہ تھے جو سلامت رہے۔ باقی سب کو لپیٹا گیا۔ سینئر کھلاڑیوں کو صلواتیں سنائی گئیں ۔ اپویورونالڈو نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ’’گھمبیر کے دور کوچنگ میں : ستائیس سال بعد سری لنکا سے سیریز میں ہار، ہوم گراؤنڈ پر پہلی بار پچاس رن پر پاری کا سمٹنا، ہوم ٹیسٹ سیریز میں شکست فاش، بارہ سال بعد بی جی ٹی ہارے، پہلی بار ڈبلیو ٹی سی سے اخراج‘‘ہم اس ضمن میں اور بھی تبصروں کا احاطہ کرنا چاہتے تھے وعدہ جو کر رکھا تھا۔ لیکن اتنے پر ہی اکتفا کیجئے۔ 
 چلئے جائزے کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ دنوں پہلے انفوسس کے سربراہ نارائن مورتھی نے کام کاج کا ہفتہ ۷۰؍ گھنٹے کا رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس بیان پر بڑی چیخ پکار مچی تھی۔ اب ایل اینڈ ٹی کے چیئرمین ایس این سبرامنین نے ایسا ہی ایک بیان دیکر بجھی چنگاری کو ہوا دے دی ہے۔ سبرامنین صاحب ۹۰؍ گھنٹے کام کی پر زور تائید کررہے ہیں ۔ ’’ریڈاِٹ‘‘ پر عام ہونیوالے ان کے بیان کے مطابق ان سے جب انٹرویوور نے سنیچر کو بھی اپنے ملازمین کو کام پر بلانے پر استفسار کیا تو انہوں نے جواباً کہا کہ مجھے اتوار کو بھی انہیں دفتر نہ بلاپانے کا ملال ہے۔ بقول ان کے ملازمین اس دن گھر پر رہ کر اپنی بیویوں کو کتنی دیر تک تکیں  گے۔ سوشل میڈیا حلقوں کو جب اس شوشے کی بھنک پڑی تو پھر نئی بحث تو چھڑنی لازمی تھی۔ چٹکلے بازیاں بھی ہوئیں اور طنز کے تیر بھی برسے۔ مِیمس کا جو طوفان اٹھا سو الگ۔ رمیش سری وتس نے شگوفہ بیانی کی کہ’’ ایل اینڈ ٹی کے ملازمین ۲۰؍ گھنٹے بچانے کیلئے پوری شدت سے انفوسس میں ملازمت کی درخواستیں کررہے ہوں گے تاکہ کچھ آرام ملےاور بیوی کو تکتے بیٹھ سکیں ۔ ‘‘ سوات کیٹ نامی صارف نے ایکس پوسٹ میں کسی فلم کا منظر شیئر کیا جس میں ایک اداکار(مورتھی) اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر دوسرے اداکار(سبرامنین ) سے کہہ رہا ہے کہ’’تم نے میرا اسٹائل کاپی کیا ہے۔ ‘‘ آفتاب عالم نے فیس بک پر تنخواہ کے تناظر میں موازنہ کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ’’پتہ چلا ہے کہ سبرامنین اپنے مزدوروں کےمقابلے۵۰۰؍ گنا زیادہ تنخواہ لیتے ہیں ۔ اپنے ملازمین کو ہفتے میں ۹۰؍ گھنٹے کام کرنے کا مشورہ دینے والے سبرامنین کی مالی سال۲۴۔ ۲۰۲۳ء کیلئے تنخواہ کل۵۱؍ کروڑ روپے تھی۔ چیئرمین کی تنخواہ اور کمپنی میں کام کرنے والے ملازمین کے پیکیج کا فرق دیکھئے کہ ۲۴۔ ۲۰۲۳ءمیں ملازمین کو ملنے والا اوسط پیکیج۹ء۵۵؍لاکھ روپے تھا۔ ‘‘ ٹی ایم سی کی شعلہ بیاں رکن پارلیمان مہوا موئترا نے لکھا کہ’’ ایل اینڈ ٹی کی داغ بیل ڈینش انجینئر لارسن اینڈ ٹبرو نے۱۹۳۸ء میں رکھی، آج (ان کا ملک) ڈنمارک ورک لائف بیلنس کے معاملے میں دنیا میں تیسرے مقام پر ہے۔ جی ڈی پی اور فی فرد آمدنی میں نویں مقام پر ہے، وہاں ہفتے کا اوسط کام کاج کادورانیہ ۳۴؍گھنٹے ہے۔ لہٰذا چیئرمین صاحب بھی زندگی جئیں (اور دوسروں کو بھی جینے دیں ۔ )‘‘
 سیکولر حلقے میں رہ کر نام بنانے والے دلیپ منڈل پالہ بدل چکے ہیں ۔ وہ دائیں بازو کے منظور نظر بنے گئے ہیں ۔ حرص کرم کی اندھی دوڑ میں وہ دائیں بازو کے نفرتی عناصر کو بھی مات دے رہے ہیں ۔ تازہ معاملہ فاطمہ شیخ کے متعلق ان کی یاوہ گوئی کا ہے۔ منڈل کی دریدہ دہنی دیکھئے کہ انہوں نے ساوتری بائی پھلے کی ساتھی فاطمہ شیخ کو ایک فرضی شخصیت قرار دے دیا اور یہ دعویٰ بھی کرڈالا کہ انہوں نے اس کردار کو گھڑا ہے۔ منڈل کی دروغ گوئی اور کذب بیانی پر بہتیروں نے سوال قائم کئے۔ تاریخی دستاویز اور مستند حوالہ جات کے ذریعہ ملک کی پہلی مسلم خاتون ٹیچر فاطمہ شیخ کی حیات و کار کو ثابت کیا گیا۔ ایکس پر’’آرایم بی ٹی انڈر اسکورٹویٹس‘‘نامی اکاؤنٹ سے تاریخی شواہد و حقائق پر مبنی طویل تھریڈ کیا گیا۔ اس صارف نے مزید لکھا کہ ’’دلیپ منڈل تم قلمکار، مفکر، یا دانشور نہیں ہو، بلکہ ایک گپ باز ہو۔ تم نے فاطمہ شیخ کے مذہب پر جو سوال قائم کئے، اس کا جواب تو بی بی سی مراٹھی کی رپورٹ میں شردھا کمبھوجکر نے صاف لفظوں میں دے دیا ہے کہ فاطمہ مسلمان تھیں ، اور میں نے جو تھریڈ لکھا ہے اس میں بھی فاطمہ شیخ کے سرنیم کے ثبوت دئیے ہیں ۔ تم نے ان کے وجود کو جھٹلانے کیلئے جتنے سوال قائم کئے، سب کے جواب موجود ہیں ۔ تم ہندی پٹی کے گوبر بھکتوں کو بے وقوف بنا سکتے ہو مہاراشٹر کے عوام کو نہیں ۔ یہ ہمارے نائیک، نائیکائیں ہیں ، اور ہم ان کی تاریخ پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ 
 بھنور میگھ ونشی نے ایک تحقیقی کتاب کے صفحات کا عکس شیئرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’اگر کسی کو فاطمہ شیخ کے وجود پر اشکال ہے تو وہ ریٹا رام مورتی گپتا کی کتاب پڑھ سکتا ہے، ہر سوال کا جواب اس میں ہے۔ فاطمہ کے سماج، والدین اور بھائی بہن، تعلیم، شادی اور تعلیم سے متعلق حقائق پر مبنی معلومات ہے۔ کتاب میں دئیے گئے حوالہ جات اور ماخذ مستند ہیں ۔ ‘‘فری لانس صحافی اور وائر اردو کے سابق مدیر مہتاب عالم نے فیس بک پر لکھا ہے کہ ’’دلیپ منڈل بہت پہلے ایکسپوز ہوچکے تھے، یہ آپ کی ہٹ دھرمی تھی کہ ایک فراڈ کو فراڈ کہنے سے بچتے رہے۔ باقی مارکیٹ میں بہت سارے منی منڈلس آچکے ہیں ، ان سے بچ کر رہئے نہیں تو ایک بار پھر سے پچھتانا پڑے گا۔ ‘‘ سجاتا ۱۹۷۸ء نے ایکس پر لکھا ہےکہ’’ فاطمہ شیخ کے متعلق ہر کتاب پر انہیں شبہ ہے، جس کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ پوچھئے ان سے کہ انہی کتابوث میں جیوتی با اور ساوتری پھلے کے بارے میں درج باتوں پر بھی انہیں اشکال ہے یا ان باتوں  کو وہ چپ چاپ تسلیم کرلیں گے؟ اگر باقی سب قبول ہے تو فاطمہ کیوں نہیں ؟ یہ تو اپنی سہولت سے حقیقت چننے والی بات ہوگی۔ ہیرو چننے میں ایسے سلیکٹیو ہونے سے ہی فاطمہ اب تک تاریخ سے باہر رہیں ۔ اصلی اکیڈمک تو آپ تب ہوں گے جب تمام کتابوں کے ہر ثبوت پر ایسے ہی بحث کریں گے۔ ورنہ تو آپ خود میں ایک جھول ہیں ۔ ‘‘n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK