• Mon, 23 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

جو اس ٹیچرنے کیا وہی کام روزانہ ٹی وی نیوز اینکر کررہے ہیں

Updated: August 27, 2023, 4:19 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

صاحبان ، قدردان، یہ ہفتہ بھی ہنگامہ خیز رہا۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ سوشل گلیاروں میں کیا کچھ ہوا۔ ہفتے کے پہلے دن یعنی پیر کوکئی قابل ذکر ہیش ٹیگ نظر آئے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

صاحبان ، قدردان، یہ ہفتہ بھی ہنگامہ خیز رہا۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ سوشل گلیاروں میں کیا کچھ ہوا۔ ہفتے کے پہلے دن یعنی پیر کوکئی قابل ذکر ہیش ٹیگ نظر آئے۔ اس دن رنکوسنگھ کا نام بھی ہیش ٹیگ کے ذریعے خوب چلا۔لوگوں نے انہیں ’ٹیم انڈیا کا اگلا فنشر‘ قراردیا۔ دراصل اس ہونہار کھلاڑی کو آئرلینڈ دورے پر قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع ملا۔ رنکو نے موقع کو بھنایا اور اتوار کو دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں ۳۸؍رنوں کی پاری کھیل کر ثابت کردیا کہ وہ لمبی ریس کے گھوڑے ہیں ۔
  گھوڑوں سے یاد آیا کہ نفرتی گدھوں نے اس ہفتے سوشل میڈیا پر فلم اداکار پرکاش راج کے خلاف خوب شور مچایا۔ نفرت کی انتہا دیکھئے کہ ’’پرکاش راج غدار ہے‘‘ کے ہیش ٹیگ چلائے گئے۔ پرکاش راج کی’ غلطی‘ یہ تھی کہ انہوں نے چندر یان کے حوالے سے ’ملیالی چائے والے‘ کا لطیفہ شیئر کردیا۔ یہ لطیفہ اس زمانے میں بڑا مقبول ہوا تھاجب نیل آرم اسٹرانگ چاند پر قدم رکھنے والے پہلے انسان بنے تھے۔ تب ازراہ مذاق کہا جاتا تھا کہ نیل آرم نے چاند پر ملیالی چائے فروش کے ٹھیلے سے چائے پی تھی۔ یہ لطیفہ ایک کہاوت کی بنیاد پر بنا تھا،وہ کہاوت یہ ہے کہ ’’آپ جہاں جائیں گے وہاں ملیالی کو پائیں گے‘‘نفرتی چنٹوؤں کو بھلا حس مزاح سے کیا واسطہ، ان کا ساتھ نام نہاد دیش بھکتوں نے دے دیا اور یوں ایک ہندوستانی کو غدار قراردے دیا گیا۔ پرکاش راج نے صفائی بھی دی کہ یہ پوسٹ تفنن طبع کیلئے تھی، ان کا ارادہ نہ تو ملک کی بے عزتی کرنا تھا اور نہ ہی مقصد ملک کے سائنسدانوں کا مذاق اڑانا تھا.... لیکن نفرت کے سوداگر بھلاکہاں مانتے، ان کا تو کاروبار ہی نفرت بیچنا ہے۔
 خیر آگے بڑھتے ہیں ، منگل کو ’فائیڈ ورلڈ کپ ۲۰۲۳ء ، میگنس کارلسن، پرگیانندا‘‘ ٹرینڈنگ تھے۔ شطرنج کے عالمی کپ میں ۱۸؍ سالہ رمیش بابو پرگیانندا نے ہندوستان کا نام روشن کیا۔ اس نوجوان گرینڈماسٹر نے شطرنج کے عالمی کپ میں اوّل نمبر کے کھلاڑی میگنس کارلسن کو بساط پر اپنی چالوں سے خوب پریشان کیا۔ ان کے مابین دو میچ ڈرا ہوئے۔ تاہم ٹائی بریکر میچ میں پرگیا نندا کو مات ہوگئی۔ کارلسن نے خطاب جیتا اورپرگیانندا نے دل۔ لوگوں نے اس بات کو بخوبی جانا کہ’’مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا‘‘ پرگیانندا کے کھیل ،حکمت عملی اور ہمت کی خوب پزیرائی کی گئی ۔ وزیراعظم سے لے کر وزراء اور لیڈران سے لے کر عام شہریوں تک نے ۱۸؍سالہ پرگیانندا کا حوصلہ بڑھایا۔ 
