Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’کچھ نہیں بھائی بس پنکچر بنارہا ہوں ‘‘

Updated: April 20, 2025, 2:16 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

وزیراعظم مودی کا ایک متنازع بیان ہفتے بھر سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ایک دلچسپ ٹرینڈ کا باعث بنا ہوا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

وزیراعظم مودی کا ایک متنازع بیان ہفتے بھر سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر ایک دلچسپ ٹرینڈ کا باعث بنا ہوا ہے۔ دراصل وزیراعظم نے ہریانہ کے حصار میں ایئر پورٹ ٹرمنل کے افتتاحی اجلاس میں متنازع وقف ترمیمی قانون کی تائید میں اظہار خیال کیا تھا۔ جس میں انہوں نے کانگریس اور اسکے دور اقتدار کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ’’ کانگریس کی تُشٹی کرن کی سیاست سے مسلمانوں کا نقصان ہوا ہے۔ کانگریس نے صرف سخت گیروں ہی کو خوش کیا ہے۔ کانگریس کی اس ناقص پالیسی کا سب سے بڑا ثبوت وقف قانون ہے۔ ‘‘بقول وزیراعظم ’’وقف کی املاک کا اگر ایمانداری سے استعمال ہوا ہوتا تو مسلمان نوجوانوں کو سائیکل کا پنکچر بناکر زندگی نہیں گزارنی پڑتی۔ ‘‘ظاہر ہے کہ اس بیان پر شدید سیاسی ردعمل سامنے آنا تھا۔ کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بیان کو تضحیک آمیز قراردیا، وہیں عوامی حلقوں میں بھی اس پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ 
تاریخ داں رعنا صفوی نے لکھا کہ’’پنکچر بنانے کے پیشے سے ایک سماج کا موازنہ نہ صرف غیر منصفانہ ہے، بلکہ محنت کی عظمت سے چشم پوشی بھی ہے۔ یہ بیان ہندوستانی مسلمانوں کے ہر شعبہ حیات کیلئے پیش کردہ گرانقدر تعاون سے پہلوتہی بھی ہے۔ جو ہاتھ بڑے دھیان سے پنکچر بناتے ہیں، وہی ہاتھ شاعری بھی کرتے رہے ہیں، انہوں نے سلطنتیں بھی قائم کی ہیں اور دلوں کو بھی جوڑا ہے۔ پوری قوم کو ایک دقیانوسی خیال تک محدود کر دینا ایک ایسی وراثت کی توہین ہے جو فخر، استقامت اور ذہانت سے بھرپور ہے۔ ‘‘ پروشوتم اگروال نے لکھا کہ’’ نہ پنکچر بنانا تحقیر آمیز ماننا چاہئے نہ پکوڑے تلنا۔ ایسے کاموں کا ذکر بے عزتی کے انداز میں کرنا ضرور گھٹیاپن کا مظہر ہے۔ ‘‘مان امن سنگھ چِنّا نے چار جانباز شہیدوں کی تصاویر کے ساتھ لکھا کہ’’ پنکچر بنانے والے یونیفارم میں بریگیڈیئر محمد عثمان مہاویر چکر، سی کیو ایم ایچ عبدالحمید پرم ویر چکر، کیپٹن حنیف الدین ویر چکر، لانس نائیک نذیر احمد وانی اشوک چکر۔ ‘‘
 یہ قابل ذکر ہے کہ روزگار و ملازمت کے مختلف شعبوں سے وابستہ مسلم نوجوانوں اور پروفیشنلز نے اپنے ورک اسٹیشن اور فیلڈ ورک کی تصاویر کو پوسٹ کرکے انوکھے انداز میں احتجاج کیا۔ ’’کچھ نہیں برو(بھائی) بس پنکچر بنارہا ہوں ....‘‘جیسی سطر، تقریبا ہر پوسٹ کا حصہ تھی۔ ہر ردعمل میں مزاح، مزاحمت اور معیار کی جھلک دیکھی گئی۔ شکیب خان(سرجن) نامی صارف نے آپریشن تھیٹر کی اپنی تصویر کے ساتھ کیپشن لکھاکہ ’’کچھ نہیں، بس آپریشن تھیٹر میں خاص پنکچر بنارہا ہوں۔ ‘‘عامر خان نامی ٹیچر نے کلاس روم میں فزکس کی مساواتیں پڑھاتے ہوئے اپنی تصویر کے ساتھ لکھا کہ’’کچھ نہیں برو بس بورڈ کے پنکچر ڈھونڈرہا ہوں، وقف والوں نے غلطی سے سامنے طلبہ بٹھا دئیے ہیں۔ ‘‘فلم رائٹر شگفتہ رفیق نے لکھا کہ ’’پنکچر بناتے ہوئے آوارہ پن(فلم) لکھی تھی۔ ‘‘نوازش نامی صارف نے جو تصویر پوسٹ کی اس میں وہ اپنے شاندار دفتر میں لیپ ٹاپ پر کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، انہوں نے لکھا کہ ’’کچھ نہیں برو بس پنکچر بنانے بیٹھا ہوں، سب وقف والوں کی غلطی ہے۔ ‘‘عثمانیہ یونیورسٹی کے محقق احمد یامین نے تجربہ گاہ کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ’’کچھ نہیں بھائی بس کینسر ٹریٹمنٹ مشین کا پنکچر جانچ رہا ہوں۔ ‘‘سید وسیم نامی نوجوان نے ایک بزنس سمٹ کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ’’پنکچر شاپ بزنس سمٹ میں نمائندگی کررہا ہوں۔ ‘‘حنان (اے ایچ ایم چونے والا) نامی ایئرو اسپیس انجینئر نے اپنی تصویر کے ساتھ لکھا کہ ’’زیادہ کچھ نہیں، رولز رائس جیٹ انجن کے پنکچر رپیئر کے ڈیزائن اینڈ انٹیگریشن پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کررہا ہوں۔ ‘‘سن-باد بامبے والا نامی نوجوان نے رن وے پر کھڑے طیارے کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ ’’کچھ نہیں برو بس ایئر کرافٹ کا پنکچر ایسا بنایا ہے کہ دوسرے شہر سے بھی بلاوا آگیا۔ اب وہاں بھی پنکچر بنانے جاتا ہوں، سب وقف کی غلطی ہے۔ ‘‘ راہل سیکر نامی صارف نے ایک شہید فوجی کی بیوہ کا ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ پنکچر والے حولدار عبدالمجید جو پنکچر بناتے ہوئے۲۰۲۳ءمیں شہید ہوئے، کو پانچ جولائی۲۰۲۴ء کو کیرتی چکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کا بھائی بھی اسی طرح۲۰۱۷ء میں شہید ہوا تھا۔ ‘‘محمد فیصل نامی سافٹ ویئر انجینئر نے اپنے ڈیسک کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ’’کچھ خاص نہیں، بس اپلی کیشن کے پنکچر بنارہا ہوں۔ ‘‘ڈاکٹر محمد نے اپنی توصیفی سند کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ’’ کچھ نہیں برو، پنکچر بنانے میں آئی آئی ٹی بامبے سے پی ایچ ڈی کی ہے، وزیراعظم نے بیسٹ تھیسس ایوارڈ بھی دیا تھا، پنکچر بنانے میں۔ سب وقف والوں کی غلطی ہے....‘‘ کمال آصف نے لکھا کہ ’’سوئزر لینڈ کے زیورخ میں ہِلٹی گروپ کے صدر دفتر میں منعقدہ پنکچر ورکشاپ میں شرکت کی۔ ‘‘علی عمران نامی انجینئر نے تعمیراتی سائٹ کی تصویر کے ساتھ لکھا کہ’’کچھ خاص نہیں، بس ایک کنسٹرکشن سائٹ پر پنکچر بنانے کیلئے ہنگامی طور پر آنا پڑا۔ سب وقف والوں کی غلطی ہے۔ ‘‘
غرضیکہ اس طرح کے تاثرات کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا ہے۔ جن میں الگ الگ پیشوں سے وابستہ مسلمان اپنی موجودگی اور حصولیابیوں کی تصاویر شیئر کرکے بڑے ہی مہذب انداز میں ’ پنکچر والا‘کے بیانیہ کی ہوا نکال رہے ہیں۔ یہ تاثرات پڑھ کر اور ان کی حصولیابیاں دیکھ کر علامہ اقبال کا یہ مصرعہ ذہن میں گونج اٹھتا ہے کہ ’’ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی (ہے)‘‘ 
جاتے جاتے فورچیون کی ایک تحقیقی رپورٹ کی بات ہوجائے، جس کے اعدادوشمار بے روزگاری کی بھیانک صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں۔ دعویٰ ہے کہ ملک میں ۸۵؍ فیصد انجینئروں کے پاس روزگار نہیں، ۵۰؍ فیصد ایم بی اے گریجویٹ بے روزگار ہیں، اس رپورٹ کو شیئر کرتے ہو ئے صحافی کادمبنی شرما نے لکھا کہ’’ یہ ہر طرح سے ڈرانے والے اعدادوشمار ہیں، نوجوانوں اور ان کے اہل خانہ کی مایوسی کا خیال کیجئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی یہ حال ہے تو آخر انسان کیا کرے؟ کہاں جائے؟ نیتا تو اپنے بھاشنوں میں پکوڑے تلنے یا پنکچر لگانے کا بھدا مذاق کرکے سیاسی روٹیاں سینک لیں گے، لیکن یہ آفت(بے روزگاری) تو نئی نسل کو ختم کردے گی۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK