بُری خبریں، اچھی خبریں، دل کو ٹھیس پہنچانےوالی خبریں، دل کو سکون بخشنے والی خبریں، اب وہ وقت آگیا ہے کہ آج کا انسان فیصلہ کرے کہ اُسے کون سی خبروں کو اولیت دینی چاہئے۔یقین کیجئے بُری خبروں کے بہت زیادہ عام ہونے کے اس دور میں بھی اچھی خبروں کا کال نہیں ہے۔
دی ہندو لٹریری فیسٹیول، نیو (این ای ای وی) لٹ فیسٹ (بنگلور)، اوٹی لٹ فیسٹ، شیلانگ لٹ فیسٹ، کیرالا لٹ فیسٹ، حیدر آباد لٹ فیسٹ، کولکاتا لٹ فیسٹ اور دیگر۔ تصویر: آئی این این
دُنیا کتنی بھی بُری ہوجائےاس میں ہر وقت بُرا نہیں ہورہا ہوتا ہے۔ کچھ نہ کچھ اچھا بھی ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جو بُرا ہوتا ہے، بہت تیزی سے مشتہر ہوجاتا ہے۔ جو اچھا ہوتا ہے اُسے اتنی شہرت نہیں ملتی۔ اس میں انسانی فطرت کا بھی دخل ہے۔انسان بُری خبر کی جانب فوراً لپکتا ہے، اچھی خبر بہت جلدی اس کا دامن نہیں تھامتی۔ انگریزی میں کہتے ہیں: ’’بیڈ نیوز سیلس‘‘ یعنی بُری خبر پر کان دھرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔ جب چاروں طرف بُری خبریں پھیلی ہوئی ہوں تو انسان کو اچھی خبر کی تلاش میں نکلنا چاہئے۔ اس کا خیرمقدم او ر پزیرائی کرنی چاہئے، یہ بات ذہن نشین رکھتے ہوئے کہ بُری خبر گھر بیٹھے مل جاتی ہے، اچھی خبر شاذونادر ہی گھر بیٹھے ملتی ہے۔ اس کو تلاش کرنا پڑتا ہے اور اس کی ٹوہ میں رہنا پڑتا ہے۔
اس ضمن میں یاد رہنا چاہئے کہ اگر کوشش کی جائے تو ’’جو کچھ بُرا ہورہا ہے‘‘ کے مقابلے میں ’’جو کچھ اچھا ہورہا ہے‘‘ کی فہرست طویل بھی ہوسکتی ہے۔ طویل ہوگی یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آپ نے اچھی خبریں تلاش کرنے کی کتنی کوشش کی۔ اِس وقت میرے سامنے جو اچھی خبریں ہیں اُن میں سے ایک ہے ادبی میلوں کا بڑھتا اور پھیلتا دائرہ۔ چونکئے نہیں بلکہ یقین کیجئے کہ اب ملک بھر میں ساٹھ سے زیادہ بڑے ادبی میلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان سالانہ تقریبات کیلئے شائقین کئی ماہ پہلے سے انتظار کرتے ہیں۔ ان میں اگر جے پور لٹریری فیسٹیول شامل ہے تو اور بھی کئی ہیں مثلاً: دی ہندو لٹریری فیسٹیول، نیو (این ای ای وی) لٹ فیسٹ (بنگلور)، اوٹی لٹ فیسٹ، شیلانگ لٹ فیسٹ، کیرالا لٹ فیسٹ، حیدر آباد لٹ فیسٹ، کولکاتا لٹ فیسٹ اور دیگر۔ لٹ فیسٹ سے مراد ہے لٹریری فیسٹیول، ادبی میلہ۔ ایک عام تاثر یہ ہوسکتا ہے کہ ادبی میلوں میں صرف ادب کی باتیں ہوتی ہوں گی۔ بلاشبہ ادب کی باتیں ہوتی ہیں مگر ایسے موضوعا ت بھی زیر بحث لائے جاتے ہیں جو سیاسی افق پر چھائے ہوں یا جن کا سماج پر گہرا اثر پڑ رہا ہو۔ مثلاً دی ہندو لٹ فیسٹ میں ایک مباحثہ کا موضوع تھا: ’’مسلم مخالف نفرت کے عہد میں مسلم شناخت‘‘۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے مشہور دانشور ضیاء السلام نے نشاندہی کی کہ ’’اَب مسلمانوں بالخصوص وندھیا کے شمالی علاقوں کے مسلمانوں کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھی جاتی ہے اور ایک ایسا رجحان مستحکم ہوا ہے جس کے سبب ماضی کے فرقہ وارانہ فسادات کی جگہ ہجومی تشدد نے لے لی ہے۔‘‘
ہر وہ شخص جو کل کے فسادات پر اور آج کے ہجومی تشدد پر ملول اور فکرمند ہوگا وہ ایسی بات سنے گا تو اُسے طمانیت قلب حاصل ہوگی مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب بُری خبروں کے درمیان اچھی خبروں کے حصول کی کوشش کی جائیگی مگر کون جانتا ہے کہ اب سے گیارہ بارہ مہینے پہلے چنئی میں منعقدہ ادبی میلے میں یہ بات کہی گئی تھی؟
