کورونا اور پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول اور کالج بند رہے، اب بھی بند ہیں۔ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔ اسی دوران محکمۂ تعلیم نے آن لائن ایجوکیشن کو فروغ دینے اور اس طرح طلبہ کے تعلیمی نقصان سے نمٹنے کی کوشش کی۔
EPAPER
Updated: February 28, 2021, 6:09 PM IST
کورونا اور پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول اور کالج بند رہے، اب بھی بند ہیں۔ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔ اسی دوران محکمۂ تعلیم نے آن لائن ایجوکیشن کو فروغ دینے اور اس طرح طلبہ کے تعلیمی نقصان سے نمٹنے کی کوشش کی۔
کورونا اور پھر لاک ڈاؤن کی وجہ سے اسکول اور کالج بند رہے، اب بھی بند ہیں۔ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔ اسی دوران محکمۂ تعلیم نے آن لائن ایجوکیشن کو فروغ دینے اور اس طرح طلبہ کے تعلیمی نقصان سے نمٹنے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات کہ اس کی وجہ سے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکی۔ کیوں نہیں ہوسکی اس سے سب واقف ہیں۔ اولین لاک ڈاؤن سے اب تک کی صورتحال، تعلیمی معاملات اور آن لائن تدریس کی بابت لوگوں کی رائے معلوم کی جائے تو بڑی حد تک جو متفقہ رائے سامنے آئے گی اس سے اگر آن لائن ایجوکیشن کی مخالفت نہیں تو اُکتاہٹ ضرور ظاہر ہوگی۔ اس کی وجہ ہمارے ملک کی غربت، ہر ایک کے پاس اسمارٹ فون کا نہ ہونا، ایک گھر میں ایک سے زائد بچوں کا تعلیم سے وابستہ مگر اسمارٹ فون محض ایک ہونا اور نیٹ ورک کے مسائل ہیں۔ ویسے، بنیادی اور ثانوی تعلیم کے تعلق سے ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ تعلیم روایتی انداز ہی کی ہونی چاہئے جس میں طالب علم ، کتاب یا نصاب سے زیادہ اپنے معلم کی موجودگی اور سرپرستی سے سیکھتا ہے۔ البتہ اس کے بعد کی تعلیم آن لائن ہوسکتی ہے جب طالب علم باشعور ہوچکا ہوتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب تک کا ہمارا آن لائن کا تجربہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی ستائش کی جائے۔ مگر آن لائن سے کماحقہ آشنائی اور بڑی حد تک ہم آہنگی نے ہم پر اس کے کئی گوشے وا کردیئے ہیں۔ یہ طریقۂ تعلیم اُن طلبہ کیلئے بہت اچھا ہے جو بڑی عمر کے ہیں یا جن کیلئے حصول تعلیم آسان نہیں۔ آن لائن تعلیم کے ذریعہ وہ گھر بیٹھے یا کاروبار اور ملازمت کرتے ہوئےبھی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ اس میں نہ تو وقت مقررہ پر اسکول یا کالج جانا ہے نہ ہی بیک وقت کئی گھنٹے فارغ کرنے ہیں۔ آن لائن تعلیم گھر بیٹھے، آمدروفت کے اخراجات سے محفوظ رہتے ہوئے اور زیادہ وقت گنوائے بغیر ممکن ہوتی ہے۔ یہ اس کا سب سے روشن پہلو ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ بہت سے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں گیسٹ لیکچرس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایسے لیکچرس طلبہ میں زیادہ مقبول ہوتے ہیں کیونکہ اُنہیں کسی سبجیکٹ ایکسپرٹ سے ملنے، اُس کے خیالات سے استفادہ کرنے اور ممکن ہوا تو اس کے رابطے میں رہنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ اگر کوئی یونیورسٹی کسی گیسٹ لیکچر کا اہتمام کرے تو طلبہ کو اُس کیلئے وقت مقررہ پر کالج پہنچنا، آمدروفت کا وقت صرف کرنا اور خرچ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہی لیکچر آن لائن ہو تو کسی ضرورت کے تحت اپنے گاؤں جانے والا طالب علم ، گاؤں سے بھی اس لیکچر سے استفادہ کرسکتا ہے۔
آن لائن تعلیم کا تیسرا روشن پہلو یہ ہے کہ اس سلسلے کے تحت منعقد کی جانے والی کلاسیز یا لیکچرس میں، جیسا کہ عرض کیا گیا، ’’ کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی‘‘ کی سہولت ایک نعمت ہے جو روایتی طریقۂ درس میں نہیں ملتی۔ اس کا فائدہ یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ کسی آن لائن کورس میں وہ طلبہ بھی شریک ہیں جو مختلف بلکہ دور دراز کے شہروں میں رہتے بستے ہیں۔ یہ کورس آن لائن نہ ہوتا تو کلاسیز میں وہی طلبہ حاضر ہوپاتے جو اُس شہر کے ہیں۔
یہ اور ایسے مثبت پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو حکومت سے زیادہ سے زیادہ آن لائن کورسیز کی اجازت لینی چاہئے اور ان کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ وہ لوگ جو کلاس میں حاضر ہونے کیلئے وقت نہیں نکال پاتے وہ بھی ان کورسیز سے مستفید ہوں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ دینی مدارس بھی اس جانب توجہ دیں