  اہل ہند کیلئے یہ ہفتہ جشن کا ہفتہ رہا،کیوں نہ ہوتا ملک کے سائنسدانوں نے چاندجو تسخیر کرلیا۔بدھ کی شام کو چندریان۳؍ چاند کے قطب جنوبی کی سطح پر اترنے میں کامیاب رہا۔ اس خبر کا زمین پر پہنچنا تھا کہ ہر ہندوستانی جھوم اٹھا۔ سوشل میڈیا پر مبارک سلامت کا شور مچا۔سبھی نے اسرو اور سائنسدانوں کی محنت شاقہ کا اعتراف کیا ۔یہ جشن دیکھ کر لگا کہ ہر کوئی شیٖرو شکر ہوگیا ہے ۔ مذہب،ذات، زبان، تہذیب، خطے سے اوپر اٹھ گیا ہے۔ اسلئے یہ اتحاد ،یگانگت دل کو سکون دینے والا لگاجسے بہتوں نے محسوس بھی کیا۔ ہمارے فیس بک فرینڈسعداللہ شاہد نے فیس بک پرلکھا کہ ’’مذہب سے جدا جدا، سائنس سے یکجا!آئیے سائنسی طرز فکر کو فروغ دیں ۔‘‘ سوشل میڈیا ذرائع پر بدھ،جمعرات تک ’’چندر یان ۳؍ لینڈنگ، اسروانڈیا، مون ٹوڈے،انڈیا آن دی مون، جئے ہند، وکرم لینڈر،چندا ماما، ساؤتھ پول جیسے ہیش ٹیگز کا غلبہ تھا۔
 فیک نیوز کیا گل کھلاتی ہے، اس کی ایک اور مثال اس ہفتے دیکھنے کو ملی ۔ زمبابوے کے سابق کھلاڑی ہنری اولونگا اس کے جھانسے میں آگئے اور انہوں نے’ایکس پوسٹ‘ میں اپنی ٹیم کے ساتھی رہے کھلاڑی ہیتھ اسٹریک کی موت کی خبر اڑادی ۔ بعد میں انہیں پتہ چلا کا یہ ’فیک نیوز ‘ تھی۔ انہوں نے شرمندگی کے ساتھ اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا اور ایک وضاحتی بیان دیا کہ ہیتھ اسٹریک حیات اور خیریت سے ہیں ۔ 
 جمعہ کو نیہا پبلک اسکول کے کمرہ جماعت کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا ذرائع پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ اس میں ایک ادھیڑ عمر کی ٹیچرایک طالب علم کو اس لئے ہم جماعتوں سے تھپڑلگوارہی ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے۔ اس افسوسناک صورتحال نے حساس دلوں کو تڑپادیا۔ فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف لوگ چیخ پڑے۔ غم و غصے کا آتش فشاں پھٹ پڑا، لوگوں نے ’اریسٹ تِرِپتا تیاگی‘‘ کا ہیش ٹیگ چلایا۔ ’ نیہا پبلک اسکول، ترپتا تیاگی، ہندومسلم جیسے عنوانات موضوع بحث رہے۔ سیاسی لیڈران، سماجی کارکنان، صحافی ، فلم اداکار، عام آدمی سبھی نے اس خاتون ٹیچر کی نفرت انگیزی اور بڑھتی فرقہ واریت کے خلاف آواز اٹھائی۔ راہل گاندھی نے اس پر فکرمندی کا اظہار کیا، جس پر لوگوں نے راہل گاندھی کو مشورہ دیا کہ وہ التمش اور اس کے والد سے ضرور ملاقات کریں ۔ اس معاملے پر ٹونی جوزف نامی مصنف لکھتے ہیں کہ ’’اترپردیش میں جو خاتون ٹیچر نے کیا، تقریباً وہی کام روزانہ ہندوستانی ٹیلی ویژن نیوز کے تقریباً سبھی اینکر کررہے ہیں ۔‘‘
 سارتھک گوسوامی نامی صارف نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ ’’ایک وقت تھا جب پورا سال بیت جاتا تھا ہم جماعتوں کا پورا نام پتہ نہیں ہوتا تھا۔ سرنیم سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ٹفن کسی کا بھی کھلے ہاتھ سب کے آگے آتے تھے۔ ایسے ہندوستان کو میں جانتا ہوں، جسے ہم نے کھودیا ہے۔‘‘ 
 صحافی شیوم وِج نے اس خاتون ٹیچر کی صفائی کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اب وہ اسلاموفوبیا سے انکار کررہی ہے اور وِکٹم کارڈ کھیل رہی ہے۔ چلئے اسلاموفوبیا کو درکنا رکرتے ہیں ، اس ٹیچر کو پتہ ہونا چاہئے کہ بچوں کو مارنا غیر قانونی ہے ، چاہے وہ معذور ہو کہ یا نہ ہو۔ اس کا اسکول بند ہونا چاہئے۔‘‘
 قصہ مختصر اس نفرت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی بڑی تعداد نظر آئی۔ یہ ہونا بھی چاہئے کیونکہ بقول چرن سنگھ بشر:
یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے
علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK