سیاست اور اہل سیاست گزشتہ ہفتے خبروں و تبصروں میں چھائے رہے۔ بات شروع کرتے ہیں دھیرج ساہو سےجو جھارکھنڈ کے نامور شراب کاروباری اور کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان ہیں۔
EPAPER
Updated: December 17, 2023, 1:21 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
سیاست اور اہل سیاست گزشتہ ہفتے خبروں و تبصروں میں چھائے رہے۔ بات شروع کرتے ہیں دھیرج ساہو سےجو جھارکھنڈ کے نامور شراب کاروباری اور کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان ہیں۔
سیاست اور اہل سیاست گزشتہ ہفتے خبروں و تبصروں میں چھائے رہے۔ بات شروع کرتے ہیں دھیرج ساہو سےجو جھارکھنڈ کے نامور شراب کاروباری اور کانگریس کے راجیہ سبھا کے رکن پارلیمان ہیں۔ انکم ٹیکس معاملے میں جھارکھنڈ اور اودیشہ میں ان کی فیکٹری و دفاتر پر چھاپے پڑے۔ نقدی کا اتنا ڈھیر برآمد ہوا کہ محکمہ انکم ٹیکس کے اہلکاروں کو نوٹ شماری میں پانچ دن لگ گئے۔ یہ معاملہ سیاست سے جڑا نہ ہوکر بھی سیاسی بن گیا۔ بی جے پی نے اس پر کانگریس کو گھیراجبکہ اس نے پلہ جھاڑلیا کہ یہ ساہو کا ذاتی معاملہ ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ۳۰۰؍ کروڑ روپے سے زائد ضبط شدہ رقم کے خوب چرچے ہوئے۔ کرپشن کی دکان، دھیرج ساہو جیسے ٹرینڈ چلے۔ اجے کمار مشرا نے لکھا کہ ’’ایک طرف ہمارے ملک میں کوئی آدمی دوسو روپے کمانے کو جوجھتا ہے اور دوسری طرف ایسے بھی ہیں جو یوں دوسو کروڑ جمع کرلیتے ہیں۔ سچ کہوں تو میں نہیں جانتا کہ اس رقم کو لکھنے کیلئے یہاں کتنے صفر لگانے ہوں گے؟‘‘
گزشتہ اتوار کوساہوکے علاوہ دو دیگر اراکین پارلیمان بھی ٹرینڈنگ میں رہے۔ ان میں بی ایس پی کے ایم پی کنوردانش علی اور ٹی ایم سی رکن پارلیمان مہوموئترا شامل ہیں۔ روپوں کے عوض سوال پوچھنے کے الزام میں مہوا کی رکنیت چھین لی گئی۔ اس معاملے پر اکثریت نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ صحافی پرگیامشرا نے سخت انداز میں طنز کیا، لکھتی ہیں کہ ’’مہوا موئترا کی رکنیت ختم کرنے کیلئے جانچ وانچ سب بجلی کی رفتار سے کرلی گئی اور جمہوریت کے مندر میں بھری مجلس میں رکن پارلیمان کو گالی دینے والے رمیش بدھوڑی پر وہی سسٹم، وہی اسپیکر، وہی سرکار سناٹے میں ہے، تاریخ اس بھیدبھاؤ،جبر اور گھمنڈی رویہ کو یاد رکھے گی۔‘‘
صاحبو، آپ کو یاد ہی ہوگا کہ مانسون اجلاس کے دوران دانش علی کیخلاف بی جے پی رکن پارلیمان رمیش بدھوڑی نے پارلیمنٹ میں کس قدر طوفان بدتمیزی کی تھی۔ اس شرمناک معاملے کو۳؍ ماہ گزرنے کے بعد بدھوڑی نے مراعات شکنی کمیٹی کی کارروائی کے نتیجے میں معاف مانگ لی۔ طرفہ تماشہ دیکھئے کہ اس معاملے میں دانش علی کی اپنی پارٹی نے کچھ خاص احتجاج نہیں کیاتھاجبکہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے دانش علی کا ساتھ دیا تھا ۔ اب سرمائی اجلاس میں جب مہوموئترا کو پارلیمان سے معطل کیا گیا تو دانش علی نے مہواکے ساتھ ہونیوالی ناانصافی پرآواز اٹھائی، بی ایس پی کو دانش علی کا یہ عمل کھٹکا اور اسی کو جواز بناکر ان پر پارٹی لائن کی خلاف ورزی کا الزام رکھ کر معطلی کا ٹھپہ لگادیاگیا۔ ایکس پر اس فیصلے کومتعدد افراد نے ہدف تنقید بنایا ہے۔
بات بی ایس پی کی چلی ہے تو اس کی صدارت کے معاملے پر بھی کچھ بات ہوجائے۔ پارٹی سپریمو مایاوتی نے اپنے بھتیجے آکاش آنند کو اپنا جانشین ’گھوشت‘ کردیا ہے۔ اس فیصلے پر سوشل میڈیاکے گلیاروں میں طرح طرح کی باتیں ہوئیں اور آکاش آنند ٹرینڈ کرگئے۔ بی ایس پی نوازوں نے فیصلےکا خیرمقدم کیا اور فیصلے کو’امیدوں کا آکاش‘ قرار دیا جبکہ مخالفین نےاس اقدام کو ’اقرباء پروری‘ گردانا۔بی جے پی لیڈر سنیل دیودھر نے لکھا کہ ’’بُوا (پھوپھی) ہیں تو کرسی تو بھتیجے کو ہی دینی تھی، پریوار وادی پارٹیوں میں کارکن صرف بینر ،پوسٹر لگانے تک ہی رہ جاتے ہیں۔‘‘
بی جے پی سے یاد آیا کہ۳؍ ریاستوں کیلئے وزرائے اعلیٰ کے انتخاب پر وہ کئی دنوں تک چِنتن منتھن کرتی رہی،اسی باعث اسکےلیڈروں کے روٹھنے منانے کی افواہیں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہیں ،لیکن ’ہائی کمان‘ کو جو کرنا تھا وہ کردیا۔ شیوراج سنگھ چوہان المعروف ماما کی جگہ موہن یادوکو گدی پر بٹھادیا گیا۔ چھتیس گڑھ کیلئے وشنو دیسائی کے نام پر مہر لگائی گئی اور راجستھان میں ’رانی سا‘ وسندھرا راجے کے دوڑ میں آگے ہونے کے باوجود بھجن لال شرما کو وزارت اعلیٰ کا تاج پہنادیا گیا۔اسی سبب ’چھتیس گڑھ سی ایم، وشنو دیو سائی، موہن یادو،بھجن لال شرما،ماما جی، دِیاکماری‘ خوب موضوع بحث رہے۔ صدف آفرین نے تبصرہ کیا کہ ’’شیو راج سنگھ چوہان نے چناؤ جیتنے کیلئے بڑی محنت کی تھی لیکن محنت کا پھل موہن یادو لے گئے۔‘‘
پیر اور منگل کو’جموں کشمیر، سی جی آئی چندرچڈ،سپریم کورٹ، آرٹیکل ۳۷۰‘ جیسے ہیش ٹیگززیر بحث رہے۔ حمایت مخالفت میں تبصرے بازیاں عروج پر رہیں ۔ بدھ کو پارلیمنٹ حملے کی برسی تھی۔ اسی دن پارلیمان کے ایوان زیریں میں وزیٹرس گیلری سے چار افراد کود پڑے اور بے روزگاری اور دیگر مسائل پرنعرے بازی کے ساتھ انہوں نے زرد رنگ کے کنستر کھول ایوان کو دھواں دھواں کردیا۔اس سے پہلے کہ مارشل آکر ان مظاہرین کو گرفت میں لے پاتے، کچھ اراکین پارلیمان نے دو مظاہرین کو دھردبوچا اور پٹائی کردی، کسی نے طمانچے لگائے، کسی نے بال کھینچے۔ سوشل میڈیا پر یہ معاملہ ’ہاٹ ٹاپک‘ بنا رہا ۔صحافی روہنی سنگھ نے لکھا کہ ’’فرض کیجئے کہ یہ وزیٹر پاس بی جے پی ایم پی پرتاپ سمہا کی بجائے کسی دانش علی نے دئیےہوتے، تو نوئیڈا چینل نہ صرف کنستر پر چیخ پکار مچاتے بلکہ دہشت گردی مخالف قانون کے تحت سخت کارروائی اور معطلی کا بھی مطالبہ کرتے۔‘‘ باکسر اور کانگریس لیڈر وجیندر سنگھ نے مظاہرین کے متعلق لکھا کہ ’’شکر کرو (ان میں )کوئی مسلم نہیں ہے،(ورنہ)پتہ نہیں کون کون سا کنکشن نکال لیتے۔‘‘
یہ معاملہ جمعرات اور جمعہ کو بھی زیر بحث رہا۔ انوشا روی سود نے لکھا کہ ’’ہر بار رکن پارلیمان کی معطلی یا معزولی میں بھید بھاؤ ہوتا ہے۔ یہ ان شہریوں کی آوازیں ہیں جنہیں ملک منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجتا ہے،لیکن ان آوازوں کو بیجا طریقے سے دبا دیا جاتا ہے...‘‘ جس ’اسموک کریکر‘کا استعمال مظاہرین نے کیا، اسےٹی وی رپورٹروں نے پالیا، پھر اس کے بعد اسے اپنے ’درشکوں‘ کو دکھانے کیلئے وہ چھینا جھپٹی مچی کہ خدا کی پناہ۔ کلیانی نامی صارف نے چبھتا طنز کیا کہ ’’یہ ہے ہمارے ملک کی حالت زار، ڈھہ جانےوالا سلامتی نظام اور الٹا پلٹا چوتھا ستون.....‘‘