سینئر صحافی و قلمکار ظفر الاسلام خان نے پاترا کو مخاطب کرکے لکھا کہ ’’آپ جھوٹ بول رہے ہو۔ وقف املاک تمام ہی اسلامی ممالک میں موجود ہیں اوران کا تحفظ قانون اور متعلقہ وزارتوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 1:10 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
سینئر صحافی و قلمکار ظفر الاسلام خان نے پاترا کو مخاطب کرکے لکھا کہ ’’آپ جھوٹ بول رہے ہو۔ وقف املاک تمام ہی اسلامی ممالک میں موجود ہیں اوران کا تحفظ قانون اور متعلقہ وزارتوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔
وقف ترمیمی بل کا موضوع اس ہفتے سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈنگ رہا۔ ایک طرف حکومت اور اسکے ہم نوا، متنازع بل کی اہمیت و افادیت گنوانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے نظر آئے۔ وہیں دوسری جانب مخالفین اس بل کی خامیوں اور اسکے پس پشت منشاء پر مختلف سوال قائم کرتے نظر آئے۔ پارلیمانی بحث کے ویڈیوز پر بھی تبصرے بازی ہوئی۔ اسدالدین اویسی، عمران پرتاپ گڑھی، منوج کمار جھا، اکھلیش یادوسمیت کئی اراکین پارلیمان کی تقاریر کو لوگوں نے پسند کیا۔ ان کے دلائل، موقف اور انداز کی پزیرائی کی گئی۔ وہیں این ڈی اے اتحاد کے ایم پیز کے دعوؤں پر سوال قائم کئے گئے۔ بی جے پی کے بدنام زمانہ ترجمان سمبت پاترا نے لوک سبھا میں کی گئی اپنی تقریر کا کلپ ایکس پر شیئر کیا جس میں انہوں نے دعویٰ ٹھونکا کہ’’کئی اسلامی ممالک میں وقف کا وجود نہیں جبکہ ہندوستان میں وقف بورڈ کو قانونی منظوری حاصل ہے، اسکے بعد ہنگامہ کیوں برپا ہوا ہے؟‘‘ اس پر آلٹ نیوز کے ساتھ ساتھ نیٹیزنس نے بھی پاترا کو آئینہ دکھایا کہ مذکورہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ محمد شاداب خان نامی صارف نے ’گروک‘ کو ٹیگ کرکے پاترا کے دعوے کی تصدیق چاہی تو اُس اے آئی پروگرام نے قلعی کھول دی اور کہا کہ’’وقف بہت سارے اسلامی ممالک میں موجود ہے‘‘ گروک نے یو اے ای، سعودی عرب، مصراور ترکی کی مع حوالہ مثال بھی دی۔ سینئر صحافی و قلمکار ظفر الاسلام خان نے پاترا کو مخاطب کرکے لکھا کہ ’’آپ جھوٹ بول رہے ہو۔ وقف املاک تمام ہی اسلامی ممالک میں موجود ہیں اوران کا تحفظ قانون اور متعلقہ وزارتوں کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ وہاں وقف املاک کو نوچنے والے گِدھ نہیں ہوتے اسلئے ان ممالک کو وقف بورڈ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ‘‘
مذکورہ معاملے میں حکومت کا ساتھ دینے پر اسکے نام نہاد سیکولر اتحادیوں (نتیش +نائیڈو+جینت+چراغ)پر بھی نیٹیزنس نے خوب تنقیدیں کیں۔ سینئر صحافی شکیل اختر نے پیشگوئی کی کہ ’’بھاجپا کو بہار جیتنے کی امید نتیش کے سہارے تھی مگر وقف بل پر نتیش سے حمایت کرواکر اس نے ان کے پاؤں کے نیچے سے ہی زمین کھینچ لی۔ بھاجپا کیلئے بہار تو گیا ہی بنگال بھی چلا گیا۔ دوسری بات پارلیمان میں مودی اور ان کے خلاف جتنا کم فرق رہا وہ ظاہر کرتا ہے کہ وقت بدل رہا ہے۔ ‘‘ مورتی نین نے لکھا کہ ’’رمضان میں افطاری کھائی بھی کھلائی بھی، اور عید پر مسلم سماج کے جمہوری حق کو بقرعید کے بکرے کی طرح حلال کردیا۔ وقف بل پاس ہوگیا۔ کس کے باعث؟ نتیش کمار کے سبب۔ جس این ڈی اے میں انہیں بل کے خلاف آواز اٹھانی تھی وہاں پر وہ جھک گئے۔ لالو جی نے کبھی سچ ہی کہا تھا۔ نتیش کے دانت پیٹ میں ہیں۔ نائیڈو بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ جینت چودھری اور چراغ پاسوان بھی۔ جمہوریت میں اقلیتوں کو سب سے پہلے تحفظ چاہئے لیکن یہاں جبر ہورہا ہے۔ نتیش کے ایم پی للن سنگھ نے وقف بل پر کیا کہا؟ اپنے لیڈر کا نام نہیں لیا، بس مودی مودی کرتے رہے! اتنی مودی بھکتی سے تو صاف ہوگیا کہ جے ڈی یو اب بی جے پی کی بی ٹیم نہیں، سیدھے شاکھا بن چکی ہے۔ ‘‘
چلئے موضوع بدلتے ہیں۔ یوپی کے امبیڈکر نگرمیں پچھلے ہفتے انتظامیہ کی جانب سے مبینہ قبضہ جات کے خلاف انہدامی کارروائی کی گئی۔ اس وقت کی ایک ویڈیو نے سوشل میڈیا کو جھنجھوڑ دیا۔ جس میں بلڈوزر کچے مکان کو توڑرہا ہے اور ایک افسر وہاں کمر پر ہاتھ رکھے نگرانی کررہاہے۔ بغل کے مکان سے تبھی ایک بچی اپنی کتابیں سینے بھینچے ہوئے باہر کو دوڑتی نظر آتی ہے۔ اس ویڈیو پر سپریم کورٹ کے جسٹس بھوئیاں نے تبصرہ کیا کہ ’’اس تصویر نے سبھی کو دھچکا پہنچایا‘‘ مذکورہ ویڈیو اورتبصرے کو سچن گپتا نے ایکس پر شیئر کیا جس کے ذیل میں مسلم اسپیسیس نامی اکاؤنٹ سے سوال قائم کیاگیا کہ ’’کیا سپریم کورٹ کے جج آئے دن مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلنے پر شاک ہوئے ہیں ؟‘‘ ایڈوکیٹ ویدھل چانڈیل نے لکھا کہ ’’سپریم کورٹ کے حکم کے بعد بھی بلڈوزراج رکا نہیں، ستّہ کو اب بھی عدالت عظمیٰ کا خوف نہیں۔ ڈرے ہوئے تو بیٹے بیٹیاں ہیں اپنے مستقبل، حقوق، تعلیم، زندگی اور اپنی عزت نفس کی سلامتی کے تئیں۔ اب شبہ ہوتا ہے کہ شاید انصاف اور بنیادی حقوق کا نگہباں سورہا ہے ؟‘‘
وزیر صنعت و کامرس پیوش گوئل نے بیان دیا کہ ہندوستانی اسٹارٹ اپس اختراعی کام نہیں کررہے ہیں۔ اس پر مرتضیٰ امین نامی صارف نے انہیں ایکس پر شکایت کی کہ ’’میں برہان پور میں سو ملازمین پر مشتمل ایک سافٹ ویئر کمپنی چلارہا ہوں، آپ کہہ رہے ہیں کہ اسٹارٹ اپس اختراعی کام نہیں کررہے، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہمیں ندرت و اختراع کیلئے معقول وسائل فراہم کراپارہے ہیں ؟ ہمارے ہاں چوبیس گھنٹے بجلی نہیں رہتی۔ افسروں کی دادا گیری بڑھتی جارہی ہے، ہمارے ساتھ ناروا سلوک برتا جاتاہے۔ میں نے وزیراعظم اورآپ کے دفتر کے ساتھ کچھ آئی اے ایس افسروں کو شکایت بھی بھیجی، مجھے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ پی ایم او نے شکایت کو لیبر کمشنر کی طرف بڑھادیا۔ میری کئی شکایتیں ہیں جن میں کچھ اہم یہ ہیں : پہلی میں ہر کام کیلئے رشوت دے دے کر تنگ آچکا ہوں۔ دوسری: مسلسل اور غیر متعینہ لوڈشیڈنگ۔ تیسری: جی ایس ٹی اور پی ایف آفس نہ ہونے سے مجھے اس تعلق سے ہر چھوٹے موٹے کام کیلئے کھنڈوا جانا پڑتا ہے۔ میں امریکہ میں ہی ٹھیک تھا۔ لیکن سوچا کہ اپنے ملک میں کام کرنے کی ضرورت ہے، لوگوں کو روزگار دے سکوں گا، اپنوں میں رہ سکوں گا، لیکن جو کچھ جھیل رہا ہوں اس سے مجھے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہورہا ہے۔ ‘‘ جاتے جاتے ایک دل چھولینے والا معاملہ پڑھتے جائیں۔ یہ آلٹ نیوز کے محمد زبیر نے ایکس پرشیئر کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’’عید کے موقع پر کچھ دوستوں نے خیرسگالی کے جذبے سے بنگلور میں کئی مندروں کے پجاریوں سے ملاقات کی اور انہیں تحائف پیش کئے۔ سبھی پجاریوں نے بھائی چارے اور بلاتفریق مذہب و ملت ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پیغام پرزور دیا۔ ‘‘ اس اقدام کی بیشتر صارفین نے سراہنا کی۔