جس پینل میں ضیاء السلام صاحب تھے اس میں ریوتی لعل بھی شریک تھیں جنہوں نے اپنی کتاب ’’نفرت کی تشریح‘‘ (دی ایناٹومی آف ہیٹ) میں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح نفرت کی سیاست ملک کا غالب رجحان بنا اور اس میں اتنی ’’کشش‘‘ کیوں ہے کہ بہت سوں کے ماتھے پر بل تک نہیں آئے۔ مباحثہ کے دوران اُنہوں نے یہی کہا کہ ’’ گجرات کے ۱۸؍ اضلاع میں مسلم مخالف فسادات بھڑکائے گئے تھے، اس پس منظر میں مَیں نے بحیثیت صحافی یہ جاننے سے دلچسپی لی کہ نفرت پُرکشش کیسے ہوسکتی ہے۔ کتاب میں مَیں نے تین کرداروں کی تشکیل کی جنہوں نے اپنی کہانیاں بیان کیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو متعلقہ فسادات کا حصہ تھے۔‘‘
ایک عام انسان سیاست، سماج، معیشت، صنعت و حرفت وغیرہ کے تعلق سے جو تفصیل حاصل کرتا ہے اُس کا ذریعہ خبریں ہوتی ہیں، وہی جو اچھی بھی ہوتی ہیں اور بُری بھی۔ مگر اپنے محدود اختیار کے سبب وہ بُری خبر کو اچھی نہیں بنا سکتا البتہ بُری خبر سے اُس کا دل کڑھتا ضرور ہے۔ اسی کڑھن کو کم کرنے کیلئے اچھی خبر اپنا کردار ادا کرتی ہے اور اس کا سننے یا پڑھنے والا یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اگر مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا، کچھ نہیں کرسکتا تو کم از کم اتنا اطمینان ضرور ہے کہ کوئی تو ہے جو کہہ رہا ہے اور پُرزور مزاحمت درج کروا رہا ہے۔
پہلے اکا دکا ادبی میلے ہوا کرتے تھے مگر اب بہت سے شہروں میں ان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اُردو میں بھی ہوتا ہے اور اس باب میں سب سے زیادہ مشہور ’’جشن ریختہ‘‘ ہے جس سے اہل اُردو واقف ہیں مگر اُردو معاشرہ میں ابھی ادبی موضوعات ہی زیر بحث ہیں، سیاسی اور سماجی موضوعات کا رجحان زیادہ نہیں ہے۔
دی ہندو لٹریری فیسٹیول ہی کی بات کی جائے تو مجھے ماضی کا ایک میلہ یاد آتا ہے جس میں جسٹس اے پی شاہ نے بڑی عمدہ تقریر کی تھی جو یوٹیوب پر موجود ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جسٹس اے پی شاہ دہلی اور چنئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ اُن کی تقریر کے عنوان پر مَیں چونکے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔ عنوان تھا؟ ادب اور قانون۔ اس موضوع پر سوچوں تو اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ کئی عالی مرتب شاعر و ادیب قانون داں رہے ہیں، کئی قانون داں شاعر و ادیب رہے ہیں اور کئی قانون دانوں حتیٰ کہ ججوں نے اپنے فیصلوں کے سلسلے میں اُردو ادب سے استفادہ کیا ہے مگر جسٹس شاہ نے ڈیڑھ گھنٹے کی اپنی شاندار اور جاندار تقریر میں مثالوں کے ذریعہ سمجھایا کہ ادب کس طرح ججوں کی مدد کرتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو لوگ ادب کو بیکار ِ محض سمجھتے ہیں یا جن کے نزدیک وقت کے ساتھ اس کی معنویت اور افادیت کم ہوگئی ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ یوٹیوب پر جسٹس شاہ کی طویل تقریر اس قابل ہے کہ اسے سنا جائے۔
اس موضوع کے تحت جسٹس کاٹجو کا ذکر بے محل نہ ہوگا جنہوں نے پاکستان میں۲۷؍ سال سے قید ہندوستانی شہری گوپال داس کی رہائی کیلئے قلمبند کئے گئے اپنے فیصلے کا آغاز فیض کے شعر سے کیا تھا:
قفس اُداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو
کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے
جسٹس کاٹجو کے مطابق پاکستانی حکام پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے احترام کا فوری اعلان کیا۔ چند ہی روز بعد گو پال داس کو رہا کردیا گیا۔
مَیں غلط ہوسکتا ہوں مگر میری حقیر رائے ہے کہ لٹریری فیسٹیولس سے اہل اُردو کی واقفیت کم ہے جن میں کئی اہم عصری موضوعات پر بڑی مقتدر شخصیات اظہار خیال کرتی ہیں۔ چلتے چلتے جسٹس کاٹجو ہی کا ایک اور فیصلہ سامنے رکھا جاسکتا ہے جس میں یہ شعر نقل کیا گیا تھا:
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں!
کاٹجو صاحب نے لکھا تھا کہ پاکستان کے کسی جج نے سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک فیصلے کی بابت دریافت کیا تھا کہ کیا یہ فیصلہ اُسی جج کا ہے جو اکثر و بیشتر فیض کے اشعار کا حوالہ دیتے ہیں؟