اتر پردیش کے سینئر سیاستداں اور پُروانچل کے’ بَاہُوبَلی‘ کہلانے والے مختار انصاری کی موت کا معاملہ اس ہفتے سوشل میڈیا پر ہر جگہ موضوع بحث نظر آیا۔
EPAPER
Updated: April 02, 2024, 2:25 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
اتر پردیش کے سینئر سیاستداں اور پُروانچل کے’ بَاہُوبَلی‘ کہلانے والے مختار انصاری کی موت کا معاملہ اس ہفتے سوشل میڈیا پر ہر جگہ موضوع بحث نظر آیا۔
اتر پردیش کے سینئر سیاستداں اور پُروانچل کے’ بَاہُوبَلی‘ کہلانے والے مختار انصاری کی موت کا معاملہ اس ہفتے سوشل میڈیا پر ہر جگہ موضوع بحث نظر آیا۔ ’ایکس‘ پر بہتیرے افراد نے اس ناگہانی موت پرشک و شبہ ظاہرکیا۔ کُش امبیڈکر وادی نامی صارف نے لکھا کہ’’مختار انصاری کے حامی(ان کی) موت کو مشتبہ بتارہے ہیں۔ کچھ بھی ہو الیکشن کے وقت ایسی خبر شبہ تو پیدا کرتی ہے، غیرجانبدارانہ تفتیش ہونی چاہئے۔ ‘‘پریانشو کشواہا نے لکھا کہ ’’دولتمندوں کیلئے وہ مافیا یا اَپرادھی ہوسکتے ہیں لیکن مئو، غازی پور اور پروانچل کے عوام مختار انصاری کو دلت - پسماندہ - اقلیتوں کے محافظ کے روپ میں یاد رکھیں گے۔ ‘‘ اشوینی یادو نے لکھا : ’’میں نے اپنے ایک دلت دوست سے مختار انصاری جی کے بارے میں پوچھاکہ : یہ مختروا تو بہت بڑکا ڈان ہے نا، ای تو سب کا جِیئب حرام کر دئیے ہوئی آپ کی طرف؟ (یہ سن کر) وہ بھڑک گیا، بولا کیا یار بھائی، آپ لوگ بھی سنی سنائی باتوں پر بھروسہ کرتے ہو جبکہ سچ دیکھیں گے تو جانیں گے کہ کسی بھی مذہب، ذات وغیرہ سے اوپر اٹھ کر وہ آدمی لوگوں کی مدد کرتا آیا ہے۔ اس آدمی کا کردار بہت صحیح تھا عوام کیلئے۔ آج تک کسی بہن بیٹی کو تکلیف نہیں پہنچائی اور نہ ہی کسی کو ان کی وجہ سے کوئی پریشانی ہوئی۔ بہت سے لوگوں کیلئے وہ مسیحا ہیں اور نہ جانے کتنے گھروں میں تو وہ پُوجے جاتے ہیں۔ تب مجھے یہ اندازہ ہوا کہ اس آدمی کا ایک کردار یہ بھی ہے جو لوگوں تک نہیں پہنچ سکا۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے: سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ : ’ایکٹر بننے آئی تھی..مِیم بنادیا پاپا‘
کنچنا یادو نے لکھا کہ ’’مختار انصاری کی موت مشتبہ ہے۔ کچھ دن پہلے ان کے کھانے میں زہر ملانے کی خبر آئی تھی۔ یہ اتفاق نہیں ہوسکتا، اس کی جانچ ہونی چاہئے۔ سیکڑوں دفعات جن کے اوپر عائد ہیں وہ آزاد گھوم رہے ہیں کیونکہ وہ خاص ذات/ پارٹی سےتعلق رکھتے ہیں۔ چن چن کر مائناریٹی کو ٹارگیٹ کیا جارہا ہے۔ ‘‘آلوک چِکّو نےمختار انصاری کا ایک پرانا ویڈیو کلیم عاجز کے شعر کے ساتھ لکھا کہ ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ/تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔ وقت سب کا حساب کرے گایاد رکھو سنگھیو!سب یادرکھا جائے گا۔ یہ ویڈیو تب کا ہے جب مئو فسادیوپی پولیس کے قابو سے باہر ہوگیا تھا۔ تب مختار انصاری صاحب نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اس فساد کو روکنےکی کوشش کی تھی۔ مختار صاحب پسماندہ، اقلیتی سماج کے مسیحا تھے۔ ناانصافی کیخلاف لڑنے والے یودّھا تھے۔ ‘‘اخلاص نامی صارف نے لکھا کہ ’’پُروانچل کے غریب ہندو شاید ابھی مسلمانوں سے زیادہ افسوس کررہے ہوں گے۔ ‘‘ اس پر پریتی ورما نے لکھاکہ’’مئو غازی پور کے کسی غریب کے گھر بغیر (مختار) انصاری پریوارکی مدد کے شادی نہیں ہوئی، شادی سے ٹھیک پہلے تیل، گیہوں، دال، ۵۰؍ہزار روپے کا چیک پہنچ جاتا تھا۔ مافیا اور پتہ نہیں کیا کیا کہہ دینا بڑاآسان ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی ۲۵؍سال ’غنڈئی‘ کے دم پر سیاست میں نہیں رہ سکتا۔ ‘‘الغرض یہ کہ ایسے بے شمار تبصرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر نظر آئے۔
چلئے، دیگر موضوعات کی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ اتوار کوآئی پی ایل میں ممبئی انڈینس کا مقابلہ گجرات ٹائٹنس سے ہوا۔ اس دن ہاردک پانڈیا میدان اور سوشل میڈیا دونوں ہی جگہ مداحوں کے عتاب کا شکار ہوئے۔ ایک جانب ممبئی کے فینز روہت سے کپتانی چھن جانے سے ناراض تھے۔ دوسری جانب گجرات کے مداح ہاردک کی ’خیمہ بدلی ‘سے بھرے بیٹھے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مقابلہ شروع ہوتے ہی سوالاکھ کے مجمع نے ہُوٹنگ شروع کردی۔ ’’چھپری چھپری ‘‘کا بھی شور مچا۔ ’ ’ہمارا کپتان کیسا ہو، روہت شرما جیساہو‘‘ جیسے نعرے بھی لگائے گئے۔ درمیان میں ایک آوارہ کتے نے میدان میں گھس پیٹھ کی تو تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس پر بھی ہاردک پر ہی فقرے کسے۔ سابق کپتان روہت کو باؤنڈری لائن پر فیلڈنگ کروانا بھی سوشل میڈیا کے کرکٹ مبصرین کو کھب گیا۔ پھر کیاہاردک کے مختلف مواقع کے ویڈیو کلپ کے ساتھ لوگوں نے انہیں ٹرول کردیا۔ پرشانت کمار ساہو نے ’چھپری‘ ہیش ٹیگ کے تحت لکھا کہ ’’اب تک کا سب سے خراب کرکٹر، جس سے سبھی نفرت کرتے ہیں۔ اسے پتہ ہی نہیں کہ سینئر کھلاڑیوں سے کیسے پیش آنا ہے۔ ‘‘ وجئے راٹھوڑ نے لکھا کہ ’’بطور کھلاڑی ہاردک کی عزت کرتا ہوں، لیکن بطور انسان وہ ایک چھپری ہیں۔ روہت شرما کیلئے دل سے برا محسوس ہورہا ہے۔ ‘‘ حالانکہ ہاردک کی حمایت میں بھی لوگوں نے لکھا، لیکن مخالفین حاوی نظر آئے۔
قابل ذکر ہے کہ جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کے انتخابی نتائج پر بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کی خاص نظر رہی۔ طلبہ انتظامیہ کے اس انتخاب میں بائیں بازو کے اتحاد نے اے بی وی پی کو پٹخنی دی۔ صدر، نائب صدر، سیکریٹری اور جوائنٹ سیکریٹری کے سبھی اہم عہدوں پر بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ سوشل میڈیا پر اس الیکشن کے متعلق سنجیدہ تبصرہ بازی بھی ہوئی اور طنزومزاح سے بھرپور موشگافیاں بھی ہوئیں۔ انٹرنیٹ کے گلیاروں میں ایک پھل فروش کا ’’لال ہے لال‘‘کاوہ ویڈیو بھی خوب گردش میں رہا۔ واجد خان نامی صارف نے اسے شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’جے این یو میں آر ایس ایس کی طلبہ شاخ کا سپڑا صاف ہونے کے بعد لیفٹ کے لوگ انہیں یوں چڑھاتے ہوئے۔ ‘‘
کانگریس لیڈر سپریہ شرینیت کے اکاؤنٹ سے کنگنا راناوت کے متعلق نازیبا تبصرہ پوسٹ ہونے اور اس پر سپریہ کی جانب سے صفائی دئیے جانے کا معاملہ بھی ٹرینڈنگ رہا۔ ’گودی اینکرز‘ سے لے کربھگوالیڈروں تک نے اس پر آسمان سرپر اٹھالیا۔ لوک گلوکارہ نیہا سنگھ راٹھوڑ نے اس پرسوال قائم کیا کہ’’کیا صرف کنگنا راناوت ہی ملک کی بیٹی ہیں ؟ بی جے پی کی میڈیا کو صرف ان کی ہی بے عزتی دکھائی دیتی ہے؟ آج صبح سے ہی پورن اسٹارمیا خلیفہ کےساتھ میری تصویر لگاکر بی جے پی کی آئی ٹیل سیل اور چھُٹ بھیّے نیتا ٹرینڈ کروا رہے ہیں اور مجھے پریشان کررہے ہیں، وہ کسی بھی گیانی کو نہیں دکھائی دیتا؟ مودی جی کے’پریوار‘ سے بچنے کی لڑائی کیا مجھے تنہا لڑنی پڑے گی؟ایسے بچائی جائے گی بیٹی؟‘‘ نیہا کی یہ فریاد جانبداروں کی چپی توڑے نہ توڑے، ان کے ’وِرودابھاس‘پر چبھتا سوال ہے۔