• Tue, 17 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسپیکرراہل نارویکر کا فیصلہ ،جب کوئی نا اہل ہی نہیں ٹھہرا تو مقدمہ کو یہاں تک لایا ہی کیوں گیا ؟

Updated: January 14, 2024, 12:02 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai

شندے گروپ کے اراکین کی نا اہلی سےمتعلق مقدمہ میں مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکرراہل نارویکر کے فیصلےکے بعد اب یہ کہنا قدرے مشکل ہےکہ ریاست کی سیاست میں شیوسینا کی کیا حیثیت ہوگی ؟

The Maharashtra Speaker finally came out with the same decision, which was expected in the current circumstances. Photo: INN
مہاراشٹر کے اسپیکر کی جانب سے بالآخر وہی فیصلہ آیا، موجودہ حالات میں جس کی توقع کی جارہی تھی۔ تصویر : آئی این این

شندے گروپ کے اراکین کی نا اہلی سےمتعلق مقدمہ میں مہاراشٹر اسمبلی کے اسپیکرراہل نارویکرکے فیصلےکے بعد اب یہ کہنا قدرے مشکل ہےکہ ریاست کی سیاست میں شیوسیناکی کیا حیثیت ہوگی ؟وہ شیوسینا جس کا کبھی ریاست میں دبدبہ ہوا کرتا تھا، اب دوحصوں میں منقسم ہوچکی ہے اور ایسے منقسم ہوئی ہےکہ اس کی بنیادی شناخت ہی داؤ پر لگ چکی ہے۔شندے گروپ کے ۱۶؍ اراکین کے بارے میں اسپیکر نے جو فیصلہ سنایا وہ متوقع تھا کیونکہ اسپیکرایک طرف فیصلہ سنانے میں مسلسل وقت لیتے آئے تھے اوردوسری جانب سے چند دنوں قبل ان کی وزیر اعلیٰ ایک ناتھ شندے سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ یہ واقعات ایسے نہیں ہیں کہ اسپیکرکے فیصلے کوانہیں نظر انداز کرکے دیکھاجائے۔ فیصلہ سنانے میں تاخیرپرراہل نارویکرکو عدالت بھی ڈانٹ پلا چکی ہے ، اپوزیشن مسلسل تنقید کرچکا ہے اور عوامی حلقوں میں بھی اس پرسوالات اٹھائے جا چکے ہیں ۔ان سبھی پہلوؤں کے درمیان راہل نارویکرکا جواب قریب قریب ایسا ہی ہوتا تھا کہ فیصلہ سنانے میں انہیں وقت درکار ہےکیونکہ یہ معاملہ کافی غور وخوض کا متقاضی ہے۔
 اب جو فیصلہ آیا اس میں باغی گروہ کو اصل قراردیا گیا کیونکہ الیکشن کمیشن نے بھی شیوسینا کا انتخابی نشان تیرکمان شندے گروپ کو ہی دینے کافیصلہ سنایا تھا ۔وہاں بھی شندے گروپ ہی اصل قرارپایا تھا جبکہ جو پارٹی کے صدروسربراہ کی حیثیت سے موجود تھا ، سرگرم تھا اور آئینی حیثیت کا حامل تھا ،اسے کچھ نہیں ملا۔اس معاملے میں شیوسینا کے دونوں گروہوں کی جانب سے کل ۳۴؍ پٹیشن داخل کی گئی تھیں جن میں مجموعی طور پر ۵۴؍ اراکین اسمبلی کونا اہل قراردینے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔
  یہ واقعہ یوں تو ہے بہت ہی سادہ کہ ایک پارٹی کے باغی(ایکناتھ شندے) نے دوسری پار ٹی(بی جےپی) کےساتھ مل کر حکومت بنا لی اور پہلےسے موجودوزیر اعلیٰ(ادھو ٹھاکرے) کے پاس اکثریت نہیں رہی جس کی وجہ سے بالاآخر اسے ا ستعفیٰ دینا پڑا ۔ لیکن قانونی اداروں میں پہنچ کر یہ معاملہ تھوڑا پیچیدہ ہوگیااوراس کافیصلہ آنے میں ۲؍ سال لگ گئے کہ کون سی جماعت اصل جماعت ہے!
 ۲۱؍ جون ۲۰۲۲ء کوشندے ۳۴؍ اراکین اسمبلی کے ساتھ ہندوتوا کی بنیاد پرمہا وکاس اگھاڑی حکومت سے علاحدہ ہوگئے تھے اور ادھو ٹھاکرے پربال ٹھاکرے کےنظریات سے سمجھوتے کا الزام لگایا تھا۔ اس کے بعد جو حکومت بنی اس پر اُدھوگروپ کی جانب سے ۵۰؍ کھوکھے والی حکومت کے الزامات لگتے رہے اورشندے گروپ کو مسلسل ’غدار‘ کہا جاتا رہا اورعوامی طور پر بھی یہ واضح تھا کہ کس نے ’غداری‘ کی ہے۔ اس معاملے پر پوری ریاست میں زمینی سطح پر شندے اور ادھوگروپ کے درمیان کشیدگی دیکھی گئی ۔دونوں گروپ ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے رہے۔ادھر قانونی طورپر دیکھا جائےتوشندے کی سربراہی میں ۳۴؍ اراکین کی بغاوت کے بعدادھو نے ایک قراردادپاس کر کے شندے کو ہاؤس لیڈر کے عہدے سے ہٹادیا اوران جگہ اجے چودھری کی تقرری کی اورسنیل پربھو کو پارٹی کا چیف وہپ بنایا گیا۔جبکہ شندے گروپ نے ایک قراردادمنظور کرتے ہوئے اپنے گروپ کا چیف وہپ بھرت گوگاؤلے کو مقرر کیا تھا۔اُدھو گروپ کی جانب سے شندے اوردیگر۱۵؍ اراکین اسمبلی کو نا اہل قراردیتےکی جو اپیل کی گئی تھی وہ شیو سینا (اُدھو)کے چیف وہپ کی خلاف ورزی کی بناء پر ہی کی گئی تھی جبکہ ذرائع کے مطابق شندے گروپ کاکہنا تھا کہ اس کے اراکین اسمبلی کو ایسی کوئی وہپ ملی ہی نہیں ۔ اسی معاملے میں شندے گروپ نے جواباً ادھوگروپ کے ۱۴؍ اراکین کو نا اہل قراردینے کی درخواست دائر کردی تھی۔
  اس دوران ایک اہم پیش رفت یہ بھی ہوئی تھی کہ شندے گروپ کے ۱۶؍ اراکین کو نائب اسمبلی اسپیکرنے نا اہلی کا نوٹس دیا تھا جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ پہنچے۔ اسمبلی کی سطح پر دیکھاجائے تونائب اسپیکر کا یہ نوٹس اہمیت کا حامل تھا اوراس کی بنیاد پرشندے گروپ کے اراکین پرکارروائی کی جاسکتی تھی لیکن اپنے فیصلے میں راہل نارویکر نے اسے نظر انداز کر دیا۔اسے شندے گروپ کو ریاست میں بی جےپی کو اقتدار میں لانے کا انعام قراردینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔
 اس کیس میں ۱۱؍ مئی کوسپریم کورٹ نےاپنے فیصلے میں شندے حکومت کو برقرار رکھاتھا اورادھوکودوبارہ حکومت سازی کااختیار دینے سے معذوری ظاہرکی تھی کیونکہ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے سے پہلے ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیاتھا۔ کہا جاسکتا ہےکہ ادھونے اگر فلورٹیسٹ کا سامنا کیا ہوتا توکہانی کچھ مختلف ہوسکتی تھی ۔سپریم کورٹ اس معاملے میں اس وقت کے گورنربھگت سنگھ کوشیاری کی بھی سرزنش کرچکا ہےجنہوں نے فلورٹیسٹ کا حکم دیاتھا جس کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں تھی کیونکہ بغاوت ان کی آنکھوں کے سامنے ہوئی تھی، ایک حکومت کو غیرمستحکم ان کی آنکھوں کے سامنے کیاگیاتھا ۔ اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ نا اہلی سے متعلق درخواستوں کو نپٹانے میں تاخیرپرراہل نارویکرکو بھی ڈانٹ پلا چکی ہے۔اسپیکر راہل نارویکر نے اپنے فیصلے میں یہ جو بات کہی کہ ادھوٹھاکرےایک ناتھ شندے کو ہاؤس لیڈر کے طورپر ہٹا نہیں سکتے تھےکیونکہ اس کا اختیار پارٹی کی قومی مجلس عاملہ کا تھا ،تنہا ادھو ٹھاکرےکا نہیں ، جانبدارمعلوم ہوتا ہےکہ کیونکہ یہ جو بغاوت کی گئی تھی ،وہ شندے کی سربراہی میں کی گئی تھی اور بغاوت کے بعدانہوں نے کسی نئی پارٹی کا اعلان نہیں کیا تھا بلکہ شیوسینا پر ہی دعویداری کررہے تھے ۔جبکہ یہاں ادھو ٹھاکرےپارٹی سربراہ کی حیثیت سے موجود تھے ۔پارٹی کی قومی مجلس عاملہ کوئی فیصلہ اس وقت کرتی ہے جب کسی موضوع پرمل جل کر بیٹھا جائے اور موضوع بھی وہ جو پارٹی کیلئے کسی مستقل مسئلہ کی شکل اختیار کرگیا ہو۔ یہاں ایک ہنگامی صورتحال درپیش تھی اورا یسی صورتحال میں پارٹی کا سربراہ ہی ہنگامی فیصلہ کرنے کا مجاز ہوتا ہے جو ادھو نے کیا ۔
 راہل نارویکرنے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بنیادبناکر شندے گروپ کو اصل شیوسینا قراردیا ہےجبکہ عدالت کی واضح ہدایت تھی کہ نا اہلی سے متعلق کوئی فیصلہ پارٹی کے اس بنیادی دستورکو مد نظر رکھ کرکیاجائےجو الیکشن کمیشن کو سونپا گیا ہے اور جس پر پارٹی کے دونوں گروہوں کا اتفا ق ہے۔ کسی گروپ کو اصل پارٹی قراردینے کیلئے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ وہ عبوری فیصلہ تھا جس میں شندے گروپ کو شیو سینا کا نشان دیا گیاتھا۔اس فیصلے میں بھی دونوں گروہوں کو نام ’شیوسینا‘ ہی دیاگیاتھا (ایک بالاصاحب کی شیوسینا تھی اوردوسری شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے)۔شیوسینا کی داخلی رسہ کشی کے اس پورے کھیل میں جون ۲۰۲۲ء سے اب تک جو ہوتا آیا ہے اس میں نہ آئینی پہلوؤں کا لحاظ رکھا گیا ہے نہ پارٹی کے بنیادی قانون کا۔پہلےالیکشن کمیشن اوراب اسپیکرکا پورا جھکاؤاکثریت کی طرف رہا ہے۔اس طرح کا فیصلہ ایک متذبذب ذہن کی عکاسی کرتا ہےاور واضح ہوتا ہے بی جے پی نے اپنا اقتدار بچانے کی ہر طرح سے کوشش کی ہےاور کہیں نہ کہیں آئینی اداروں نے بھی اس کی حمایت ہے۔یہ نہیں کہا جاسکتاکہ یہ حمایت شعوری طورپرکی یا لا شعوری طورپر۔سوال یہ بھی ہےکہ جب دونوں گروہو ں کے اراکین میں سے کسی کونا اہل قراردیا ہی نہیں گیاتواس مقدمہ کو یہاں تک لانے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟n

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK