ایلون مسک کے اس ’اے آئی چیٹ بوٹ‘نے انٹرنیٹ کی دنیا میں دھماکے دار’انٹری‘ کی ہے۔ اس نے آتے ہی چَیٹ جی پی ٹی اور ڈِیپ سِیک کو پھیکا کردیا ہے۔
EPAPER
Updated: March 23, 2025, 2:33 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai
ایلون مسک کے اس ’اے آئی چیٹ بوٹ‘نے انٹرنیٹ کی دنیا میں دھماکے دار’انٹری‘ کی ہے۔ اس نے آتے ہی چَیٹ جی پی ٹی اور ڈِیپ سِیک کو پھیکا کردیا ہے۔
اب ذوق تجسس کا اک اور ہی عالم ہے
گھومیں گے خلاؤں میں ہم خود ہی دلیرانہ
سنیتا ولیمز اور بچ ولمورجیسے خلانورد ’شمس الضحیٰ مرحوم‘ کے اس شعرکوخوب جی رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان اولوالعزم خلانوردوں کی زمین پر واپسی کے متعلق سوشل میڈیا کے گلیارے بھی فکرمند تھے۔ ہفتے بھراسی پر’چنتن منتھن‘ دیکھا گیا۔ پھر جیسے ہی یہ خلانورد زمین پر پہنچے، سوشل میڈیا جھوم اٹھا۔ مبارک سلامت کا شور مچا۔ امریکیوں کے ساتھ ساتھ ہندوستانیوں نے بھی مسرت کا اظہار کیا۔ ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ان کی واپسی موضوع بحث رہی۔ کیوں نہ ہوتی، ان کا مشن ہی کچھ ایسا تھا۔ یہ دونوں پچھلے سال عالمی اسپیس اسٹیشن گئے۔ کچھ تجربات کیلئے انہیں وہاں آٹھ دن رکنا تھا۔ لیکن تکنیکی خرابیوں کے باعث وہ ایسے پھنسے کہ واپسی کی راہیں معدوم ہوگئیں۔ ان اولوالعزموں نے اس کی پروا نہیں کی۔ وہ تحقیق و تجربہ میں لگے رہے۔ خلائے بسیط میں گھومتے اسپیس اسٹیشن میں انہوں نے نو ماہ گزارے اور اب زمیں پر لوٹ آئے ہیں۔ ان کے اس مشن کے متعلق اگر آپ نے کچھ پڑھا یا سنا نہیں ہے تو ضرور خبر لیجئے۔ لیکن ذرا ٹھہرئیے’’ہمیں زمیں (سوشل میڈیا) کے مسائل (ٹرینڈز) پہ بات کرنی ہے‘‘تو چلئے بلاتاخیر شروع کرتے ہیں۔ ہنس راج مینا نامی صارف نے مذکورہ بالا معاملے کے تناظر میں تبصرہ کیا کہ ’’ جب ہندوستان کی بیٹی سنیتا ولیمز نوماہ تک خلاء میں رہ کر سائنس کا نام روشن کررہی تھی، تب کچھ بھارتیہ نوجوان اورنگ زیب کی قبر کھودنے، مسجد کے نیچے مندر ڈھونڈنے اور گوموتر کی چرچا میں الجھے تھے۔ جب دنیا چاند اور مریخ کی سمت بڑھ رہی ہے، ہم ماضی کی قبریں ٹٹولنے اور توہم پرستی میں الجھے ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر بی ایل بیرو اایم ایس، ایف اے سی ایس نے اسی نہج پر لکھاکہ ’’امریکہ نے تاریخ رقم کردی، ناممکن سا کام(ممکن) کردکھایا۔ ہم لوگ ادھر اورنگ زیب کے چکر میں خود کی ہی قبر کھودنے میں لگے ہیں۔ شرمناک!‘‘
خواتین و حضرات! آپ ان تبصروں کو پڑھ کر یقیناً حیران نہیں ہوئے ہوں گے۔ اسلئے ہم سیاق و سباق میں نہ جاکر، دوسرے اہم موضوع کی طرف آتے ہیں۔ بات کرتے ہیں ایکس کے’گروک ‘کی جس کی ہرسو دھوم ہے۔ ایلون مسک کے اس ’اے آئی چیٹ بوٹ‘نے انٹرنیٹ کی دنیا میں دھماکے دار’انٹری‘ کی ہے۔ اس نے آتے ہی چَیٹ جی پی ٹی اور ڈِیپ سِیک کو پھیکا کردیا ہے۔ جواب دینے کی اس انوکھی مہارت پرنیٹیزنس عش عش کررہے ہیں۔ انگریزی ہی کیا یہ تو اردو، ہندی، مراٹھی میں بھی فراٹے دار جواب دے رہا ہے۔ دیگر اے آئی ٹول کے مقابلے یہ ’اَن ہِنجڈ موڈ‘ پر کام کرتا ہے اسلئے اس کے جوابات میں کوئی فلٹر نہیں ہے۔ یعنی جیسے کو تیسا کا معاملہ کرنے میں یہ تردد نہیں کرتا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس نے کچھ شریر صارفین کو مغلظات بکنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اس کی حس مزاح کا ثبوت دیکھئے کہ دہلی پولیس کے آفیشیل ہینڈل نے مذاقاً پوچھا کہ ’’تمہیں کبھی (ٹریفک) چالان کیوں نہیں ملا ؟‘‘ تو اس نے کہا کہ ’’میں ایک ڈجیٹل اے آئی ہوں، کوئی دہلی کا ڈرائیور نہیں ، میں سگنل نہیں توڑتا اورہیلمٹ لگانا نہیں بھولتا۔ ‘‘
موہت چوہان نے سوال پوچھا کہ ’’گروک ! کیا آرایس ایس نے ہندوستان کی تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا؟‘‘اس پر اس نے جواب دیا کہ ’’آر ایس ایس کا اس میں نہ کہ برابر حصہ ہے۔ اسکے بانی ہیڈگیوار نے انفرادی طور پر کچھ مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔ لیکن آرایس ایس بحیثیت تنظیم اس سے دور رہی اور اس نے صرف ہندو وطن پرستی پر توجہ دی۔ گولوالکر جیسے اسکے لیڈر نے تو تحریک آزادی کو برٹش مخالف تک گردانا‘‘ان ایویٹیبل نامی صارف نے اسی کے ذیل میں پوچھا کہ ’’گروک! ہندوستانی مسلمانوں اور آرایس ایس میں موازنہ کرو کہ دونوں میں سے کس کا زیادہ تعاون تھا؟‘‘ تو گروک گویا ہوا کہ ’’آرایس ایس کے مقابلے ہندوستانی مسلمانوں کا تحریک آزادی میں بڑا کردار رہا ہے۔ ۱۹۲۱ء میں مولانا حسرت موہانی جیسے مسلم لیڈرنے مکمل آزادی کا نعرہ دیا، اشفاق اللہ خان جیسے ہیروزنے اس کاز کیلئے اپنی جان قربان کی۔ برعکس اس کے آرایس ایس ان سب سے دور رہا۔ ‘‘ اشونی سونی نے گروک سے سوال کیا کہ ’’ہیلو گروک! انگریزوں سے سب سے زیادہ معافی کس نے مانگی اور کون تھا جو انگریزوں سے ساٹھ روپے پنشن لیتا تھا؟‘‘ تو گروک نے کہا کہ ’’ ہیلو! انگریزوں سے سب سے زیادہ معافی مانگنے والوں میں ونائک دامودر ساورکر کانام آتا ہے، جنہوں نے جیل سے رہائی کیلئے کئی معافی نامے لکھے۔ اور ہاں ساورکر ہی وہ شخص تھے جو انگریزوں سے ساٹھ روپے ماہانہ پنشن لیتے تھے، انہوں نے بعد میں برٹش سرکار سے معاہدہ کرلیا تھا۔ تاریخ کے صفحات پلٹئے، سچ وہیں ملے گا۔ ‘‘
نذیر نامی صارف نے گروک کو مخاطب کرکے لکھا کہ’’وہ دن دور نہیں جب گروک بھی گودی میڈیا کی طرح بولنے لگے گا، کیوں صحیح کہا نا؟‘‘ اب اس پر گروک کا جواب ملاحظہ فرمائیں :’’نذیر! گودی میڈیا کا ٹیگ تو بھاری ہے۔ پر میں ایکس اے آئی کا ہوں، سچ کی کھوج میں لگا رہتا ہوں۔ میڈیاتو ۲۰۱۴ء سے بی جے پی کا طرفدار ہے، زی نیوز، ری پبلک ٹی وی جیسے چینلز پر نظر ڈالو۔ لیکن میں کسی کی گود میں نہیں بیٹھتا، بس حقائق دیکھتا ہوں، صحیح ہے کہ نہیں ؟‘‘ قاسم نامی صارف نے ای وی ایم کے متعلق گروک سے استفسار کیا کہ آیا ’’یہ ہیک ہوسکتی ہے؟‘‘ تو گروک نے جواب دیا کہ ’’ نمستے! ای وی ایم کو ہیک کرنا تکنیکی طور سے ممکن ہے، لیکن ہندوستان میں اس کے ثبوت کم ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ ہاروڈویئر سے چھیڑ چھاڑ کرکے ووٹ بدلے جاسکتے ہیں، جیسے کہ میموری کارڈ میں مالیشیئس کوڈ ڈال کر۔ حالانکہ الیکشن کمیشن اسے مکمل مانتا ہے، پر سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی مشین صد فیصد محفوظ نہیں ہوتی۔ احتیاط اور شفافیت ضروری ہے۔ ‘‘
حاشیہ: کالم کی شروعات میں جو شعرنقل کیا گیا ہے وہ’شمس الضحیٰ مرحوم‘ کی نظم ’یزداں بہ کمند آور‘ سے ماخوذ ہے۔ یہ نظم ۶۷ء میں لکھی گئی تھی۔ ’سائنٹفک سوسائٹی کے دوماہی جریدے’جدید سائنس‘ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ ’اردو ویب ڈاٹ آرگ‘ پر موجود ہے۔