ہندوستانی کرکٹ شائقین کیلئے گزرا ہوا ہفتہ ایک بھیانک خواب سا تھا۔ ہر کوئی یہ مان بیٹھا تھا کہ ورلڈ کپ ہمارا ہے۔ اس گمان و اعتماد کا سبب ہی بڑا پختہ تھا۔ ٹیم انڈیاٹورنامنٹ کے دس میچ لگاتار جیت کر فائنل میں دندناتے ہوئے پہنچی تھی۔
EPAPER
Updated: November 26, 2023, 2:58 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
ہندوستانی کرکٹ شائقین کیلئے گزرا ہوا ہفتہ ایک بھیانک خواب سا تھا۔ ہر کوئی یہ مان بیٹھا تھا کہ ورلڈ کپ ہمارا ہے۔ اس گمان و اعتماد کا سبب ہی بڑا پختہ تھا۔ ٹیم انڈیاٹورنامنٹ کے دس میچ لگاتار جیت کر فائنل میں دندناتے ہوئے پہنچی تھی۔
ہندوستانی کرکٹ شائقین کیلئے گزرا ہوا ہفتہ ایک بھیانک خواب سا تھا۔ ہر کوئی یہ مان بیٹھا تھا کہ ورلڈ کپ ہمارا ہے۔ اس گمان و اعتماد کا سبب ہی بڑا پختہ تھا۔ ٹیم انڈیاٹورنامنٹ کے دس میچ لگاتار جیت کر فائنل میں دندناتے ہوئے پہنچی تھی۔ کیا گیند باز کیا بلے باز ہر کوئی اپنی ’لَے‘ اور’ جَون ‘میں نظر آرہا تھا۔ محمد سمیع تو پورے ٹورنامنٹ میں مخالف ٹیموں پر قہر بن کر ٹوٹے تھے۔ انہوں نے سیمی فائنل کو بھی ’سمیع فائنل‘ بنادیا تھا۔ اس کے بعد تو ایسا لگا کہ یہیں سب کچھ فائنل ہوگیا ہے لیکن قسمت میں کچھ اور ہی لکھا ہوا تھا۔ فائنل مقابلہ توقع کے برخلاف رہا۔ ہندوستانی شیر’گیارہویں شکار‘ میں خود شکار ہوگئے۔ کنگارو کھیلے اور خوب کھیلے۔ یوں فائنل مقابلے کے نتیجے نے ہندوستانی شائقین کا دل توڑدیا۔ سنیچر سے اتوار تک ’’سی ڈبلیو سی۲۰۲۳ء، آسٹریلیا انڈیا فائنل، سی ڈبلیو سی فائنل، ورلڈ کپ، ٹیم انڈیا، کم آن انڈیا، چک دے انڈیا‘‘ جیسے ہیش ٹیگ ٹرینڈ میں تھے۔ ہرخاص و عام سوشل میڈیا پر ٹیم انڈیا کو نیک خواہشات پیش کرتا نظر آیا۔
مزے کی بات دیکھئے کہ کرکٹ کا جنون اور حب الوطنی کا خمار ایسا چڑھا کہ بی جے پی نے کم آن انڈیا کی پکار لگائی تو کانگریس نے بھی اس کی آواز میں آواز ملائی۔ کٹرسیاسی حریفوں کو یک زبان دیکھ کر لوگوں نے چٹکیاں بھی کاٹیں۔ اتوار کو میچ شروع ہوتے ہی پہلے پہل لوگوں نے پرامید باتیں کہیں لیکن جیسے جیسے ٹیم انڈیا کے ہاتھ سے میچ نکلتا گیا لوگوں کا صبر جواب دیتا گیا۔ سوشل میڈیا پر کھیل مبصرین اور فقرے بازوں کے بھی الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملے۔ ایک طبقے نے ٹیم کی کارکردگی پر ناراضگی کا اظہار کیا، دوسرے نے میچ میں سرزد غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنا گیان بگھارا، تیسرے طبقے نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیم کی ہمت بندھائی۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ ہار کے بعد میدان سے آنے والے غمگین مناظر نے بھی لوگوں کو ٹیم سے یگانگت پر مجبور کردیا۔ محمد سراج، روہت شرما کی بھیگی آنکھیں ، کوہلی سمیت دیگر کھلاڑیوں کے افسردہ و بجھے دل چہروں کو دیکھ کر ٹیم انڈیا کے مداح تڑپ اٹھے۔ ایک بڑی تعداد نے یہ دلاسہ دیا کہ ’’آپ لوگوں نے اب تک خوب کھیلا ہے، رنجیدہ نہ ہوئیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘‘ رشی نامی صارف نے میچ کے اگلے دن لکھا کہ ’’کل ہمارا دن نہیں تھا،کوئی غم نہیں۔ کبھی ہم جیتتے ہیں ، کبھی ہم ہارتے ہیں ، ہم آپ کے ساتھ ہیں ٹیم انڈیا، ہمیں آپ سبھی پر فخر ہے۔‘‘
سوشل میڈیا پر تبصرے بازوں کا ایک ایسا حلقہ بھی تھا جو اپنے غم کو طنزو مزاح سے خلط کررہا تھا۔ ان میں ایسوں کی بڑی تعداد تھی جنہوں نے لفظ’پنوتی‘ کو ٹرینڈ کردیا۔ عام بول چال میں مروج یہ لفظ کہاں سے آیا او ر کیسے بنا ، یہ ایک تحقیق کا کام ہے۔ اسلئے یہ کام ہم ماہرین زبان پر چھوڑتے ہیں ، اس کا مفہوم بدشگون یا فال بد کے طور پر لیا جاتا ہے۔ تو بات آگے بڑھاتے ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ فائنل میچ دیکھنے کیلئے متعدد نامور شخصیات میدان میں پہنچی تھیں لیکن ان میں سے ایک پر پنوتی کا بٹّا لگادیا گیا۔ یہ کسے کہاگیا اور کیوں کہاگیا، ہم آپ کی صوابدید پر چھوڑتے ہیں۔
اس میچ سے جڑا ایک اور واقعہ ہے جو سوشل میڈیا کے گلیاروں میں چھایارہا۔ یہ قصہ میدانی گھس پیٹھ کا ہے۔ وین جان نامی آسٹریلوی تماش بین بلند آہنی جالی کو پھلانگ کر اور حفاظتی گھیرے کو توڑ کر میدان میں جاپہنچا۔ اسٹیڈیم میں موجود ایک لاکھ ۳۳؍ ہزار کا مجمع اسے یہ سب کرتا ہوا دیکھ ہکا بکا رہ گیا۔ جان نے فلسطین کی حمایت والاسفید ٹی شرٹ زیب تن کیا ہوا تھا اور اس کے منہ پرفلسطینی پرچم کا ماسک لگا ہوا تھا۔ یہ نوجوان اپنے ہاتھ میں ’ایل جی بی ٹی ‘ کا جھنڈا بھی تھامے ہوا تھا۔ یہ جب تک سیکوریٹی اہلکاروں کے ہاتھ آتا، تب تک وہ اپنا کام کرچکا تھا۔ اس نے اپنے چہیتے کھلاڑی وراٹ سے ملاقات کی اورتمام کیمروں میں آکر ’فلسطین پر بمباری بندکرو‘ کا پیغام بھی دنیا تک پہنچادیا۔ جان کی جی جان کوشش کی سراہنا خوب ہوئی۔ ابھیشیک بخشی نامی صارف نے لکھا کہ ’’میں پچ دراندازی کی حوصلہ افزائی کا قائل نہیں لیکن فلسطین پر بمباری بند کرو جیسی مداخلت ہو تو یہ منظور ہے۔‘‘ غرضیکہ پیر تک کرکٹ کا موضوع ہی چھایا رہا۔
منگل کو چیٹ جی پی ٹی بنانے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘کی اتھل پتھل ’اوپن ڈبیٹ‘ بن گئی۔ کمپنی کے بورڈ نے سی ای او سیم آلٹ مین کو باہر کا راستہ دکھایا۔ ملازمین اور سرمایہ کار اس اقدام سے برافروختہ ہوئے، مائیکروسافٹ جو اوپن اے آئی کا بڑا حصص رکھتی ہے، نے آلٹ مین کو اپنی کمپنی میں شامل کیا۔ یوں آلٹ مین کیلئے اوپن اے آئی کے بند دروازے پھر کھل گئے۔ کہتے ہیں کہ زخمی شیر بڑا گھاتک ہوجاتا ہے، آلٹ مین نے کمپنی میں آتے ہی پہلے ان بورڈ ممبران کو چلتا کردیا جنہوں نے انہیں باہر کا راستہ دکھایا تھا۔ اس معاملے پر ایکس پر مِیم اورمزاحیہ تبصروں کی بھرمار دیکھی گئی۔
بدھ کو کرپٹو ایکسچینج پلیٹ فارم ’بائنانس‘ بھی ٹرینڈنگ میں رہا، اس کے سی ای او چینگ پینگ زاؤ کے استعفیٰ سے یہ کمپنی موضوع بحث رہی۔ راہل گاندھی ’پنوتی‘ کے بیان کے سبب ’چرچا ‘ میں رہے۔ فلم اداکار پرکاش راج کوپونزی اسکیم معاملے میں ای ڈی نے نوٹس بھیجا ہے۔ اس خبر پر بھی سوشل میڈیا نے ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جسٹ آسکنگ اور پرکاش راج جیسے ہیش ٹیگ کے تحت لوگوں نے اپنے تاثرات بیان کئے۔ اویناش کمار دیو نامی صارف نے لکھا کہ ’’ یہ تو ہونا ہی تھا، جوکوئی بادشاہ پر تنقید کرتا ہے،اس کے ساتھ اس جمہوری ملک میں یہی ہونا ہے۔ پرکاش راج سر کو سلام! آپ اصل زندگی کے ہیرو ہیں۔‘‘
اسمبلی انتخابات کے سبب سیاسی موضوعات اور الیکشن کمیشن کے متعلق ہیش ٹیگ ٹرینڈنگ میں رہے۔ راجستھان کانگریس کے ساتھ، راجستھان میں کانگریس ۱۵۶؍پار، چپہ چپہ بھاجپا جیسے ہیش ٹیگ ایکس پر نظر آئے۔ اترکاشی کی سرنگ میں پھنسے ۴۱؍مزدوروں کا ریکسیو آپریشن بھی ذرائع ابلاغ کے ساتھ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر چھایا ہو اہے۔ ملک بھر کی نگاہیں اس معاملے پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ہر زباں پر یہی دعا ہے کہ سبھی پھنسے مزدور بازیاب ہوجائیں۔