• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اپ: ’’اب آپ کتنے ہی انٹرویو دے دیں ...‘‘

Updated: February 16, 2025, 2:34 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چندر چڈ کا بی بی سی کو دیا گیا انٹرویوبھی ان دنوں موضوع بحث ہے۔ سوتِک بنر جی نے لکھا کہ’’ یہ شرمناک ہے کہ سابق سی جی آئی اپنے ورثہ کے دفاع کیلئے لگاتار میڈیا انٹرویو ز دے رہے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

وزیراعظم مودی کا امریکہ دورہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث رہا۔ ویڈیو بلاگر مہندر سنگھ نے طنزیہ تبصرہ کیا کہ’’ ایک زمانہ تھا جب وزیراعظم کے غیرملکی دورے پر میڈیا بحث کرتا تھا کہ کتنے ’ایم او یوز‘ پر دستخط ہوئے؟کون کون سے کاروباری سودے ہوئے؟کتنے کی سرمایہ کاری آئے گی؟ کتنے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے؟ فلاں مسئلہ پر وزیراعظم نے اعتراض کیایا نہیں ؟، فلاں مسئلے پر وزیراعظم کا موقف کیا رہا؟ ہندوستان کے مفاد کا کتنا خیال رکھا گیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ اور اب بحث ہوتی ہے کہ ٹرمپ نے مودی کے بارے میں کیا لکھا؟ کیا بولا؟ کیسے گلے لگایا؟ کیسے ہاتھ ملایا؟ مودی نے کیسے کپڑے پہنے؟ کیسی تقریر کی؟ نہ ملک کی کوئی بات، نہ کوئی ملکی مفاد کا ذکر، ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم کے دورے کی نہیں ... انسٹاگرام رِیل پر چرچا ہورہی ہے۔ ‘‘
سینئر کارٹونسٹ منجول نے وزیراعظم مودی اور ایلون مسک کی ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ مودی جی لاؤ لشکر کے ساتھ پہنچے، ایسا سیٹ اَپ تھا کہ دو ممالک کے بڑے لیڈران کے درمیان کچھ گمبھیر بات ہونے والی ہے۔ ایلون مسک اپنی گرل فرینڈ اور تین بچوں کے ساتھ آئے۔ بہت ہی کیجوئل طریقے سے۔ مودی جی بچوں کے ساتھ کھیلے۔ بات کیا ہوئی وہ پتہ نہیں ، تصاویر بڑی مضحکہ خیز ہیں۔ ‘‘انہوں نے ایک اور تبصرہ کیا کہ’’ بی جے پی سے جڑے لوگ میڈیا کی مدد سے اب تک یہ ثابت کرچکے ہوں گے کہ ایف تھرٹی فائیو طیارے، رافیل سے بہتر ہیں۔ ٹرمپ نے اپنا کچرا ہمیں نہیں بیچا ہے بلکہ ہم چھانٹ کر سب سے عمدہ مال لائے ہیں اور یہ ماسٹر اسٹروک ہے۔ ‘‘
چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ منیش نِفٹی نے ایکس پر لکھا کہ’’ہندوستان ایف تھرٹی فائیودگنے دام میں خریدے گا، اس کا دوسبب ہی نظر آرہا ہے، یا تو اس سودے کی وجہ باہو بلی ٹرمپ ہیں یااڈانی گروپ کے خلاف جاری امریکہ میں کیس ہے۔ حیرت ہے کہ میک اِ ن انڈیا اسٹوری کیا سے کیا ہوگئی۔ ‘‘
ٹرمپ کی بات نکلی ہے تو ان کا پسندیدہ لفظ’ٹیریف‘ کا بھی ذکر ہو جائے۔ اس حوالے سے سنتوش یادو پی ایچ ڈی نے’باہمی ٹیکس کا تخمینہ چارٹ‘ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ’’ ٹرمپ کی ٹیریف لسٹ میں ہندوستان سب سے اوپر ہے۔ ہندوستان کا امریکہ کے ساتھ ۲۱؍ بلین امریکی ڈالر کا ٹریڈ سرپلس ہے۔ اگر ۲۹؍ فیصد ٹیریف لگتا ہے تو ہندوستان کے کاروبار پر منفی اثر پڑے گا۔ ویسے ہی ہندوستان کا مجموعی کاروبار خسارہ ۷۳ء۵؍بلین امریکی ڈالر ہے۔ ‘‘ مسٹر شرما نے اسی تناظر میں تبصرہ کیا کہ’’ نیچے چارٹ دیکھئے، ہندوستان کی ٹیریف شرح سبھی بڑے امریکی کاروباری شراکت داروں میں سب سے زیادہ ہے۔ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ جتنا ٹیکس تم ہم پر لگاؤ گے، اتنا ہی ہم تم پر لگائیں گے۔ ہندوستان کیلئے خطرہ: دوا، ٹیکسٹائل، آٹو پارٹس جیسے چیزوں پر امریکی ٹیریف بڑھ سکتے ہیں۔ ہندوستانی ایکسپورٹ کو جھٹکا لگے گا۔ امریکہ سے کاروباری منافع گھٹ سکتا ہے۔ سلامتی ضروری ہے، لیکن الگ تھلگ پڑنا نقصان دہ ہے، پالیسی پھر سے سوچیں ؟‘‘
انڈیاز گاٹ لیٹنٹ تنازع پر منیشا پانڈے نے لکھاکہ’’ایک گندہ لطیفہ یوٹیوب پر سنائیے، کیا ہوگا؟کچھ ہی گھنٹوں میں ایف آئی آر ہوگی، پولیس آپ کو ملک بھر میں تلاش کرنے لگے گی اور تب کیا ہوگا جب گوشت لیجانے کے شبہ میں ہجوم کسی کو پیٹ پیٹ کر مار دے؟ احتجاج کرنے پر ایف آئی آر درج ہوگی، کوئی گرفتار ی نہیں اور پھر کیس بند۔ قانون تیزی سے کام کرتا ہے، بس آپ کیلئے نہیں کرتا۔ ‘‘سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس چندر چڈ کا بی بی سی کو دیا گیا انٹرویوبھی ان دنوں موضوع بحث ہے۔ سوتِک بنر جی نے لکھا کہ’’ یہ شرمناک ہے کہ سابق سی جی آئی اپنے ورثہ کے دفاع کیلئے لگاتار میڈیا انٹرویو ز دے رہے ہیں۔ جناب آپ کی لیگاسی تو آپکے فیصلوں سے ہی رقم ہوگئی تھی۔ اب آپ کتنے ہی انٹرویوز دے دیں، بات نہیں بنے گی۔ ‘‘ہنس راج مِینا نے اس انٹرویو کے متعلق ایکس پر لکھا کہ ’’ بی بی سی کے صحافی اور سابق سی جی آئی چندر چڈ کے درمیان ہونیوالی گفتگو کا ایک حصہ: صحافی: کیا ہندوستانی عدلیہ صرف ہندو اعلیٰ ذات کے مردوں کے اونچے گھرانوں کے ذریعہ ہی چلائی جارہی ہے؟ 
چندر چڈ: نہیں، ایسا کہنا غلط ہوگا۔ میں اپنے والد کی سبکدوشی کے بعد جوڈیشری میں آیا، اسلئے اقرباء پروری کا سوال نہیں اٹھتا۔ 
صحافی: لیکن آپ کے علاوہ بھی کئی جج ایسے ہیں جن کے والد یا خاندان کا کوئی فرد جوڈیشری میں اعلیٰ عہدوں پر ہے، اسے کیا کہیں گے؟
چندر چڈ: دیکھئے، لیاقت اور تجربے کی بنیاد پر تقرریا ں ہوتی ہیں۔ 
صحافی: اچھا تو جوڈیشری میں خواتین کی نمائندگی اتنی کم کیوں ہے؟
چندر چڈ: خواتین کی نمائندگی نچلی عدالتوں میں کافی اچھی ہے۔ 
صحافی: لیکن اعلیٰ عدالتوں اور ہائیکورٹس میں ان کی تعداد بہت کم ہے؟یا ان کی لیاقت پر بھی شبہ ہے؟
چندر چڈ:( محتاط ہوکر) چیزیں دھیرے دھیرے بدل رہی ہیں، اور ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں مزید خواتین جوڈیشری میں آئیں گی۔ 
صحافی :ذات کے ضمن میں کیا کہیں گے؟ جوڈیشری میں نچلے طبقات کی نمائندگی نہ کے برابر ہے۔ 
چندر چڈ: خاموش۔ 
صحافی: می لارڈ آپ جواب نہیں دینا چاہتے؟
چندرچڈ: دیکھئے ہمیں عدلیہ کی آزادی کو بنائے رکھنا ہے اور یہ یقینی بنانا ہے کہ عدلیہ کسی بھی سیاسی یا سماجی دباؤ سے آزاد رہے۔ 
صحافی: تو عدلیہ میں ذات ایک موضوع نہیں ہے؟
چندرچڈ: ہمیں آئینی اقدارپر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ 
صحافی: آئینی اقدار تو سماجی انصاف کی بات کرتے ہیں، لیکن عدلیہ کا ڈھانچہ اسی سماجی انصاف سے پرے کیوں دکھائی دیتا ہے؟
چندر چڈ:(کوئی جواب نہیں ).....صحافی: شکریہ ! می لارڈ۔ 
ارچنا سنگھ نے لکھا کہ’’۲۳؍ منٹ کے اس انٹرویو کو سنئے، بی بی سی کے اسٹیفن سیکور نے آرٹیکل ۳۷۰؍ اور ایودھیا جیسے موضوعات پر سوال پوچھے، سچ کہئے تو اس انٹرویو میں چندر چڈکی حقیقت عیاں ہوگئی، ان کا گلاسوکھ رہا تھا، اور دوستی بنی رہے جیسا لمحہ تھا۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK