• Sun, 23 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: کہاں کہاں سے مٹاؤگے اُردو کو؟

Updated: February 23, 2025, 2:26 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پچھلے دنوں اسمبلی میں اپوزیشن پر تنقید کی آڑ میں اردو کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ یوگی کی اس تنگ نظری کیخلاف سوشل میڈیا صارفین جم کر برسے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے پچھلے دنوں اسمبلی میں اپوزیشن پر تنقید کی آڑ میں اردو کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ یوگی کی اس تنگ نظری کیخلاف سوشل میڈیا صارفین جم کر برسے۔ سریندر پاٹھک نامی صارف نے فیس بک پر ایک طویل پوسٹ شیئر کی، اس کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں۔ ’’اردو کی کھوج بھارت میں ہوئی، اردو بھارت کا ورثہ ہے، اردو کسی مذہب کی جاگیر نہیں، اردو زبان ہے، رابطے کا ذریعہ ہے، اردو صرف بقرعید کا گوشت نہیں، عید کی سوئیاں نہیں ہے، یہ بھارت کی نایاب دریافت ہے۔ ہمارا رام پرساد خود کے آگے بسمل لکھتا تھا، ہمارا بھگت (سنگھ) اردو میں شاعری کرتا تھا، ہمارا رگھو پتی سہائے’فراق‘ ہوجاتا تھا، ہمارے پٹیل کو اچھی اردو آتی تھی اور نہرو بھی اچھی اردو بولتے تھے، ہر محبت کرنے والا انسان اردو بولتا ہے۔ ہر گیت گانے والا دل اردو بولتا ہے، ہر شعر و شاعری کرنا والا شخص اردو بولتا ہے۔ جنہیں لگتا ہے کہ اردو کے بنا بھارت ہے، تو وہ صرف ایک گھنٹے بغیر اردو بولے گزار کر دکھادیں .... ہے کسی کی اوقات؟ دیکھو اوقات بھی اردو ہے۔ کہاں کہاں سے مٹاؤگے اردو کو؟ پہلے اپنی زبان سے مٹاکر دکھاؤ تو مانیں۔ دیکھو، زبان بھی اردو ہے۔ اردو کے خلاف تمہاری نفرت بھی اردو ہے۔ محبت بھی اردو ہے اور عشق بھی اردو ہے۔ ‘‘اس پوسٹ میں اس طرح کے بیسیوں الفاظ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ 
ڈاکٹر راکیش پاٹھک نے ایکس پر لکھا کہ’’ سنئے یوگی جی، اردو اسی ملک کی زبان ہے، یہیں پیدا ہوئی ہے، اسے کٹھ ملا بنانے والی زبان بتاکر بے حرمتی نہ کیجیے۔ امیر خسرو، میر، غالب، اقبال سے لے کر پریم چند تک اردو کی شان ہیں۔ ‘‘
آپ کے لیڈر سنجے سنگھ نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ’’یوگی جی نے اپنے۴؍منٹ ۲۸؍سیکنڈ کے اردوکے خلاف دئیے گئے بیان میں ۹؍الفاظ اردو کے استعمال کئے۔ طبقے، پائیدان، اگر، بات، بچوں، عادی، سرکار، اندر، دنیا۔ ‘‘ ہندی کے سینئر صحافی ارملیش نے فیس بک پوسٹ میں لکھا کہ ’’اردو ایک خوبصورت زبان ہے، میرے کئی دوست ہیں جن کی اردو بہت اچھی ہے۔ ان میں کچھ ہندی میں لکھتے ہیں۔ ان کی ہندی بھی پڑھ کر طبیعت خوش ہوجاتی ہے۔ کاش میں نے بھی زمانہ طالب علمی میں اردو پڑھ لکھ لی ہوتی۔ میری ہندی مزید بہتر ہوجاتی۔ بہت اچھا لگتا ہے جب کبھی اردو کے جانے پہچانے شبدوں سے سجی ہندی پڑھتا ہوں۔ اردو اور ہندی دو الگ لیپی الگ بھاشائیں ہیں، پر دونوں کو پوری طرح جدا نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی لڑایا جاسکتا ہے۔ ‘‘ معروف ناشر ادارہ’راج کمل پرکاشن‘ نے ایکس پر ’ساتھ پڑھیں ساتھ جڑیں ‘کے ہیش ٹیگ کے ساتھ شمشیر بہادر سنگھ کے یہ اشعار شیئر کئے : وہ اپنوں کی باتیں، وہ اپنوں کی خو-بو/ہماری ہی ہندی ہماری ہی اردو/یہ کوئل و بلبل کے میٹھے ترانے / ہمارے سوا اس کا رس کون جانے۔ ‘‘ 
فری لانس صحافی روہنی سنگھ نے یوگی کے بیان پر طنزاً لکھا کہ ’’اردو تو لکھنوی تہذیب کی زبان ہے، ہندوستان کی اپنی زبان ہے۔ ہاں ، آپ کی زبان نہ ہی یوگی کی ہے، نہ ہی ایک وزیراعلیٰ کی۔ ‘‘
ہسٹری سیل نامی ایکس اکاؤنٹ سے یہ پیغام جاری کیا گیا کہ ’’اردو کسی دھرم کی نہیں بلکہ ہندوستانی تہذیب کی زبان ہے۔ اسے ہندو، مسلمان، سکھ سبھی نے اپنایا اور سینچا۔ گنگا جمنی تہذیب کی پہچان ہے اردو۔ نیہا سنگھ راٹھور نے معروف ایجوکیٹر وکاس دیویہ کرتی کے اردو کے حق میں دئیے گئے ایک بیان کی کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اردو کو ہم ایک روز مٹا دیں گے جہاں سے / یہ بات بھی کمبخت نے اردو میں کہی تھی۔ ‘‘
منوج کمار جھا نے حسن کاظمی کا یہ شعر، شیئر کیا کہ’’ سب مرے چاہنے والے ہیں مرا کوئی نہیں / میں بھی اس ملک میں اردو کی طرح رہتا ہوں۔ ‘‘آشوتوش مشرا نےاس شعر سے اپنا مطمع نظر بیان کیا ’’بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا / ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا۔ ‘‘سوشل ٹائمس کے ہینڈل سے پرانے خطوط کی تصاویر کے ساتھ لکھا گیا کہ ’’’ساورکر ایام اسیری میں اردو میں غزلیں لکھا کرتے تھے، یوگی آدتیہ ناتھ بتائیں کہ کیا ساورکر بھی کٹھ ملا تھے؟‘‘ سینئر صحافی اوم تھانوی نے لکھا کہ’’ اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھنے والے بتائیں کہ ہندی کو ہندی نام فارسی سے اور ہندی کے سیکڑوں الفاظ فارسی - عربی - ترکی - پشتو سے کیوں ہیں ؟ بنگلہ دیش کی بھاشا اردو کیوں نہیں ہے؟ اس سال کا اردو کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ پانے والا شین کاف (شیو کرشن) نظام کیا مسلمان ہے؟‘‘
ملٹی میڈیا جرنلسٹ ثاقب نے ایکس پر اردو پر تھریڈ شیئر کیا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’اردو زبان اور ہندوستان : اردو شاعر مولانا حسرت موہانی نے اس دور میں انگریزوں کے خلاف لڑائی شروع کی جب گاندھی جی میدان میں نہیں آئے تھے۔ آج آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگ اردو کے خلاف طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں۔ آزادی کی لڑائی کے دور میں اردو ادب کے قلمکاروں نے لوگوں کو بیدار کرنے کا کام کیا۔ عاشقی سے معطر اردو ادب۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک برطانوی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کا ذریعہ بنا۔ اردو شاعر الطاف حسین حالی، شبلی نعمانی، برج نرائن چکبست، حسرت موہانی، ظفر علی خان، جوش ملیح آبادی، علامہ اقبال، درگا سہائے، محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی جوہر، سرور جہان آبادی، بسمل عظیم آبادی، ترلوک چندمحروم جیسے درجنوں شاعروں کے ساتھ اردو نے منظم ہوکر جنگ آزادی میں اہم کردار نبھایا...‘‘ غرضیکہ اردو کے آشفتہ سروں اور چاہنے والوں کی جانب سے اس طرح کے تاثرات و ردعمل ایکس، فیس بک پر جابجا نظر آرہے ہیں۔ وہیں انسٹا گرام اور یوٹیوب شارٹس پر اردو اشعار کے ویڈیوز بھی خوب شیئر کئے جارہے ہیں۔ ان ہی میں شاداب بے دھڑک کے یہ اشعار رِیلس اور شارٹس کی شکل میں خوب پسند کئے جارہے ہیں، انہوں نے اردو کے متعلق اپنے منفرد انداز میں کئی مشاعروں میں یہ کہا ہے کہ’’ہند کی آن بان ہے اردو، رونق دو جہاں ہے اردو، کیا کہا اردو غیر ملکی ہے، تیری ماں کی زبان ہے اردو۔ ‘‘ 
جاتے جاتے سمپورن سنگھ کالرا جنہیں اردو نے گلزار کردیا کی مشہور نظم اردو زباں کے یہ اشعار پڑھتے جائیں : بڑی شائستہ لہجے میں اردو سن کر / کیا نہیں لگتا کہ ایک تہذیب کی آواز ہے اردوَ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK